صحابہ کرام کے مختلف فیصلہ جات اُمت کے لئے تاقیامت مشعلِ راہ

   

ایمان مجمل اور ایمان مفصل کے مطابق اﷲ تعالیٰ ، ملائکہ ، آسمانی صحائف ، پیغمبران کرام ، آخرت ، قضاء و قدر اور بعث بعد الموت ہی ایمانیات میں داخل ہیں ۔اس میں صحابہ کرام کا ذکر نہیں تاہم قرآن مجید کی متعدد آیات صحابہ کرام کی عظمت و توقیر اور ان کی اہمیت کو بتانے کیلئے نازل ہوئی ہیں اور وہی قرآن مجید کے خطاب کے اولین مخاطب ہیں، نبی اکرم ﷺ نے اپنے ارشادات میں کثرت سے ان کی پیروی اور توقیر و احترام کی ترغیب دی ، ان کی مخالفت سے آگاہ فرمایا یہی وہ گروہ ہے جن کو جمالِ نبوت کو دیکھنے کا شرف ملا ، انھوں نے سرکارِدوعالم ﷺ کی نصرت و حمایت کی ۔ آپ ﷺ کے سفر و حضر میں ، امن و جنگ میں آپ کے ہمراہ آپ پر قربان رہے ۔ وہی نزول قرآن کے عینی شاہد ہیں ، سیرت و سنت کے راست گواہ و ناقل ہیں جنھوں نے کلام الٰہی کو براہ راست نبی اکرم ﷺ کی زبان مبارک سے سنا اور سیکھا اور معنی و مفہوم کو جانا ۔ آپ ﷺ کے پیچھے نمازیں ادا کیں، ارکان اسلام پر سب سے پہلے اُمت میں انھوں نے عمل کیا ۔ لہذا ان کا عمل ساری اُمت کے لئے نمونہ اور مثال بن گیا ۔ وہ سرچشمہ ہدایت قرار دیئے گئے ۔ بناء بریں روز اول سے محدثین نے جب تدوین حدیث کا فریضہ انجام دیا تو اپنی کتابوں میں صحابہ کرام کے فضائل کو لازمی طورپر جمع کیا ۔ صحابہ کرام کے بغیر تدوین حدیث کا کوئی تصور ہی نہیں اور اسی گروہ مبارک نے قرآن کو محفوظ کرنے کا فریضہ انجام دیا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ صحابہ کرام کا ذکر اصل ایمانیات میں داخل نہیں لیکن ایمانیات کا علم ان کے بعیر متحقق نہیں لہذا محدثین ، فقاء اور متکلمین نے عقیدہ سے متعلق کتابیں لکھیں تو انھوں نے ایک حصہ صحابہ کرام سے متعلق رکھا ۔ چنانچہ امام طحاوی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں ’’ہم صحابہ کرام سے محبت رکھتے ہیں ، ان میں سے کسی صحابی کی محبت میں افراط و مبالغہ سے کام نہیں لیتے اور نہ کسی صحابی سے برا ء ت کا اظہار کرتے ہیں ۔ جو اُن سے بغض رکھتا ہے ، ہم اُس سے بغض رکھتے ہیں اور جو شخص اُن کا خیر کے علاوہ ذکر کرتا ہے ، ہم اُس سے بغض رکھتے ہیں اور ہم صرف اُن کاخیر و بھلائی ہی سے ذکر کرتے ہیں ، اُن سے محبت ، دین ایمان اور احسان ہے اور اُن سے بغض رکھنا کفر و نفاق اور طغیان یعنی سرکشی ہے ‘‘۔ یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کے درمیان فقہی مسائل میں اختلاف رہا ۔ انتظامی اُمور میں اختلاف رہا ۔ حکومت کی پالیسیز سے متعلق اختلاف رہا ۔ حضرت عثمان غنی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کی شہادت کے بعد قاتلین سے قصاص لینے سے متعلق شدید اختلاف ہوا اور نوبت جنگ و جدال تک پہنچی اور ان جنگوں میں ہزارہا صحابہ کرام شہید ہوئے ۔ یہ اختلافات اور جنگ و جدال عملی زندگی کا حصہ ہیں۔ اس سے کسی جماعت کو مفر نہیں ۔ یہ بشریت کے تلازمے ہیں ۔ صحابہ کرام اپنی علو مرتبت اور تمام اُمت میں افضیلت کے باجود مافوق الفطرت یا ماورائے بشریت نہیں ۔ یہی ان کا وجہہ کمال ہے ، اسی لئے وہ ساری اُمت کے لئے تاقیامت نمونہ ہیں۔

شریعت کے اُصول و قواعد مرتب ہوگئے ہیں ، عقائد کے سلسلہ میں اب مزید کسی تحقیق کی ضرورت نہیں ۔ اہلسنت والجماعت کے عقیدے کے مطابق صحابہ کرام میں افضلیت کی ترتیب خلافت راشدہ کی ترتیب کے مطابق ہے اور کسی صحابی کی شان میں ادنی گستاخی کی گنجائش نہیں ۔ تمام صحابہ آسمانِ ہدایت کے ستارے ہیں ان کے درمیان ہوئے اختلافات پر غور و خوض کی چنداں ضرورت نہیں ۔ ان کے مابین ہوئی جنگوں میں بالاتفاق حق علی مرتضی کرم اللہ وجہہ کے ساتھ تھا ، دوسروں سے خطاء اجتھادی ہوئی تاہم اب اہلسنت والجماعت میں کسی کو حق نہیں کہ وہ صحابہ کرام کے مابین افضیلت پر گفتگو کرے یا جنگوں کے احوال پر تبصرہ کرتے ہوئے کسی صحابی کی شان میں بے ادبی کرے بلکہ بحث و مباحثہ کے بجائے یہ غور کرنا چاہئے کہ ہماری عملی زندگی میں مختلف احوال پیش آئیں گے ۔ ہمیشہ حالات ایک نوعیت کے نہیں ہوتے اور پریشان کن حالات میں ایک ہی طریقہ کار پر عمل ممکن نہیں ہوتا ۔ کسی مرحلہ میں ہمیں ، عزم و ہمت کا مظاہرہ کرتے ہوئے حضرت علی مرتضی کرم اللہ وجہہ کے نقش قدم پر چلنا ہوگا ۔ آپ نے جس عزیمت کا نمونہ پیش کیا وہ ہر دور میں مردان باہمت کو حوصلہ دیتا رہیگا کہ آپ کے مقابل میں اُم المؤمنین ہیں ، عشرہ مبشرہ میں سے جلیل القدر صحابہ ہیں لیکن آپ نے جس ایقان و استقامت اور اصابت رائے کی مثال قائم کی وہ آپ ہی کا حق تھا ۔

کبھی زندگی میں ایسی صورتحال پیش آجائیگی کہ طاقت و قوت اور حق و انصاف ہمارے ساتھ ہوگا لیکن دستبردار ہونے میں خاندان ، ادارہ یا ملت کامفاد ہوگا ایسے وقت میں امام حسن مجتبیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا نمونۂ عمل ہماری رہنمائی کرے گا ۔ کبھی دستبردار ہونا ہی عین عزیمت ہوتا ہے اور یہ دستبرداری ہزار جنگوں میں کامیابیوں پر بھاری ہوتی ہے ۔
خلافت راشدہ میں حضرت عمر فاروق رضی اﷲ تعالیٰ عنہ پر جان لیوا حملہ مسجد نبوی میں ہوا جس میں آپ کی شہادت ہوئی ۔ خلیفہ سوم گھر میں محصور کئے گئے اور بلوائیوں کا اتنا زور ہوگیا کہ پانی تک بند کردیا گیا ۔ بالآخر دنیا کی سب سے بڑی سلطنت کے خلیفہ کو دارالخلافہ میں اُن کے گھر میں محصور کرکے شہید کردیا گیا اور یہی وہ عثمان غنی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ تھے کہ صلح حدیبیہ کے موقعہ پر آپ کی شہادت کی محض خبر پر صحابہ کرام نے قصاص لینے کے لئے اپنی جان قربان کرنے نبی اکرم ﷺ کے دست مبارک پر بیعت کی تھی ، یہی بیعت الرضوان کہلاتی ہے ، اسی جذبۂ ایمانی پر اﷲ تعالیٰ نے مہر ثبت کرتے ہوئے بیعت الرضوان کا مژدہ قرآن پاک میں نازل فرمایا اور جب یہی عثمان غنی ؓبحیثیت خلیفۃ المسلمین مظلومانہ شہید کئے گئے تو ان کے قاتلین سے قصاص نہیں لیا گیا ۔ وہ قاتل کوئی مجہول نہیں تھے ۔ خلیفہ وقت کا قصاص لینے کو موخر کرنا حضرت علی مرتضی کرم اللہ وجہہ کا فیصلہ ان حالات کے تناظر میں بالاتفاق صحیح تھا لیکن اس فیصلہ سے شکوک و شبہات کا جنم لینا اور اختلافات کا رونما ہونا مسلم تھا ۔ حضرت امیر معاویہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے خلیفہ برحق کے فیصلہ کے خلاف فی الفور قصاص کا مطالبہ کرتے ہوئے جنگ کیا ۔ اس موقعہ پر بھی حضرت علی مرتضی کرم اللہ وجہہ نے نہایت عزیمت کا مظاہرہ فرمایا اور فریق مخالف کو اپنی جان بچانے کے لئے حیلوں کی راہ اختیار کرنی پڑی ۔ نیز خلیفہ چہارم کی شہادت دارالخلافہ میں ایک منظم منصوبہ کے تحت ہوئی ۔ دارالخلافہ میں تین خلفاء کا شہید ہونا قابل غور پہلو تھا ۔ حضرت امیر معاویہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کا اجتھاد یہ تھا کہ وہ اگرچہ افضل نہیں ہیں لیکن اس سازش اور فتنوں کے دور میں اُمت کے لئے وہ زیادہ مفید ثابت ہوسکتے ہیں ۔ اسی نظریہ پر انھوں نے دوبارہ لشکرکشی کی ۔ حضرت امام حسن مجتبیٰ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ حسب ارشاد نبوی خلافتِ نبوت کی مدت تیس سال مکمل کرکے دستبردار ہوئے اور حضرت امیر معاویہ ؓنے اپنے نظریہ کو کہ وہ ان حالات میں ملت اسلامیہ کی فلاح و بہبود کیلئے زیادہ مفید ثابت ہوسکتے ہیں اپنے عمل اور حسن انتظام سے ثابت کردکھایا ۔ بناء بریں ہماری زندگی میں کچھ ایسے مراحل آئیں گے ہمارا اقدام مفاد عامہ کے حق میں مفید ہوسکتا ہے تو ہمیں اقدام کے ساتھ اپنے عمل اور حسن انتظام سے عملی ثبوت دینا ہوگا ورنہ خاموشی ، گوشہ نشینی اور اتباع ہی بہتر فیصلہ ہوگا ۔

خدا کی قدرت اور قضاء و قدر دیکھئے کہ یزید ایک فاسق و فاجر ظاہر ہوا اگر وہ حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمۃ اللہ علیہ کی طرح ہوتا تو قیامت تک کے لئے خلافت کا تصور ختم ہوجاتا ۔ ایسے وقت میں امام عالی مقام حضرت حسین رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کا مجاہدان اقدام درحقیقت خلافت نبوت کی بازیابی کا سنگ بنیاد تھا جو ہر دور میں اہل حق کو باطل سے پنجہ آزمائی کا پیغام دیتا آرہا ہے اور یقیناً امام عالی مقامی کی عظیم قربانی اہمیت اطہار کی ایک مبارک ہستی امام مہدی کے ذریعہ پایہ تکمیل کو پہنچے گی اور پھر حقیقی خلافت علی منھاج النبوت کا قیام ہوگا ۔ پس ہماری زندگی میں کبھی ایسے حالات رونما ہوں کہ اگر ہم باطل سے مفاہمت کرلیں تو ہمارا تو بھلا ہوگا لیکن مفاد عامہ کا نقصان ہوگا ۔ ایسی صورت میں اپنے مفادات کو بالائے طاق کرتے ہوئے باطل سے نبرآزما ہونا بھلے ہمیں اپنی شکست کا یقین ہو یہی عزیمت ہوگا اور مفاد عامہ کے لئے اس کے دیرپا نتائج ظاہر ہوں گے ۔ لہذا صحابہ کرام کے درمیان ہوئے اختلافات پر بحث و مباحثہ کے بجائے عملی زندگی میں ان کے عمل اور ان کے طریقہ کار سے رہنمائی حاصل کرنے کی ضرورت ہے۔