مذکورہ طلبہ کی حقائق سے آگاہی مشن نے ان 15شہروں کا دورہ کیاجہاں پر شہرت قانون کے خلاف احتجاج کرنے والے مظاہرین پر پولیس نے بے رحمانہ رویہ اختیار کیا ہے
اس بات کو تسلیم کریں کہ مرکزی دھارے کے میڈیا نئے شہریت قانون کے خلاف احتجاج کرنے والے لوگوں کے خلاف کی جانے والے کاروائیوں کی حقیقی تصویر نہیں دیکھا رہی ہے‘ ہندوستان کی ایک سو سے زائد یونیورسٹیوں کے طلبہ اترپردیش پر توجہہ دیتے ہوئے خود ہی حقیقت کی تلاش کے لئے نکلے ہیں۔
مذکورہ طلبہ کی حقائق سے آگاہی مشن نے ان 15شہروں کا دورہ کیاجہاں پر شہرت قانون کے خلاف احتجاج کرنے والے مظاہرین پر پولیس نے بے رحمانہ رویہ اختیار کیا ہے۔
میرٹھ‘ مظفر نگر‘ لکھنو کے بشمول دیگر شہروں کا ان طلبہ نے دورہ کیاہے۔ چہارشنبہ کے روز انہوں نے دہلی میں ایک رپورٹ جاری کی ہے۔انہوں نے جو پایا ہے اس کا دعوی پیش کررہے ہیں۔ہر شہر میں زیادہ تر شدید پسماندگی کاشکار سوسائٹی کاحصہ ہیں جس میں یومیہ اجرت پر کام کرنے والے مزدور‘ کچرا چننے والے‘ لوگ جنھوں نے بہت مشکلات کا سامنا کیاہے۔
حالانکہ یہ لوگ نہ تو کسی احتجاج میں شامل ہوئے او رنہ ہی اس کی حمایت کی ہے۔ وہ محض غلط مقام پر غلط جگہ پہنچے اور آسانی کے ساتھ پولیس کا شکار ہوگئے۔ ان میں زیادہ تر کپڑوں سے پہچان میں ائے کہ وہ مسلمان ہیں اور پولیس کا حملہ کا نشانہ بن گئے۔
اشتعال انگیزی‘ لاٹھی چارج اور پرامن مجموعہ پر گولی چلائیں‘ متوفیوں کا یا تو تاخیر ہوئی یا پھر پوسٹ مارٹم سے انکار کردیاگیا‘ نامعلوم ایف آئی آر درج کئے گئے‘ اور پیسے اینٹھنے کی کوشش کی گئی تاکہ لوگوں کے نام ایف ائی آر سے ہٹائیں۔
بعض مقامات پر پولیس لوگوں کے گھروں میں بنا وارنٹ کے داخل ہوتی ہے اور جائیدادوں کے ساتھ توڑ پھوڑ کرتی ہے۔ رپورٹ میں کہاگیا ہے کہ”اس کی وجہہ سے کچھ گھر والے اپنے گھر چوڑ کر چلے گئے ہیں اور کئی واقعات میں فیملی کے مرد ممبران گھر واپس نہیں لوٹ رہے ہیں اور اپنے کام کے بعد کسی اور مقام پر رہنے کو چلے جارہے ہیں“۔
ریاست کی جانب سے کئے جارہے دعوی کے برعکس کچھ نابالغ یقینا پولیس کے ہاتھوں مارے گئے ہیں۔کئی مقامات پر اسپتالوں میں زخمی احتجاجیوں کا علاج کرنے سے انکار کردیاگیاہے۔
اس جانچ میں مرکزی دھارے کی میڈیاپر بھی سوال کھڑے کئے گئے ہیں‘ جس نے بناء کسی تحقیق کے پولیس کے دعوؤں کو آگے بڑھایا۔ حقائق جاننے کے لئے اس نے کوئی پہل نہیں ہے او رنہ ہی زمینی حقیقت تک رسائی کی ہے۔
اس کے بجائے میڈیا نے احتجاج میں زخمی اوریاہلاک ہونے والے لوگوں خاطی کے طور پر پیش کیا
رپورٹ کے کچھ حصہ یہاں پر پیش کئے جارہے ہیں
میرٹھ
مظاہرین ہاپور کی سڑک پر اکٹھا ہوئے مخالف سی اے اے نعروں پر مشتمل پلے کارڈس ہاتھوں میں تھامے ہوئے تھے۔
پولیس نے بتایاکہ پرامن مجموعہ سڑک کے ایک کنارے بیٹھ جائے۔ مظاہرین نے اس کی تعمیل کی مگر ان پر لاٹھی چارج کیاگیا اور آنسو گیس کے شل برسائے گئے۔
رپورٹ کہتی ہے کہ ”ردعمل کے طور پر پولیس نے زائد دستوں کا استعمال کیا‘ کچھ لوگوں نے ان پر پتھر برسائے۔ سی سی ٹی وی کیمروں کو ناکارہ بنانے کے لئے پولیس نے گلیو ں گشت لگائی اور لوگوں پر اپنی طرف سے گولیوں کا نشانہ بنایا“۔
سوکھے میوے فروش کشمیر کو نشانہ بنایاگیا اور بی جے پی لیڈر منیندر سنگھ کو ایک ویڈیومیں لاٹھیاں تقسیم کرتے ہوئے دیکھا گیا ہے۔میرٹھ میں پیش ائے تصادم میں پانچ لوگ مارے گئے۔
ان میں سے ایک موشین بھی ہے۔ رشید نگر جہاں پر وہ رہتا تھاتنگ گلیاں ہیں اور ہاپور نگر سے کچھ فاصلے پر ہے‘ جہاں پر احتجاج ہوا تھاجس میں شرکت کے لئے کچھ نوجوان مسلم لڑکے گئے تھے جنھیں حراست میں لے لیاگیا۔موشین کے بھائی نے 20ڈسمبر کی رات کو جو واقعہ پیش آیا اس کو یاد کیا۔
انہوں نے اسٹوڈنٹس کو بتایا کہ ”اس روز رشید نگر کی گلیو ں میں چند ہی لوگ تھے۔لوگ یہاں پر اپنے یومیہ کام میں مصرو ف تھے جب پولیس یہاں پر پہنچے‘ لاٹھی چار کیا اور فائیرنگ شروع کردی۔
اسی وقت کے دوران موشین کی موت ہوگئی“۔اس فائرینگ میں رشید نگر کے ایک اور ساکن ظہیر کی بھی موت ہوگئی۔ رپورٹ میں گھر والوں کے حوالے سے دعوی کیاگیا ہے کہ پولیس نے ان کی کمر کو نشانہ بناکر گولیاں چلائیں‘ اس کا مطلب یہ ہے کہ ان کی منشاء قتل کی تھی۔
حقائق سے آگاہی مشن کو رشید نگر کی دیواروں پر گولیوں کے نشان بھی ملے ہیں۔ رشید نگر کے ساکنان میں زیادہ تر لوگ یا تویومیہ اجرت پر کام کرتے ہیں یا پھر میویشیوں کی افزائش کاکام کرتے ہیں۔مظفر نگر‘ میرٹھ اور علی گڑھ میں حقائق سے آگاہی مشن پر کام کرنے والی ٹیم کا حصہ رہے دہلی اسکول آف سوشیل ورک کے ایک طالب علم تریتھی داس کا کہنا ہے کہ ”یہ سماج کا وہ حصہ ہے جو آواز اٹھا نہیں سکتا ہے۔
ان کے پاس قانونی چارہ جوئی کے لئے کوئی مدد نہیں ہے۔ متوفی کے گھر والوں پاس اب کوئی آمدنی کا ذریعہ نہیں ہے کیونکہ جو لوگ مارے گئے ہیں وہی ان گھر چلانے والے تھے۔سب سے تکلیف دہ بات اب تک یہ ہے کہ مقامی حکومت کی جانب سے کسی بھی ذمہ دار نے پسماندگان سے ملاقات نہیں کی ہے“۔
ایک اور فرد مبینہ طو رپر پولیس کی گولی سے جس کی ہلاکت ہوئی ہے وہ آصف تھا۔ دہلی میں وہ پڑھائی کررہاتھا‘ لہذا نعش کے پاس سے دہلی کا شناخت کارڈ دستیاب ہوا ہے۔
داس کا کہنا ہے کہ پولیس اور میڈیانے کچھ اس طرح ”آصف کو پیش کیا“ کہ وہ کوئی فرد ہے جو میرٹھ میں فساد کرانے کے لئے دہلی سے یہاں پر آیاہوا تھا۔ آصف گھر کا پہلا فرد تھا جو اعلی تعلیم حاصل کررہاتھا۔
متاثرین میں سے کسی کو بھی اب تک کوئی معاوضہ نہیں ملا ہے
مظفر نگر
مدینہ چوک کے قریب لوگ پرامن انداز میں احتجاج کررہے تھے۔ پولیس وہاں پر پہنچی کیوں نہ بی جے پی کے منسٹر سنجیو بالیان ”اپنے لوگوں“ کے ساتھ ائے ہوئے تھے۔عینی شاہدین کا الزام ہے کہ یہ وہی لوگ تھے جنھوں نے فسادبھڑکایا ہے۔
تقریبا80لوگوں کو حراست میں لیاگیا‘ جس میں چالیس کی رہائی عمل میں ائی۔نامزد ایف ائی آر240لوگوں کے خلاف جبکہ ایک سو نامعلوم افراد کے خلاف ایف ائی آردرج کی گئی ہے۔
مشن کا حصہ رہی دہلی اسکول آف سوشیل ورک کی ایک طالب علم اننیا بھردواج کا کہنا ہے کہ ”زخمی لوگ آگے انے سے گھبرارہے ہیں۔ جب وہ علاج کے لئے جائیں گے انہیں گولیوں کے نشان سے آنے والے زخموں کی وجہہ سے پہچان لیاجائے گا“۔
آریہ سماج روڈ پر نور محمد گولی لگنے کی وجہہ سے ہلاک ہوگئے۔ پسماندگان میں ایک حاملہ بیوی اور اٹھ سال کی بیٹی ہے۔ ان کی بیوی نے کہاکہ تشدد کے روز نور ان کی بیٹی کے لئے دوا کی خاطر باہر گئے ہوئے تھے۔
گولی لگنے کے بعد مظفر نگر میں نور کا علاج نہیں کیاگیا‘ لہذا زخمی کو میرٹھ لے کر جانا پڑا اورراستے میں ان کی موت ہوگئی۔گھر والوں کو تین روز تک نعش نہیں دی گئی۔انہیں داورلا پولیس اسٹیشن طلب کیاگیا اور نعش کی تدفین بھی داورلا علاقے میں خود ہی کردی۔
حالیہ دنوں میں پوسٹ مارٹم رپورٹ گھر والوں کو نور کی موت کے ایک ماہ بعد دی گئی ہے۔اس میں گولی‘ یا پھر ہتھیار کس کا تھا جس کی وجہہ سے موت ہوئی ہے اس کا ذکر نہیں کیاگیا ہے۔طلبہ کے گروپ جب ملاقات کیا اس وقت رقیہ کو 16ٹانکے لگائے جارہے تھے۔ ڈسمبر20کی خوفناک رات میں پولیس نے دروازہ کھٹکھٹایا۔
جب تک دروازہ کھولاجاتا‘ پولیس نے دروازہ توڑ ا اور اندر داخل ہوگئی۔ گھر میں پولیس نے توڑ پھوڑ مچائی اور رقیہ کا الزام ہے پولیس نے پانچ لاکھ روپیہ اور زیوارت جو والدین نے شادی کے لئے اکٹھا کئے تھے لوٹ لئے
انہو ں نے رقیہ کے چچا اور 14سال کے چھوٹے بھائی کو گرفتار کرلیا۔ انہیں سڑک پردور لے گئے اور بے رحمی کے ساتھ ان کی پیٹائی کی۔
احمد کو وہ پولیس اسٹیشن لے گئے جہاں پر اس کی ملاقات کئی دیگر نابالغ بچوں سے ہوئی تھی۔انہوں نے حقائق سے آگاہی مشن کو بتایا کہ اس نے ایک پولیس افیسر کو یہ کہتے ہوئے سنا تھا کہ نابالغ بچوں کی اس قدر پیٹائی نہ کریں کہ وہ مر جائیں۔
دوسری نے جواب دیا کہ ان میں کوئی مر ہی جاتا ہے تو اچھا رہے گا۔ مہاویر چوک کے قریب میں پولیس ساداب ہاسٹل میں داخل ہوئی‘ جس کو ایک معمر عالم دین چلاتے ہیں‘جس کو پچھلے سال ہندوستان کے نائب صدر کے ہاتھ سے جمہوریت ایوارڈ ملا تھا۔
انہوں نے عالم دین اور طلبہ کو جو ہاسٹل میں رہتے ہیں ان کی بری طرح پیٹائی کی ہے‘ جانوروں کی طرح بسوں او رگاڑیوں میں بھر کا انہیں مقامی پولیس اسٹیشن لے گئے۔انہیں ”جئے شری رام“ کا نعرہ لگانے کے لئے کہاگیا۔
عالم دین کے دونوں ہاتھوں میں فریکچر کردیا۔اننیا کا کہنا ہے کہ ”ہم ایسے وقت میں ہں جہاں پر ہم ذہنی صحت کے متعلق بہت با ت کرتے ہیں۔
مگر ان بچوں کا کیسا جس سے بچے متاثرہورہے ہیں؟۔
ان لوگوں کو بھی مولانا صاحب کے ساتھ گرفتار کرلیاگیاتھا جو وہاں پر نماز پڑھنے کے لئے ائے تھے او راب بھی وہ پولیس تحویل میں ہیں جب ہم سے ملاقات کے لئے گئے تھے۔ہمیں احساس یہ ہے کہ یہ منظم حملہ ہے“
علی گڑھ
مذکورہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے طلبہ اس وقت پرامن احتجاج کررہے تھے جو پولیس کیمپس میں داخل ہوئی تھی۔ انہوں نے طلبہ پر گرنائیڈس اور آنسو گیس کا استعمال کیاہے۔
محمد طالق کے ہاتھ پر اب صرف ایک انگلی باقی ہے۔ انہوں نے احتجاج میں حصہ نہیں لیاتھا‘ بڑی مشکل سے وہ اسٹا ف کلب کے پاس کھڑے تھے جس وقت مظاہرین پولیس سے بچ کر بھاگتے ہوئے وہاں پر پہنچے۔
ان کاہاتھ اسٹن گرنائیڈ کے زد میں آگیا اور وہ پھٹا۔ اننیا کا کہنا ہے کہ ”وہ ایک اچھا طالب علم ہے۔
اس نے این ای ٹی دومرتبہ اور جی آر ایف ایک مرتبہ پاس کیاہے‘ اس کے علاوہ کیمیائی میں جی اے ائی ٹی بھی کامیاب کیاہے اور تین ماہ قبل پی ایچ ڈی میں اس کا داخلہ ہوا تھا۔
وہ بہت کمزور اور بے بس تھا۔ہمارے پاس طلبہ کو ہاسٹل کے کمروں سے پولیس کے کھینچ کر باہر نکالنے کی فوٹیج موجود ہیں اور اس میں ایک پولیس افیسر کو ہاتھ میں بندوق پکڑے صاف طور پردیکھا جاسکتا ہے“۔
فیروز آباد
فیروز آباد میں سات لوگ ہلاک ہوئے ہیں۔ اس شاہر میں کئی لوگوں چوڑیاں بنانے یا پھر چوڑیاں بنانے والی فیکٹریوں میں کام کرتے ہیں۔
اس کمیونٹی سے کئی لوگ زخمی ہوئے ہیں مگر پولیس کے خوف کے سبب کچھ کہنے کے لئے آگے آنے سے انکار کررہے ہیں۔
مقامی لوگوں نے مشن کو بتایا کہ کچھ لوگوں کو جو پولیس کی گولی سے ہلاک ہوئے ہیں انہیں عجلت میں دفن کردیاگیاہے۔ ان کے گھر والے خوف زدہ ہیں جس کی وجہہ سے بات کرنے کے لئے آگے نہیں آرہے ہیں۔
احمد نقوی جو کہ ایک کینسر کے مریض ہیں اپنے لئے دوائی لانے کی غرض سے باہر گئے تھے۔
انہیں پولیس اٹھاکر لے گئی او ربری طرح پیٹا۔ ان کا ایک پیر ٹوٹ گیاہے۔ انہیں 28ڈسمبر کے روز کیموتھرپی کے لئے جانا تھا‘ پھر بھی پولیس نے انہیں د ودن کی تحویل میں لے لیا۔
گھر والوں کا الزام ہے کہ جب وہ تحویل میں تھے پولیس نے انہیں علاج کرانے کا موقع فراہم نہیں کیا۔ گھر والوں کے پا س عدالت کا دروازہ کھٹکھٹانے کے سوائے کوئی دوسرا راستہ نہیں تھا۔
پہلے دو عدالتی احکامات پر پولیس نے توجہہ نہیں دی۔تیسرے آرڈر کے بعد پولیس نے نقوی کا علاج شروع کیا‘ مگر وہ بھی پولیس تحویل میں ہیں۔پولیس نے آزادکی دوکانوں کے سی سی ٹی وی کیمروں کو توڑ دیااور الزام ہے کہ پولیس نے ایک لاکھ اٹھ ہزار روپئے لوٹ لئے ہیں۔
پولیس کے ساتھ کچھ اور لوگ تھے جنھوں نے دوکان میں کھڑی موٹر سیکل کو بھی نذر آتش کردیاتھا۔حقائق سے آگاہی مشن کا حصہ انڈین انسٹیٹیوٹ آف ماس کمیونکشن میں ہندی جرنلزم کے ایک طالب علم آکشے پانڈے کا کہنا ہے کہ ”آزاد نے سناتھا کہ پولیس اور اس کے ساتھ موجودغنڈے چلارہے تھے کہ ”اس آزاد کو بھی اسی آگ میں پھینک دو۔ آزاد نے اپنی جان بچانے کے لئے دوڑ لگائی مگر ان کا بھتیجہ گروپ کے ہاتھوں لگا۔
انہوں نے آزاد کے جیب سے 2.50لاکھ کا ایک چیک زبردستی چھین لیا اورہاتھ میں پستول پکڑا دی۔ پھر انہوں نے ایف ائی آر درج کی جس میں لکھا کہ آزاد کے پاس سے ایک غیر قانونی پستول برآمدہوئی ہے“۔
جلال الدین کی بیٹی کی شادی 20ڈسمبر کے روز مقرر تھی۔ مگر دوپہر میں کچھ لوگ ان کے گھر میں داخل ہوئے اور تمام چیزیں اٹھاکر لے گئے۔ ان کے گھر کا سی سی ٹی وی کیمرہ بھی توڑ دیاگیا۔
چوڑیوں کی فیکٹری میں خدمات انجام دینے والے معذور رشید کو بھی گولی مار کر ہلاک کردیاگیا۔ہارون دودھ بیچے ہیں۔ پولیس کی گولی سے ان کی موت ہوگئی۔ قاسم او رندیم کا بھی ایسا ہی حال کیاگیاہے۔
قاسم مسجد میں بچوں کو پڑھاتے تھے۔ پولیس نے انہیں سر پر ٹوپی پہنے مسجد کے باہر دیکھا اور انہیں اٹھاکر لے گئی۔انہیں بے رحمی کے ساتھ پیٹا۔
آکاش نے کہاکہ ”اس سے یہ بات سامنے آرہی ہے کہ ہمارا ملک اور اداروں کو مکمل طور سے فرقہ وارانہ رنگ میں رنگنے کاکام کیاجارہا ہے“۔
بجنور
رپورٹ میں کہاگیا ہے کہ ”جمعہ کی نماز کے بعد بجنور کے قریب کی سوت منڈی کے پاس تین مساجد کے پاس20ڈسمبر کے روز کچھ لوگ جمع ہونا شروع ہوئے۔
جب ہجوم جلوس نکالنے کی کوشش کررہاتھا تب پولیس نے انہیں روکنے کی کوشش کی جس کی وجہہ سے حالات کشیدگی کا شکار ہوگئے اور مظاہرین و پولیس کے درمیان جھڑپ کی وجہہ بنا۔
مظاہرین کے ہاتھوں میں ترنگا تھا اور وہ مخالف این آرسی‘ سی اے اے نعرے لگارہے تھے۔درایں اثناء پولیس کی گاڑیوں پر کچھ پتھر پھینکے گئے۔
مشن میں شامل طلبہ کو کچھ عینی شاہدین نے بتایا کہ سادہ لباس میں پولیس کے ساتھ موجود کچھ لوگوں نے پولیس کی گاڑیوں پر پتھر پھینکے جس کے بعد لاٹھی چارج شروع اور مظاہرین بھگدڑ کا شکا ر ہوگئے۔
اسی کے ساتھ پولیس نے فائرینگ شروع کردی جس میں پولیس کی گولیوں سے دو لوگ ہلاک اور تین زخمی ہوگئے تھے“۔محمد انس اور محمد سلیمان کی جان پولیس فائرینگ میں چلی گئی
احتجاج کے مقام پر قریب سے ان پر گولیاں چلائیں گئی تھیں۔ پولیس نے جب فائرینگ کی تھی اس وقت سلمان نیہا تو مارکٹ میں تھا۔
انہیں اچھی طرح یاد ہے کہ پولیس افیسر نے ان کی طرف نشانہ لگا کر گولی ماری تھی۔انہیں پیٹ میں گولی ماری گئی تھی۔ انہیں کچھ لوگ اسپتال لے گئے او روہ بچ گئے
۔پرامن احتجاجی مارچ پر بھی پولیس نے لاٹھی چارج کیا اور117لوگوں کو گرفتار کرلیاتھا۔نگینہ میں کئی معصوم بچوں کو پولیس نے بے رحمی کے ساتھ پیٹا۔ کم سے کم 79بچے اب بھی سلاخوں کے پیچھے ہیں۔
نگینہ پولیس اسٹیشن میں شارق کی بے رحمی کے ساتھ پیٹائی کی گئی اور پھر انہیں بجنور پولیس اسٹیشن لے جایاگیا۔ پولیس نے لاٹھی کے ساتھ ان کی پیٹائی کی جس کی وجہہ سے ان کے پیر ٹوٹ گئے۔
انہیں چوبیس گھنٹوں تک علاج کا موقع فراہم نہیں کیاگیاتھا۔ پولیس کے خوف سے ٹاؤن کے کئی لوگوں نے اپنے موبائیل فونوں سے احتجاجی مظاہروں کے ویڈیوز ہدف کردئے ہیں