شیشہ و تیشہ

   

شاداب بے دھڑک مدراسی
ہنسنے کی مشق!
دامانِ غم کو خون سے دھونا پڑا مجھے
اشکوں کے موتیوں کو پرونا پڑا مجھے
میری ہنسی میں سب یونہی شامل نہیں ہوئے
ہنسنے کی مشق کے لئے رونا پڑا مجھے
…………………………
فرید سحرؔ
کبھی کبھی …!!
آتا ہے اپنے گھر میں اُجالا کبھی کبھی
کرتے ہیں وہ خیال ہمارا کبھی کبھی
پڑتی ہے صرف غیر پہ کیوں چشم التفات
گُھورا کرو ہمیں بھی خُدارا کبھی کبھی
صورت ہماری دیکھ کے مُنہ موڑتے ہیں سب
احباب سے جو لیتے ہیں قرضہ کبھی کبھی
محفل کو لُوٹنے کی ہے خواہش اگر تمہیں
اشعار کُچھ تڑی کے سُنانا کبھی کبھی
شیطان ہم سے رہتا ہے نالاں کبھی کبھار
لیتے ہیں نام ہم جو خُدا کا کبھی کبھی
ویسے تو اپنی شاعری ہے ٹھیک ہی مگر
بحروں میں کر ہی دیتے ہیں گھپلہ کبھی کبھی
محفل میں آ کے پڑھتے ہیں اوروں کے شعر بھی
پڑتا ہے ایسے چوروں سے پالا کبھی کبھی
ہر ماہ طرح دے کے پریشان مت کریں
محفل میں آپ ہم کو بُلانا کبھی کبھی
ہیبت سے بند ہوتی ہے اپنی تو بولتی
دکھتا ہے راہ میں جو جنازہ کبھی کبھی
منوانے اپنی بات کو سُسرال میں سحرؔ
آنسو دکھاوے کے بھی بہانا کبھی کبھی
سب کام اپنے ذمہ ہیں سُسرال میں سحرؔ
سُسرے کی پیٹھ بھی ہے کُھجانا کبھی کبھی
…………………………
جِن اور عورت
مشتاق احمد یوسفی کی تحریر
٭ گندے برتنوں کے ڈھیر سے گھبرا کر بیوی بڑبڑائی ’’چراغ کا جن ہمیشہ مردوں کو ہی کیوں ملتا ہے…خواتین کو کیوں نہیں ملتا… کاش! آج میرے پاس بھی کوئی جِن ہوتا تو میرا بھی ہاتھ بٹا دیتا‘‘۔
بیوی کی یہ معصوم خواہش سن کرایک بہت بڑا جِن ظاہر ہوا اور بولا’’قوانین کے مطابق ایک خاتون کو ایک وقت میں ایک ہی جِن مل سکتا ہے۔ہمارے ریکارڈ کے مطابق تمہاری شادی ہو چکی ہے۔اور تمہیں تمہارا جِن مل چکا ہے۔اِسے ابھی تم نے سبزی منڈی بھیجا ہے۔ راستے میں ٹیلر سے تمہارا سوٹ لیتے ہوئے، گروسری سے گھر کا سامان لائے گا۔یاد سے تمہارے لئے سر درد کی دوا بھی لازمی لائے گا۔ اس کے بعد وہ اپنے کام کاج پر جائے گا… اور آتے آتے شام کو تمہارے لئے تمہاری پسند کی آئس کریم بھی لے آئے گا…!!
تمہارا جِن اگرچہ تھوڑا ٹائم زیادہ لیتا ہے، مگر چراغ والے جِن سے زیادہ محنتی اور زیادہ کام کرنے والا ہے اور اتنا کچھ کرنے کے بعد ذلیل وخوار بھی ہو گا۔یہ سب ہمارے بس سے باہر ہے…!! ‘‘
ابن القمرین ۔ مکتھل
…………………………
کہاں سے ملی؟
٭ ایک دن ملا فیضی نے ملا دوپیازا سے پوچھا : بتائیے عقلمندوں کو عقل کہاں سے ملی ؟
ملا دوپیازا نے جواب دیا : بے وقوں سے !
مرزا عثمان بیگ ۔ جمال بنڈہ
…………………………
کیانہ کھاؤں؟
٭ ایک مریض ڈاکٹر کے پاس آیا۔ ڈاکٹر نے اسے نسخہ لکھ دیا۔ مریض مشورے کی فیس دیئے بغیر ہی تیزی سے باہر نکل گیا ۔ چند لمحوں بعد وہی مریض دوبارہ واپس آیا اور ڈاکٹر سے کہا ’’ آپ نے پرہیز تو بتایا ہی نہیں کہ میں کیاکھاؤں اور کیانہ کھاؤں؟‘‘۔
ڈاکٹر نے بُھناکر جواب دیا’’ جو دل میں آئے کھائیے لیکن میری فیس تو نہ کھائیے ‘‘
منیر احمد ۔باغ جہاں آراء
……………………………
معاف کیجئے !
٭ ایک پارٹی میں ایک صاحب نے اپنے پاس کھڑے ہوئے آدمی سے کہا : ’’کیا زمانہ آگیا ہے ؟ ذرا سامنے بیٹھے لڑکے تو دیکھو کیسی پوشاک پہنی ہے ، بالکل لڑکی معلوم ہوتا ہے ‘‘ ۔
اس آدمی نے ذرا ناراض ہوکر کہا :’’صاحب وہ میری لڑکی ہے ‘‘۔
معاف کیجئے ! مجھے معلوم نہیں تھا کہ آپ اُس کے باپ ہیں ؟‘‘
’’کیا کہا آپ نے ؟ میں اُس کا باپ نہیں ، اُس کی ماں ہوں ‘‘۔
محمد منیرالدین الیاس ۔ مہدی پٹنم
…………………………