طالبان کا امریکہ پر افغان امن مذاکرات روکنے کا الزام

   

٭ طالبان معاہدہ کا ارادہ اور صلاحیت دونوں رکھتا ہے : ترجمان
٭گزشتہ سال ستمبر سے جاری مذاکرات کو ٹرمپ نے ’’مردہ ‘‘ قرار دیا تھا

کابل۔ 5فروری(سیاست ڈاٹ کام) افغان طالبان نے سوشل میڈیا پر واشنگٹن پر سخت ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے الزام عائد کیا کہ امریکہ نے انخلا کے حوالہ سے مذاکرات کو روک دیا ہے جس سے افغانستان میں 18 سال سے جاری جنگ کا خاتمہ ہونا تھا۔عالمی میڈیا کی ایک رپورٹ کے مطابق واشنگٹن اور طالبان اب بھی ایک ممکنہ معاہدے کے گرد گھوم رہے ہیں جس میں دیکھا جائے گا کہ امریکی افواج ضمانتوں کے عوض افغانستان سے نکلنا شروع کریں گے ۔تاہم ایسا لگتا ہے کہ حالیہ ہفتوں میں کسی معاہدے تک پہنچنے میں بہت کم پیش رفت ہوئی ہے جس سے طالبان کو وائٹ ہاؤس پر الزام تراشی کا موقع ملا اور ان کے مطابق امریکا معاہدے کے لئے اپنے مطالبات فہرست کو بڑھا رہا ہے ۔طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے ٹوئٹ میں کہا کہ طالبان معاہدے کا ارادہ اور صلاحیت رکھتا ہے ۔ان کا کہنا تھا کہ ‘ڈونلڈ ٹرمپ کے ٹوئٹ، متعدد امریکی مطالبات اور امریکہ اور کابل حکام کے درمیان جھگڑے سے مذاکرات کے عمل کو نقصان پہنچا ہے ، اسٹیٹ سکریٹری پومپیو کو الزام تراشی سے باز آنا چاہیے ، ہمارا موقف اصولی ہے ، ان کی طرح نہیں ’’۔ طالبان کے یہ ریمارکس ایسے وقت میں سامنے آئے جب ایک روز قبل سکریٹری آف اسٹیٹ مائیک پومپیو کا کہنا تھا کہ ‘‘طالبان تشدد کو کم کرنے کے اپنے ارادوں اور صلاحیتوں کا مظاہرہ کریں تاکہ ازبکستان میں وسطی ایشیائی حکام کی ملاقات کے دوران معاہدہ ہوسکے ’’۔طالبان ذرائع نے اے ایف پی کو گزشتہ ماہ بتایا تھا کہ انہوں نے مختصر 7 سے 10 روز کی جنگ بندی کی پیشکش کی ہے تاکہ معاہدہ ہوسکے تاہم اس پیشکش کے حوالے سے دونوں جانب سے کوئی اعلان نہیں کیا گیا تھا۔یہ ٹوئٹ ایسے وقت میں سامنے آئی جب طالبان سے مذاکرات کی قیادت کرنے والے امریکی سفیر زلمے خلیل زاد نے نئی سفارتکاری کا آغاز کرتے ہوئے پاکستان اور افغانستان کا دورہ کیا تھا اور دونوں ممالک کے حکام کو مذاکرات کی صورتحال کے حوالے سے آگاہ کیا تھا۔حالیہ ہفتوں میں امریکہ نے مذاکرات کے حوالے سے خاموشی اختیار کر رکھی ہے جبکہ طالبان نے زور دیا ہے کہ وہ لڑائی کم کرکے بات کو آگے بڑھانا چاہتے ہیں۔امریکہ اور طالبان کے درمیان گزشتہ ایک سال سے مذاکرات جاری ہیں اور یہ مذاکرات ستمبر 2019 میں نتیجہ خیز ثابت ہونے کے انتہائی قریب تھے تاہم امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے طالبان کے تشدد کو جواز بناتے ہوئے اس مرحلہ کو ‘مردہ’ قرار دے دیا تھا۔بعد ازاں دسمبر کے مہینے میں دوحہ میں دوبارہ مذاکرات کا آغاز ہوا تھا جو افغانستان میں امریکی بیس بگرام کے نزدیک حالیہ حملہ کے بعد دوبارہ رک گیا۔