طبل وہ علم ہی پاس ہیں اپنے نہ ملک و مال

   

عثمان شہید ایڈوکیٹ
تاریخ نے ایسا پلٹا کھایا کہ ہمارے پاس نہ نقار خانہ ہے اور پرچم نہ ملک نہ مال نہ حکومت ۔ کل تک مغلیہ خاندان کا جاہ و جلال سریراہ سلطنت تھا ۔ سیاہ و سپید کا مالک تھا ۔ ملک کا پاسبان تھا ۔ وہ انصاف کررہا تھا ۔ عدالت ان کی … فوج ان کی … پولیس ان کی …اور خزانوں کے انبار اُن کے پیروں کی زینت ۔ پھر بہ ایں جا کہ رسید لال قلعہ کے دروازے تنخواہ کے بقایا جات وصول کرنے کے لئے فوجی اکھاڑ کر لے کر چلے گئے ۔ کیسے وقت بدل گیا ۔ کیا ہم نے اس صورت حال پر غور نہیں کیا ۔ سورج اُفق تخت پر قدم رکھتے ہی گواہی دیتا ہے کہ میں دم بھر کا مہمان ہوں ۔ میری دن میں جوانی دیکھو پھر شام کو میری ضعیفی دیکھتے جاؤ ‘ انگارے برساتا سورج بے بس و لاچار ہوکر کمزور ہوجاتا ہے ۔ ڈھل جاتا ہے ۔ اُس کے لئے ہر ایک کو سبق ہے کہ ہر عروج کوزوال ہے ۔ اور چڑاؤ کو اتار ۔ کوئی قوم دوامی طورپر قابض اقتدار نہیں رہی ۔ وقت نے ہر قوم کے ہاتھ اقتدار کی مہندی رچائی ۔ پھر مانگ سے افشاں اُجڑ گئی ۔ یہودی قوم کا انجام سامنے ہے ۔ وہ نافرمان ہوگئے تھے ۔ اللہ کے وجود سے انکار کردیا ۔ بداعمالیوں کا شکار ہوگئے تھے ۔ عیاش طبع ہوگئے تھے ۔ حرام خوری اورسود خودری جیسی لعنتوں میں مبتلا ہوگئے تھے ۔ اللہ کا کوڑا چلا ۔ یہودیوں کے ہاتھ سے مسند اقتدار چھین لی گئی ۔ انہیں عہدۂ امامت سے محروم کردیا گیا ۔ مسلمان نہیں سمجھے ۔ مگر اللہ کا کوڑا ہلاکو بن کر نازل ہوا ۔ اس نے بغداد کا وہ حشر کیا کہ کتے بلیوں کے علاوہ کوئی ذی روح باقی نہ بچا ۔ انسانی لاشیں دریاؤں میں ایسی بہائی گئیں کہ دریائے فراط و دجلہ سیاہ پڑگئے ۔ ان کی عورتیں اتنی بہادر تھیں کہ حاملہ ہوکر بھی تیز رفتاری سے گھوڑے چلاتی تھیںاور گھوڑوں کی پیٹ پر بچوں کو جنم دیتی تھیں۔ بھوک لگی تو اپنی ہی سواری کا گھوڑا ذبح کردیتی تھیں۔ وقت کی رفتار ایسی بدلی کہ ہلاکو کا پوترا حلقہ بگوش اسلام ہوگیا ع
پاسباں مل گئے کعبہ کو صنم خانے سے
تاریخ میں ایسے کئی واقعات ملیں گے جن سے ہم سبق سیکھ سکتے ہیں ۔ تاریخ کا مقصدتفریح وطبع نہیں بلکہ ہم عبرت بھی حاصل کریں ۔ اللہ نے قوم عاد کی طرح کوئی طاقتور قوم آج تک پیدا نہیں کی ۔ اتنے طاقتور ‘ اتنے دراز قد ‘ اتنے پرُہیبت پہاڑوں کو تراش کر اُن میں رہتے تھے ۔ اللہ کی نافرمانی نے انہیں بھی تباہ و تاراج کردیا ۔ پوری قوم صفحہ ہستی سے حرف غلط کی طرح مٹادی گئی ۔ ہروہ قوم جو بداعمالیوں کا شکار ہوجائے گی ‘ حرام کاری میں مبتلا ہوگی ‘ سٹہ جوا شراب اور حرام کاریوں میں مبتلا ہوگئی سمجھ لو کہ وہ تباہ برباد ہوجائے گی۔ ہم بھی کئی کئی کیسی کیسی لعنتوں کا شکار ہوگئے ۔ جب اقتدار ہمارے تلوے چاٹ رہا تھا کبوتر بازی ‘ پتنگ بازی ‘ مرغ بازی بٹیر بازی جیسی لعنتوں کاشکار ہوگئے ۔ ان لتوں نے شمشیر و سناں کو طاق کی زینت بنادیا اور طاؤس و رباب کو زندگی کا حاصل ۔ پھر آندھی ایسی چلی کہ کوئی درخت باقی نہ بچا ۔ کوئی حضرت صدیق ؓ اور حضرت عمرؓ اور کوئی حضرت عثمانؓ جیسا روئے زمین کی زینت نہ بن سکا ۔ کوئی خالد بن ولید ؓجیسا پھر کبھی پیدا نہ ہوا ۔ کسی نے 16 سال کی عمر میں محمد بن قاسم بن کر سندھ کو فتح نہیں کیا ۔ تقدیر بدل گئی ۔ ایک بعد ایک ستارے غروب ہوتے گئے ۔ سلطنت مغلیہ ‘ قطب شاہی سلطنت ‘ بہمنی سلطنت ‘ عادل شاہی سلطنت ‘ احمد شاہی سلطنت ‘ آصف جاہی سلطنت ‘ انگریزوں کی حکومت ‘ مرہٹوں کی سلطنت‘ راجے ۔مہاراجے ۔نواب ۔جاگیر دار۔ پٹہ دار سب ختم ہوگئے ۔ تمام چراغ گل ہوگئے ۔ ظلمت کا اندھیرا چھاگیا ۔ کل تک ہم کروڑپتی تھے آج بھکاری بن گئے ۔ کل سیٹھ و ساہوکار تھے ۔ آج ملازم بن گئے ۔ کل تک جو زمیندار تھے آج کھیت مزدوربننے پر مجبور ہوگئے ع
اب طبل و علم ہی پاس ہیں اپنے نہ ملک و مال
ہم سے خلاف ہوکے زمانہ کرے گا کیا
گھبرانے کی کوئی بات نہیں ۔ پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ۔ وقت کا پہیہ تو گھومتا رہتا ہے ۔ کبھی اوپر کبھی نیچے ۔ یہ تو سب اللہ کی آزمائشیں ہیں کہ کون اللہ کے بتائے ہوئے راستے پر چلتا ہے ؟ کون مصیبتوں سے گھبراکر اللہ کا راستہ چھوڑدیتا ہے ؟ کون اجالے کا پرندہ ہے ؟ کون اندھیرے کاکیڑا ہے ؟ کون نماز اور صبر سے کام لیتا ہے ؟ کون ہے جو ناخداوں کے آگے سربسجود ہوجاتا ہے ۔ انتشار ‘ہمارے گناہ ‘ ہماری بداعمالیاں ‘ گروہ بندیاں ‘ مسلکوں میں تقسیم ‘ ہماری تباہی کا باعث ہے۔ اللہ نے اسی لئے غیروں کو ہم پر مسلط کردیا ہے ۔ اپنے اعمال درست کرلیں ع
گیا وقت پھر ہاتھ آتا نہیں
ہمارا افلاس خوش حالی میں اور ہماری مفلوک الحالی خوش بختی میں ‘گرانی ارزانی میں ‘ بیماری صحت میں بدل جائے گی انشا ء اللہ ۔ ہم صرف اللہ کی نصرت سے کام لیں ۔