شیلا دکشٹ: اسیا کہاں سے لائیں کہ تجھ سا کہیں جسے

,

   

دہلی نے محترمہ شیلا دکشٹ جو کچھ دیاتھا اسے انہوں نے قرض نہیں‘ فرض سمجھ کر بیش بہا انداز میں واپس کیا۔پروفیسر اختر الواسع

زندگی کی اگرکوئی اٹل سچائی ہے تو وہ موت ہے۔ لوگ پیدا ہوتے ہیں‘ زندہ رہتے ہیں اور مرجاتے ہیں۔ان کی موت پر اعز ا آنسو بہاتے ہیں‘

احباب کف افسوس ملتے ہیں اور کچھ دن بعد لوگ یہ بھی بھول جاتے ہیں کہ کون کب پیدا ہوا‘ کب تک جیا اورکب مرگیا لیکن محترمہ شیلا دکشٹ جوابہمارے بیچ نہیں رہیں‘

وہ ان ہستیوں میں سے تھیں کہ جن کی یادیں‘ ان کے نام اورکام کی بناء پر ان کے ہم عصروں کے ذہن میں تو تازہ رہیں گی ہی‘ بعد میں آنے والی نسلوں کے حافظے میں تاریخ کے ذریعہ اپنی جگہ بنائے رہیں گی۔

شیلاجی پنچاب کے کپور تھلا میں 31مارچ 1938کو ایک غیرسیاسی گھرانے میں پیدا ہوئیں۔ ان کی ساری تعلیم دہلی میں ہی ہوئی او ردہلی سے ان کا جورشتہ لڑکپن سے ایک دفعہ بنا وہ آخری سانس تک جڑارہا ہے۔ دہلی نے انہیں جوکچھ دیاتھا اسے انہو ں نے قرض نہیں‘

فرض سمجھ کر بیش بہا انداز میں واپس کیا۔ دلی اگر ہندوستان کا دل ہے تو شیلا دکشٹ پندرہ سال تک اس کی دھڑکن بنی رہیں۔ شیلا جی ایم پی رہیں‘

مرکزی وزیرمملکت رہیں‘ دہلی کی پندرہ سال تک وزیراعلی رہیں‘ کیرالا کی گورنر ہیں اور 81سال کی عمر میں آخری سال لینے تک وہ دہلی پردیش کانگریس کی صدر رہیں۔

مجھے یہ کہنے میں کوئی جھجھک نہیں اور شیلا جی کے بدترین مخالف بھی اسسے انکار نہیں کرسکتے کہ انہوں نے دہلی کی تصویر او رتقدیر دونوں کو بدلنے کے ہرممکن کوشش کی۔

دہلی کو ماحولیاتی آلودگی سے نجات دلانے کے لئے انہوں نے شجر کاری کراکردلی کو سرسبزشاداب بنایا۔

پبلک ٹرانسپورٹ کے لئے سی این جی کو لازم بنایا اور پرائیوٹ ٹرانسپورٹ کے لئے اسے استعمال کرنے کی ترغیب دی۔ دہلی کوبدترین ٹریفک جام سے بچانے کے لئے کتنے سب وے فلائی اوؤر‘

بڑا پل کی تعمیر کرائی۔ صحت او رتعلیم کے لئے نئی منصوبہ بندی کی۔ دہلی میں کامن ویلتھ گیمس کے کامیاب انعقاد کے لئے ہمیشہ یاد رکھی جائیں گی۔

ان کے حاسدین نے ان کی صاف اورشفاف شخصیتپر مختلف حوالو ں سے کیچڑبھی اچھالنے کی کوششیں کیں‘لیکن وہ ہمیشہ بے داغ ثابت ہوئیں۔محترمہ شیلا دکشٹ کے ساتھ مجھے کام کرنے کاموقع ملا وہ میرے لئے بہت ہی خوشگوار یاددوں پر محیط ہے۔

شیلاجی نے 1998میں دہلی کے چیف منسٹر ہونے کے بعد دہلی اُردو اکیڈیمی کی جو پہلی تشکیل کی تھی اس میں مجھے بھی رکن بنایاتھا۔ لیکن2009میں انہوں نے مجھے ایک دفعہ پھر نہ صرف ممبر بنابلکہ2010میں وائس چیرمن بھی نامزد کیا۔

ان کی سربراہی میں اُردو اکیڈیمی کے وائس چیرمن کی حیثیت سے جو کام کرنے او ران کے انداز فکر وعمل سے جو واقفیت حاصل ہوئی اور ان کے مثبت متوازن او راعتدال پسند رویے سے جو سبق سیکھا وہ بہت بیش قیمت ہے۔

شیلاجی کے بارے میں شائد یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ دہلی میں اُردو کودوسری سرکاری زبان انہوں نے ہی بنایاتھا۔

او ردہلی اُردو اکیڈیی کے بجٹ میں اضافہ ہویا وقتا فوقتاہماری فرمائیشں وہ بھی کبھی انکار نہیں کرتی تھیں۔ انہیں اُردو زبان او تہذیب اورثقافت سے غیرمعمولی لگاؤں تھا۔

انہیں دہلی اس لیے بھی عزیز تھی کہ وہ اُردو تہذیب سے بہت قریب تھیں۔

دہلی میں اُردو وراثت میلا ہوناطئے پایا۔ ہمارے دوست انیس اعظمی اس وقت اُردو اکیڈیمی کے سکریٹری تھے اور ہم وائس چیرمن۔

دہلی سرکاری اور محکمہ ثقافت کے افسران کااصرار تھا کہ یہ میلا مہرولی میں کیاجائے جبکہ ہماری تجویز تھی کے اُردو ئے معلی او راس سے وابستہ تہذیب کا جشن قلعہ معلی کے احاطے میں ہو۔

بعض افسران کی ضد اپنی جگہ تھی اور ہمارا اصرار اپنی جگہ۔ جب شیلا جی تک معاملہ پہنچا اور انہوں نے ہمارے دلائل کو سنا تو ہماری تائید وحمیات کی اور اس طرح ایک نہیں تین سال تک یہ اُردو وراثت میلا لال قلعے کے میدان میں پوری آن بان وشان کے ساتھ ہوتارہا جس میں مشارعرہ‘

ڈرامہ‘ شام غزل‘ طلبہ وطالبات کے پروگرام‘ دہلی کے کھانوں اور دست کاری کے اسٹال اس کی زینت بڑھاتے تھے۔

شیلاجی کے سامنے ہم نے 2012کا سال تھا یہ تجویز رکھی کہ دہلی اُردو اکیڈیمی کا سب سے بڑا انعام جو بہادر شاہ ظفر کے نام سے معنون ہے اس سال ایک نہیں تین لوگوں کو دیاجائے اوردیڑھ لاکھ روپئے کی رقم میں تخفیف کیے بغیر تینوں کو یکساں طو رپر دیاجائے۔ اس کے لئے ہم نے جن ناموں کو تجویز کیا کہ گجرات کے علوی بردران‘

اُردو میں اپنی بے باک او ربے لاگ تنقید کے لئے جانے پہنچانے وارث علوی‘ اُردو میں جدید شاعری کے نامور ستون محمد علوی اور اُردو میں مہماتی نالوں کا ترجمے کے لئے اپنی الگ شناخت کے مالک مظہر الحق علوی کے نام شامل تھے۔

میں آج بھی اس ممنوعیت سے سرشار ہوں کہ انہوں نے اس تجویز کو نہ صرف پسند کیابلکہ منظوری دی او ربہ نفس نفیس ان تینوں کو اپنے ہاتھوں سے بہادر شاہ ظفر ایوارڈ سے سرفراز کیا۔

یہ دوسری بات ہے کہ بعد میں ان کا اقتدارنہ رہنے کی وجہہ سے محکمہ تعلیم کو اپنی مان مانی کرنے کاموقے ملتے رہے۔

آج محترمہ شیلا دکشٹ ہمارے بیچ میں نہیں رہیں لیکن ایک احسان شناس فرد جس کی اُردو مادری زبان ہے اور جسے شیلا جی نے ایک نہیں تین تین مدت کار تک دہلی اُردو اکیڈیمی کا وائس چیرمن بنایا ان کی یادوں و سلام کرتا ہے یہی کہہ سکتا ہے کہ

تمہیں کہتا ہے مردہ کون‘ تم زندوں کے زندہ ہو
تمہاری خوبیاں زندہ‘ تمہاری نیکیاں باقی