شیشہ و تیشہ

   

وحید واجد ایم اے رائچور
اے ٹی ایم …!
پھر سے ناکام لوٹا بے چارہ
اس کے چہرہ پہ تھے بجے بارہ
رونی صورت تھی ! پُوچھا تو بولا
اے ٹی ایم اور بینک نے مارا
…………………………
فرید سحرؔ
بُلڈوزر … !!
تُھو تری ایسی کی تیسی بُلڈوزر
بن گیا تُو کیوں یہ رؤڈی بُلڈوزر
تُو بنا تھا اچھے کاموں کے لئیے
کیوں ہوئی نیت یہ کھوٹی بُلڈوزر
زیب تُجھ کو ظُلم یہ دیتا نہیں
بس بھی کراب غُنڈہ گردی بُلڈوزر
ایسا کیوں تُو ہو گیا چکنا گھڑا
کاش تُجھ کو شرم آتی بُلڈوزر
ہر کوئی حیراں ہے تُجھ کو دیکھ کر
آہ دل سے ہے نکلتی بُلڈوزر
ڈھا رہا ہے آج معصوموں کے گھر
کل تری کوٹھی ڈہے گی بُلڈوزر
تُجھ سے جنتاخوش نہیں ہے دیش کی
دے رہی ہے تُجھ کو گالی بُلڈوزر
آج میری جان لے لے تُو مگر
کل تری نکلے گی ارتھی بُلڈوزر
مُطمئن کوئی نہیں تُجھ سے سحرؔ
بد دُعا دیتی ہے دھرتی بُلڈوزر
…………………………
نوٹوں کا ترانہ
1000 روپئے کی نوٹ :
تڑپ تڑپ کہ اس دل سے آہ نکلتی رہی ، ایسا کیا گناہ کیا کے لُٹ گئے ہاں لُٹ گئے …!
500 روپئے کی نوٹ :
دنیا میں کتنا غم ہے ، میرا غم کتنا کم ہے …؟
100 روپئے کی نوٹ :
آج میں اُوپر ، آسماں نیچے ، آج میں آگے زمانہ ہے پیچھے ۔ ٹل می او خدا اب میں کیا کروں ؟
50 روپئے کی نوٹ :
جہاں میں جاتی ہوں وہیں چلے آتے ہو ۔
20 روپئے کی نوٹ :
ابھی تو پارٹی شروع ہوئی ہے ۔
10 روپئے کی نوٹ :
آج کل پاؤں زمیں پر نہیں پڑتے میرے ۔
5روپئے کی نوٹ :
ہون کریں گے ، ہون کریں گے …!!
2روپئے کی نوٹ :
آج پھر جینے کی تمنا ہے … آج پھر …!!
1 روپئے کی نوٹ :
چھوٹا بچہ جان کے ہم کو نہ سمجھانا رے …
ابن القمرین ۔ مکتھل
…………………………
بدقسمت …!
٭ وکیل نے کافی شدومد سے بحث کیا کہ اُس کا موکل صرف سو روپئے اس لئے چُرایا کہ اپنے پیٹ کی بھوک مٹاسکے ۔ وہ اگر حقیقت میں چور ہوتا تو سو کی نوٹ کے بازو ہی رکھا ہوا دس تولے کا سونے کا ہار بھی چُراسکتا تھا ۔ جج وکیل کی دلیل سے متفق ہوکر چور کو بری کردیا ۔ عدالت سے باہر نکلنے کے بعد چور اپنے سر کو پیٹ کر رونے لگا تو وکیل نے پوچھا ، اب تو بری ہوگئے رو کیوں رہے ہو؟ تو چور نے کہا میری قسمت ہی خراب ہے جو مجھے اس سو روپئے کی نوٹ کے قریب پڑا ہوا سونے کا ہار نظر نہیں آیا ۔
مظہر قادری ۔ حیدرآباد
…………………………
تم سے اچھی تو …!
٭ ایک فقیر کنجوس شخص کے گھر پر بھیک مانگنے کیلئے پہونچا … کنجوس نے اُسے دور سے ہی اپنے گھر کے سامنے آتا ہوا دیکھ کر کہا ’’میاں آگے جاؤ …!‘‘
فقیر نے کہا : ’’کیا کنجوس آدمی ہو تم ، تم سے اچھی تو تمہاری بیوی ہے جس نے گزشتہ ہفتے مجھے اچھی ایک قمیص پہننے کیلئے دی ‘‘۔ اتنا سننا ہی تھا کہ کنجوس زور زور سے چلانے لگا : بیگم ! بیگم ! کہاں ہو تم ، ذرا دروازہ میں تو آؤ ،یہ فقیر کیا کہہ رہا ہے کہ تم نے اُس کو میری ایک قمیص پہننے کیلئے دی؟ بیوی کافی سمجھ دار تھی اُس نے بات بناتے ہوئے کہا : وہ تمہاری قمیص تھوڑی ہی تھی ، تم کیوں پریشان ہورہے ہو وہ بازو مکان والوں کی قمیص تھی جو ہوا سے اُڑ کر ہمارے مکان میں آگری تھی اور میں نے اُسے اس فقیر کو دیدیا تھا ۔
سالم جابری ۔ آرمور
…………………………