شیخ سدی سعید جنہوں نے آئی آئی ایم احمدآباد کا لوگو دِیا تھا

   

محمد ریاض احمد
ہندوستان میں اگر تعلیمی مراکز کا جائزہ لیں تو پتہ چلتا ہے کہ علیگڑھ مسلم یونیورسٹی، عثمانیہ یونیورسٹی، جامعہ ملیہ اسلامیہ اور جے این یو کے ساتھ ساتھ انڈین انسٹیٹیوٹ آف مینجمنٹ احمدآباد عالمی سطح پر باوقار تعلیمی مراکز تسلیم کئے جاتے ہیں۔ ان اداروں کے ساتھ دوسرے ہندوستانی تعلیمی ادارے عالمی سطح پر اپنی منفرد پہچان رکھتے ہیں۔ اس کی وجہ ان اداروں کے باتیان کی وسیع الذہنی، وسیع القلبی تھی اور ہے۔ مثال کے طور پر ہم نہ صرف اپنے ملک بلکہ دنیا کے چند ایک بہترین بزنس مینجمنٹ اداروں میں شامل انڈین انسٹیٹیوٹ آف مینجمنٹ احمدآباد کا نام لیتے ہیں۔ آئی آئی ایم اے میں دنیا کے بہترین ذہنوں کی تربیت ہوتی ہے اور پھر وہاں کے فارغ التحصیل طلبہ ملک کے سرکاری اور خانگی اداروں میں اہم عہدوں پر فائز رہتے ہوئے ملک و قوم کی خدمت میں مصروف ہوجاتے ہیں۔ انڈین انسٹیٹیوٹ آف مینجمنٹ احمدآباد کا ہندوستان کی معاشی پالیسی بنانے میں اہم کردار رہا ہے جس کا سلسلہ آج بھی جاری ہے۔ ملک کی آزادی کے بعد پہلے وزیراعظم پنڈت جواہر لال نہرو اور ان کی کابینہ نے ہندوستان میں سبز انقلاب (زرعی ترقی)، صنعتی ترقی، سفید انقلاب (ڈیری ڈیولپمنٹ) پر خصوصی توجہ دی اور پھر اندرا گاندھی اور راجیو گاندھی نے ہندوستان کو دفاعی اور انفارمیشن ٹیکنالوجی کے شعبوں میں ترقی یافتہ ملکوں کی صف میں لاکھڑا کیا ہے۔ ہاں! ہم بات کررہے تھے آزادی کے بعد ملک میں ہوئی اختراعی پہل اور آئی آئی ایم احمدآباد کے کردار کی ، اس سلسلے میں آپ کو بتاتے ہیں کہ 1961ء میں خلائی سائنس داں ڈاکٹر وکرم سارا بھائی، ممتاز صنعت کار کشور بھائی لال بھائی کی قیادت میں اس وقت کے چیف منسٹر گجرات ڈاکٹر جیو راج مہتا کے غیرمعمولی تعاون سے انڈین انسٹیٹیوٹ آف مینجمنٹ احمدآباد کا قیام عمل میں لایا گیا۔ اس کے قیام میں ہاروڈ بزنس اسکول نے بھی تعاون کیا۔ جہاں تک ڈاکٹر وکرم سارا بھائی کا سوال ہے۔ وہ ایک ماہر طبیعیات و ماہر فلکیات تھے۔ وہ ’’ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہے‘‘ میں یقین رکھتے تھے۔ انہیں ملک میں خلائی تحقیق شروع کرنے کا اعزاز حاصل رہا اور خاص طور پر ہندوستان کو نیوکلیئر پاور بنانے میں بھی ان کا اہم کردار رہا۔ انہیں ساری دنیا بابائے ہندوستانی خلائی پروگرام کے نام سے یاد کرتی ہے۔ دلچسپی اور حیرت کی بات یہ ہے کہ ہمارے سابق صدرجمہوریہ ڈاکٹر اے پی جے عبدالکلام مرحوم کو ڈاکٹر وکرم سارا بھائی بہت عزیز رکھا کرتے تھے اور دونوں کے درمیان بہت خلوص تھا ، صرف اور صرف ڈاکٹر کلام کی غیرمعمولی صلاحیتیں تھیں جس کے باعث آج دنیا ڈاکٹر عبدالکلام کو ہندوستان کے مرد میزائل Missile Man of India کی حیثیت سے جانتی ہے۔ ڈاکٹر سارا بھائی، ڈاکٹر اے پی جے عبدالکلام کے قدردان تھا اور انہیں پتہ تھا کہ نوجوان اے پی جے عبدالکلام ہندوستان کو خلائی سائنس بالخصوص میزائل ٹیکنالوجی کے میدان میں بہت بلندی پر پہنچائیں گے۔ ڈاکٹر وکرم سارا بھائی کی خدمات کو دیکھتے ہوئے 1966ء میں پدم بھوشن اور 1992ء میں پدم وبھوشن جیسے باوقار قومی اعزازات سے نوازا گیا۔ یہ وہی ڈاکٹر وکرم سارا بھائی ہیں جنہوں نے حیدرآباد میں الیکٹرانکس کارپوریشن آف انڈیا لمیٹیڈ (ECIL) کے قیام میں مدد کی تھی اور آج GSLV-MK3 ، PSLV کے ذریعہ کثیر تعداد میں ملکی و غیرملکی سیٹلائٹس مدار میں چھوڑے جارہے ہیں ، وہ بھی ڈاکٹر سارا بھائی کی کاوشوں کا ثمر ہے چنانچہ 1975ء میں ڈاکٹر وکرم سارا بھائی کی کوششوں کے نتیجہ میں ہی ہندوستان کا پہلا سیٹلائٹ آریہ بھٹ مدار میں چھوڑا گیا تھا۔ ہمارے اس مضمون کا مقصد اسرو، ڈاکٹر وکرم سارا بھائی، ڈاکٹر اے پی جے عبدالکلام کے بارے میں واقف کروانا نہیں بلکہ ایک ایسی شخصیت کے بارے میں دنیا کو واقف کرواتا ہے جس نے خدا ترسی، انسانیت نوازی کے غیرمعمولی کارنامہ انجام دیئے اور اس شخصیت کی صلاحیتوں کے ڈاکٹر وکرم سارا بھائی جیسی شخصیت بھی متعارف تھی۔ اس شخصیت کے بارے میں ہم آپ کو آگے کی سطور میں واقف کرواتے ہیں۔ ہم نے سطور بالا میں آپ کو ڈاکٹر وکرم سارا بھائی اور ڈاکٹر اے پی جے عبدالکلام کی قربت کے بارے میں بتایا۔ اس ضمن میں آپ کو یہ بتانا ضروری سمجھتے ہیں کہ ڈاکٹر وکرم سارا بھائی نے اپنی موت سے صرف ایک گھنٹہ قبل بھی ڈاکٹر اے پی جے عبدالکلام سے فون پر تفصیلی بات چیت کی تھی۔ 52 سال کی عمر میں ان کا پراسرار انداز میں انتقال ہوا۔ دنیا نے ڈاکٹر وکرم سارا بھائی اور انڈین انسٹیٹیوٹ آف مینجمنٹ اور اس کے فارغ التحصیل شخصیتوں رگھورام راجن، سنجیو یلچندانی، اروند سبرامنین، دیپ کیئرا، اجئے پال سنگھ بگا، منویندر سنگھ بگا، وی کامت، کرناکارتک، چنتن بھگت اور ہرشا بھوگلے کو تو یاد رکھا لیکن اس عظیم شخصیت کو فراموش کردیا جس نے انڈین انسٹیٹیوٹ آف مینجمنٹ کا لوگو ڈیزائن کیا تھا۔ ان کی قدر دانی ڈاکٹر وکرم سارہ بھائی نے کی تھی۔ قارئین! ہم آج آپ کو اس عظیم شخصیت کی یاد دلاتے ہیں جنہوں نے آئی آئی ایم اے کو لوگو عطا کرتے ہوئے عالمی سطح پر اس کے وقار میں اضافہ کا باعث بنے۔ ہم بات کررہے ہیں شیخ سعیدالحبشی سلطانی المعروف، سدی سعید جنہوں نے گجرات کے تاریخی شہر احمدآباد میں انتہائی خوبصورت فن تعمیر کی شاہکار مسجد سدی سعید کی تعمیر کروائی۔ اس مسجد کو سدی سعیدنی جالی کہا جاتا ہے۔ 980ء ہجری 1572-73ء میں اس مسجد کی تعمیر عمل میں لائی گئی۔ مسجد کی تعمیر میں اعلیٰ قسم کے سنگ کا استعمال کیا گیا اور مسجد کی خاصیت اس کی سنگ میں تراشی گئیں جالیاں ہیں۔ مسجد کو آپ بلاشبہ فن تعمیر کی شاہکار کہہ سکتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جب بھی کوئی بیرونی سربراہ مملکت صدور وزرائے اعظم گجرات کا دورہ کرتے ہیں تو مسجد سدی سعیدنی جالی کی خوبصورتی کا مشاہدہ ضرور کرتے ہیں۔ کچھ سال قبل وزیراعلیٰ نریندر مودی نے جاپان کے سابق وزیراعظم شنزو ابے اور ان کی اہلیہ کو اس تاریخی مسجد کا تفصیلی دورہ کروایا تھا۔ مسجد سدی سعیدنی جالی اور انڈین انسٹیٹیوٹ آف مینجمنٹ احمدآباد کا گہرا تعلق ہے اور وہ تعلق IIMA کے لوگو کے ذریعہ قائم ہوا ہے۔ جب 1961ء میں اس باوقار ادارہ کا قیام عمل میں آیا تب ڈاکٹر وکرم سارہ بھائی نے مسجد سدی سعیدنی جالی کی تعمیر کروانے والے سدی سعید کا خیال کیا اور پھر ان کی مسجد کی جالی کے ڈیزائن کو جو ایک درخت ِ حیات (Life Tree) کی شکل میں تراشا گیا تھا۔ انڈین انسٹیٹیوٹ آف مینجمنٹ احمدآباد کا لوگو بنالیا اور شاید اس اسم احمدآباد اور اس لوگو کا اثر رہا کہ ساری دنیا میں IIMA نے غیرمعمولی شہرت حاصل کی۔ IIMA دراصل 20 سرکاری۔ خودمختار انسٹیٹیوٹ آف مینجمنٹ ایجوکیشن اینڈ ریسرچ کا گروپ ہے۔ اسے NIRF-2021 میں اول درجہ (فرسٹ رینک) حاصل ہوا۔ وہ ہندوستان کا نمبرون IIM ہے۔ ملک کا اعلیٰ ترین بزنس اسکول ہونے کا اعزاز رکھتا ہے۔ IIMA لوگو دینے والے شیخ سعیدالحیشی سلطانی دراصل حبشہ سے یمن اور یمن سے گجرات آئے تھے۔ وہ ترک جنرل رومی خاں کے غلام تھے۔ انہوں نے بعد میں دہلی سلطنت کے سلطان محمود سوم کیلئے خدمات انجام دیں اور سلطان کے انتقال کے بعد حبشہ کے جنرل جھجھر خاں کے ساتھ ہوگئے۔ فوجی خدمات سے سبکدوشی کے بعد جھجھر خاں نے سدی سعید کو ایک جاگیر عطا کی۔ ان کی تعمیر کرائی گئی مسجد دیکھا جائے تو شہر احمدآباد کی غیرسرکاری علامت ہے۔ بہرحال سدی سعید نے اپنی سبکدوشی کے بعد حج بیت اللہ کی سعادت حاصل کی۔ ایک بہت بڑا کتب خانہ قائم کیا۔ ان کے یہاں 100 سے زائد غلام تھے۔ وہ ضرورت مندوں خاص طور پر بھوکوں کی مدد کیلئے ہمیشہ آگے رہتے چنانچہ انہوں نے ایک بہت بڑا لنگر خانہ بھی قائم کیا تھا۔ آج جس مقام پر یہ کھڑی ہے۔ وہاں اینٹوں کی ایک چھوٹی مسجد ہوا کرتی تھی۔ سدی سعید نے اس مسجد کے مقام پر عالیشان مسجد تعمیر کی۔ وہ1576ء میں اس دارِ فانی سے کوچ کرگئے۔ مسجد کے قریب ہی ان کی تدفین عمل میں آئی۔ انگریزوں نے مسجد کو دفاتر میں تبدیل کردیا تھا لیکن لارڈ کرزن نے تاریخی آثار کے تحفظ کیلئے مسجد کو سابقہ حالت میں بحال کرنے کا حکم دیا۔
mriyaz2002@yahoo.com