شیخ سعدی شیرازیؒ

   

محمد ریاض احمد
شیخ سعدی ؒ کو کون نہیں جانتا، دنیا بھر میں اُنہیں ایک معلم، ایک سیاح، ایک شاعر، ایک ادیب، ایک مورخ، ایک فلسفی، ایک مصلح کی حیثیت سے جانا جاتا ہے۔ انہوں نے بے شمار کتابیں تصنیف کی ہیں لیکن ’’گلستان بوستان‘‘ کو زبردست عوامی مقبولیت حاصل ہوئی۔ بحیثیت سیاح و طالب علم ابو محمد مصلح الدین بن عبداللہ شیرازی کا قلمی نام ’’سعدی‘‘ ہے اور دنیا اُنہیں ’’سعدی شیرازی‘‘ کے نام سے بھی جانتی ہے۔ وہ فارسی کے ایک عظیم شاعر و نثر نگار تھے۔ سعدی شیرازیؒ کی پیدائش 1210ء میں ایران میں ہوئی اور ان کے اپنے ہی شہر شیراز میں 100 برس کی عمر میں 1292ء میں وہ انتقال کرگئے۔ شیراز کے ایک باغ میں ان کی تدفین عمل میں آئی۔ انہیں استادِ سخن کہا جاتا تھا۔ برطانیہ کے موخر روزنامہ ’’دی گارجین‘‘ نے سعدیؒ کی کتاب ’’بوستان‘‘ کو دنیا کی 100 بہترین کتابوں میں سے ایک قرار دیاہے۔ شیراز کو باغات کا شہر کہا جاتا تھا اور دنیا کے خوبصورت شہروں میں اس کا شمار ہوا کرتا تھا۔ سعدی شیرازیؒ کے بارے میں جو کچھ مواد ملتا ہے، اس کے مطابق والد کی وفات آپ کے بچپن میں ہی ہوگئی۔سعدیؒ کو غربت و افلاس کا سامنا کرنا پڑا۔ انہوں نے کم عمری میں کافی مشکلات بھی برداشت کیں لیکن حصول علم کے شوق نے ان کی قسمت بدل کر رکھ دی۔ شیخ سعدیؒ نے تعلیم کی خاطر اپنے خوبصورت آبائی شہر کو خیرباد کہا اور بغداد پہنچے۔ اس سے قبل سعدیؒ نے شیراز میں ہی اپنی ثانوی تعلیم مکمل کرلی تھی۔ بغداد میں ان کا داخلہ جامعہ مدرسۃ النظامیہ میں ہوگیا۔ وہ اس وقت دنیا کی سرفہرست یونیورسٹی تسلیم کی جاتی تھی۔ مدرسۃ النظامیہ کا کتب خانہ دنیا بھر میں ایک منفرد شناخت رکھتا تھا جہاں مختلف علوم کے 10 لاکھ سے زائد کتب و مخطوطات محفوظ تھے۔ واضح رہے کہ بغداد کی مدرسۃ النظامیہ13 ویں صدی میں دنیا کی واحد عالمی یونیورسٹی تھی اس وقت یوروپ جہالت کی تاریک میں ڈوبا ہوا تھا۔ عالمی سطح پر شیخ سعدی شیرازی ؒکو جو اہمیت دی جاتی ہے، اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اقوام متحدہ (UNO) ہر سال 21 اپریل کو ’’سعدی عالمی یوم‘‘ مناتی ہے۔ شیخ سعدیؒ نے مدرسۃ النظامیہ میں اسلامی سائنس، قانون، حکمت و فلسفہ تاریخ، عربی ادب اور اسلامی الٰہیات کی تعلیم حاصل کی اور پھر مدرسۃ النظامیہ سے فارغ التحصیل ہونے کے بعد بے شمار ملکوں کی سیر و سیاحت کیلئے نکل پڑے جن میں شام، مصر، انتولیہ اور برصغیر بھی شامل ہیں۔ انہوں نے متحدہ ہندوستان کے اکثر تاریخی شہروں کا دورہ کیا اور مختلف ملکوں اور شہروں کے صارفین سے بھرے پررونق بازاروں کا مشاہدہ کیا۔ ایک سے ایک اور عقلوں کو حیران کرنے والے فنون لطیفہ کے نمونے بھی ان کے مشاہدہ میں آئے۔ شاہی درباروں کا نظارہ کیا۔ بادشاہوں، قبائیلی سرداروں، علماء و مشائخین، بزرگان دین اور دانشوروں فنانوں سے ملاقاتیں بھی کیں۔ شیخ سعدی ؒنے خود کو صرف قرطاس و قلم تک ہی محدود نہیں رکھا بلکہ تیر و تلوار بھی تھامی۔ انہوں نے صلیبی جنگوں میں حصہ لیتے ہوئے جہاد بھی کیا اور ایک جنگ میں انہیں سات برسوں تک جنگی قیدی بھی بننا پڑا اور انہیں ایک غلام کی حیثیت سے خندقیں کھودنے کا کام بھی کرنا پڑا۔ مملوکوں کی جانب سے تاوان ادا کرنے پر شیخ سعدیؒ اور دوسرے بے شمار جنگی قیدیوں کی رہائی عمل میں آئی۔ قید سے رہائی کے بعد بتایا جاتا ہے کہ شیخ سعدیؒ بیت المقدس گئے، وہاں سے مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کا رخ کیا ۔ بیس برسوں تک وہ اپنے وطن سے دور رہے اور دنیا بھر کا تجربہ و مختلف علوم حاصل کرتے ہوئے شیراز واپس پہنچے تاہم خراساں میں ان کی ملاقات ایک ترک امیر طغرل سے ہوئی اور دونوں بہت جلد گہرے دوست بن گئے۔ اسی طغرل کے باعث شیخ سعدیؒ کو برصغیر کا دورہ کرنے کا موقع ملا۔ طغرل کے ساتھ وہ پہلے سندھ پہنچے جہاں انہیں مشہور صوفی بزرگوں کی زیارت نصیب ہوئی۔ ان میں سے ایک پیر پتر بھی تھے جو ایرانی صوفی شیخ عثمان مروندی کے مرید تھے۔ اس سفر میں شیخ سعدیؒ کو وسطی ایشیائی ممالک کی سیر کا موقع ملا اور بطور خاص ان مسلمانوں سے ملاقات کی جو منگول حملوں سے بچ گئے تھے چونکہ طغرل، سلطنت دہلی کی ملازمت حاصل کرچکا تھا۔ اس نے شیخ سعدیؒ کو بھی اپنے ہاں مدعوکیا اور پھر سعدی شیرازیؒ ہندوستان پہنچے دہلی اور گجرات میں قیام بھی کیا۔ اس دوران انہیں سومناتھ مندر کے مشاہدہ کا موقع بھی ملا۔
ہندوستان میں شیخ سعدیؒ کے چاہنے والوں کی کوئی کمی نہیں ہے اور ماضی میں نوبل لاریٹ رابندر ناتھ ٹیگور بھی ان کے چاہنے والوں میں شامل تھے چنانچہ انہوں نے 1932ء میں ایران کا دورہ کرتے ہوئے شیخ سعدیؒ کی مزار پر حاضری دی تھی اور گلہائے عقیدت پیش کرکے اپنے تاثرات بھی قلمبند کئے تھے۔ انہوں نے اپنی 71 ویں سالگرہ بھی شیراز میں بنائی تھی۔ شیراز میں حضرت شیخ سعدیؒ کی مزار جس باغ میں موجود ہے، اس باغ میں رابندر ناتھ ٹیگور کے اعزاز میں استقبالیہ کا اہتمام کیا گیا تھا اور اس میں عوام کا جمِ غفیر دیکھا گیا۔ رابندر ناتھ ٹیگور نے حافظ شیرازی کی مزار پر بھی حاضری کا شرف حاصل کیا ۔ آپ کو بتادیں کہ رابندر ناتھ ٹیگور نے اپنی بہو پریتما دیوی، اپنے ادبی سیکریٹری امیا چکرورتی کے ہمراہ ایران کا دورہ کیا تھا، وہ خواجہ شمس الدین محمد حافظ شیرازی سے بھی بہت متاثر تھے۔ رابندر ناتھ ٹیگور کے والد کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ حافظ شیرازی کا کلام بہت پڑھا کرتے تھے۔
شیخ سعدیؒ کو ان کی حکایات اور اقوال زرّین کے باعث کافی شہرت حاصل ہوئی۔ سعدیؒ کے بارے میں مشہور ہے کہ گجرات کی سومناتھ مندر کے پجاریوں کو انہوں نے بے نقاب کرنے کی کوشش کی جس پر ایک تنازعہ پیدا ہوا اور اس کے نتیجہ میں انہیں گجرات چھوڑنا پڑا۔ سعدی ؒنے اپنی شاعری میں خلافت عباسیہ کے زوال اور 1258ء میں ہلاکو خاں کی زیرقیادت منگول حملہ آوروں کے ہاتھوں بغداد کی تباہی و بربادی کا غم منایا۔ واضح رہے کہ 1231-60ء شیراز عطابک ابوبکر ابن سعد کی حکمرانی میں رہا جو فارس کا سلجوقی حکمراں تھا۔ بعض اسکالرس کا خیال ہے کہ سعدیؒ نے فارسی تخلص سعد ابوبکر کے فرزند سعد سے اخذ کیا اور انہوں نے گلستان کو سعد کے نام معنون کیا۔ شیخ سعدی شیرازی ؒ سنی اور شافعی المسلک تھے اور آل رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے بہت محبت رکھتے تھے۔
انہوں نے اہلبیت اطہارؓ سے محبت کا اظہار کرتے ہوئے یہ نظم لکھی:
سعدی اگر عاشقی و جوانی
عشق محمد بس است و آل محمد
خدایا بحق بنی فاطمہ
کہ برقول ایمان کنم خاتمہ
اگر دعوتم ردکنی یا قبول
من و دست و دامان أل رسولؐ
شیخ سعدیؒ کی حکایات اور اقوال بہت دلچسپی سے پڑھے اور سنے جاتے ہیں۔ ان کا ایک مشہور قول ہے کہ ’’ایسے دوست سے ہاتھ دھولینا بہتر ہے جو تیرے دشمنوں کے ساتھ بیٹھتا ہے‘‘۔ ایک قول یہ بھی ہے کہ ’’اگر چڑیوں میں اتحاد ہوجائے تو وہ شیر کی کھال اُتار سکتی ہیں‘‘۔ شیخ سعدیؒ کی حکایات میں ایک حکایت بہت مشہور ہے، وہ یہ ہے: ’’میں پوری زندگی دو بندوں کی تلاش کرنے پر بھی تلاش نہ کرسکا ایک وہ جس نے اللہ کے نام پر دیا ہو اور غریب ہوگیا ہو، دوسرا وہ جس نے ظلم کیا ہو اور اللہ کی پکڑ سے بچ گیا ہو۔ ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں شیخ سعدیؒ کی لکھی گئی یہ رباعی:
بلغ االعلے بکمالہ
کشف الدجی بجمالہ
حسنت جمیع خصالہ
صلوا علیہ و الہ
اس قدر مقبول ہوئی کہ برصغیر ہند و پاک کے تقریباً ہر گھر میں اس رباعی کے طغرے دیکھے جاسکتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ جب شیخ سعدیؒ یہ رباعی لکھ رہے تھے، آخری مصرعہ اُن کے ذہن میں نہیں آرہا تھا۔ انہوں نے بہت کوشش کی کہ آخری مصرعہ لکھ ڈالیں لیکن ایسا نہ ہوسکا، اس دوران وہ حالت نیند میں چلے گئے اور آپ کو خواب میں دیدارِ نبیؐ کی سعادت نصیب ہوئی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے صحابہؓ کے ساتھ موجود ہیں اور فرما رہے ہیں: ’’سعدی پریشان کیوں ہو؟‘‘، سعدی نے جواب دیا: ’’یارسول اللہ! مَیں نہیں جانتا کہ اس رباعی کو کیسے اختتام تک پہنچاؤں؟‘‘ آپؐ نے فرمایا: ’’رباعی پڑھو‘‘ تب آپ نے
بلغ العلے بکمالہ
کشف الدجی بجمالہ
حسنت جمیع و خصالہ
پڑھا تب ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ ارشاد فرماتے ہوئے رباعی کا آخری مصرعہ دیا:
صلوا علیہ والہ