شیشہ و تیشہ

   

طالب خوندمیری
پیاسی جنتا!!
’’پیاسی جنتا کیلئے لاکھوں کنویں کھودیں گے ہم
ایک نیتا کا یہ وعدہ وجہِ حیرانی نہ تھا
ہاں! مگر جب اقتدار اُن کو مِلا تو یہ کُھلا
اُن کے کھودے ہر کنویں میں پیاس تھی ، پانی نہ تھا
…………………………
محمد ایوب خان جھاپڑؔ
نہیں ہوتا !
جب تلک دل جلا نہیں ہوتا
کوئی عاشق بڑا نہیں ہوتا
ہے اثر لیڈروں کی صحبت کا
ہم سے وعدہ وفا نہیںہوتا
گاہکوں کو لبھا نہیں سکتے
مال جب تک کھرا نہیں ہوتا
سیکھ لے جب تلک نہ عیاری
کوئی لیڈر بڑا نہیں ہوتا
تجھ سے ملتی تپاک سے دنیا
تو اگر دوغلا نہیں ہوتا
گھیرلیتی ہے جب غریبی تو
پھر سگا بھی سگا نہیں ہوتا
لوگ تجھ کو بھی چاہتے جھاپڑؔ
تو اگر سر پھرا نہیں ہوتا
…………………………
تیر و نشتر
٭ زیادہ وعدے کرنے والا
# … سیاستداں
٭ جہیز کا لالچی
# … بے وفا شوہر
٭ زیادہ جہیز لانے والی
# … بے لگام
٭ کامیاب کرکٹر
# …کامیاب جواری
٭ جتنی کمائی
# … اتنی مہنگائی
٭ قوم کے نوجوان معمار
# … اخلاق سے بے بہرہ
٭ حب الوطنی کا جذبہ رکھنے والا
# … دیش دروہی
٭ سماج کا بُرا ، دولتمند
# … سماج کی معزز شخصیت
٭ سماج کا غریب ایماندار
# … سماج کا دُھتکارا ہُوا
غلام مصطفی عرشی ۔ نرمل
…………………………
ایک کرکٹر کا محبت نامہ !
٭ میں اپنی اب تک کی زندگی کی اننگز بڑی مہارت اور عمدگی سے کھیل رہا تھا کہ اچانک باؤلنگ اینڈ پر میرا سامنا تم سے ہوا اور میں اپنی یکسوئی کھوبیٹھا ۔ تم نے آتے ہی ایسی خطرناک باؤلنگ شروع کی کہ میرے ہوش اڑگئے ۔ تمہاری ادائیں ، تمہارے برائے راست جلوے اور تمہاری جادوئی آنکھوں نے میری ٹائمنگ خراب کردی ۔ تمہارا وہ ٹھمک ٹھمک کر آنا اور اداؤں سے گیند پھینکنا !! اف خدایا !!!
محمد عارف ۔ صلالہ ، بارکس
……………………………
نہلے پہ دہلا…!
٭ ایک محفل میں کچھ شاعر بیخود دہلوی اور سائل دہلوی کا ذکر کر رہے تھے۔ ایک شاعر نے شعر سنائے جس میں دونوں کے تخلص نظم ہوئے تھے۔ وہاں حیدر دہلوی بھی موجود تھے۔ شعر سن کر کہنے لگے۔
’’اس شعر میں سائل اور بیخود تخلص صرف نام معلوم ہوتے ہیں۔ کمال تو یہ تھا کہ شعر میں تخلص بھی نظم ہو اور محض نام معلوم نہ ہو‘‘۔
کسی نے کہا یہ کیسے ممکن ہے۔؟ حیدر نے وہیں برجستہ یہ شعر کہہ کر سب کو حیران کر دیا:
پڑا ہوں میکدے کے در پہ اس انداز سے حیدرؔ
کوئی سمجھا کہ بیخود ہے کوئی سمجھا کہ سائل ہے
ابن القمرین ۔ مکتھل
…………………………
مشورہ !
٭ رات کے وقت ایک محترمہ روڈ کراس کررہی تھیں کہ اچانک سامنے سے آنے والے ایک تیز رفتار موٹر سیکل راںسے ٹکرا گئیں۔ محترمہ نے خوب کھری کھوٹی سنائی، جس پر لڑکے نے معافی مانگی اور کہا ’’آنٹی ! اگر آپ برا نہ مانیں تو ایک بات کہوں : ’’عورتوں کو اگر دن رات پھرنے کا ایسا ہی شوق ہے تو وہ ایسا کیوں نہیں کرلیتیں کہ ریڈیم کے دو پٹے گلے میں ڈال لیں ایک کالا اور ایک سفید ۔ کالا دن میں اور سفید رات میں تاکہ ہم کو دیکھنے میں آسانی ہو اور آپ بھی محفوظ رہ سکیں۔
او ۔ آر ۔ علوی ۔ سعیدآباد
…………………………