طنزیہ مضمون یکساں سیول کوڈ بی جے پی کا سیاسی حربہ

   

عثمان شہید ایڈوکیٹ
راقم الحروف بی جے پی کے مجوزہ سیول کوڈ کا بدترین مخالف ہے لیکن ہمیں یقین ہے کہ باوجود ہزار مخالفتوں کے یو سی سی کسی اور نام سے نافذ ہوکر رہے گا ۔ پارلیمنٹ میں ان کی بے رحمانہ اکثریت ہے ،اور کوئی رکاوٹ نہیں ، وقت کی دیر ہے ، آئندہ پارلیمنٹ کے الیکشن سے قبل ووٹوں کے حصول کیلئے عوام سے کہا جائے گا کہ دیکھو ہم نے جو کہا وہ کردکھایا ۔ طلاق ثلاثہ ختم کردیا، یکساں سیول کوڈ نافذ کردیا ۔ جو کانگریس پچھلے پچاس سال میں نہ کرسکی ۔ یہ بی جے پی کی سیاسی چال ہے تاکہ ووٹ حاصل کئے جاسکیں۔ اقتدار حاصل کیا جائے ۔ پھر مودی پرائم منسٹر اور امیت شاہ ہوم منسٹر ، عدالتوں کو کمزور کردیا جائے گا ۔ قانون کو بے عمل کردیا جائے گا اور پولیس کو ناکارہ ۔
ٹاملناڈو میںپی کے اسٹالن نے صاف کہہ دیا کہ پہلے سیول کوڈ ہندوؤں پر نافذ کیا جائے تاکہ سب ہندوؤں کو کئی مندروں میں جانے کی اجازت نہیں ۔ سکھ بھی اس قانون کے مخالف ہیں ۔ بی سی ، یس ٹی ، یس سی طبقات اس قانون کے خلاف کھڑے ہوگئے ہیں۔ کیا کریں گاڑی شروع میں ہزاروں دھکے کھانے کے بعد اسٹارٹ ہوتی ہے ۔ ویسے آر ایس ایس 1923 سے اپنے جنم دن کے بعد سے ہی ایک قانون ، ایک قوم، ایک زبان کا نعرہ لگارہی ہے ۔ بی جے پی اس کا سیاسی بازو ہے ۔ اب وقت عمل کا آگیا ہے ۔
تاریخ کہتی ہے کہ ہندوستان میں راجاؤں مہاراجاؤں مرٹھے ،لودھی ،خاندان تغلق ،خلجی مملوک ،مغلق ،قطب شاہی ،آصف جاہی ،احمد شاہی ،بہمنی ،فرید شاہی ،عادل شاہی خاندانوں نے حکومت کی تھی اور یہ لوگ سربراہ سلطنت تھے۔ لیکن کبھی یہ نہیں کہا کہ سب کے لئے ایک قانون ضروری ہے۔ انہوں نے کبھی مذہب سے چھیڑ چھاڑ نہیں کی ۔ ہندو مسلمان سکھ عیسائیوں کے ساتھ یکساں سلوک کیا ۔ وقت کی طاقتور ترین وزیر اعظم اندراگاندھی نے یہ کہا تھا کہ ہم سب کی متفقہ رائے سے دستور کی دفعہ 44میں وقت آنے پر مناسب ترمیم کریں گے ۔ لیکن قدم نہیں اٹھایا ۔ جب قرآنی علم سے کام نہیں لیا جاسکا تو شیطانی علم پر عمل کیا گیا ۔ انہیں نہ ملک کے نقصان کی فکر ہے اور نہ عوام کی ۔ وہ تو بس اپنا سیاسی گلگلہ تلنے پر مصر ہیں ۔ بی جے پی ،ہندو ،وشوا ہندوپریشد ،بجرنگ دل ، مسٹر یوگی ہر حیلے سے مسلمانوں کو ملک سے باہر نکال دینا چاہتے ہیں تاکہ باس رہے نہ بانسری لیکن یہ نہیں جانتے کہ مسلمان دوسری ہجرت کے لئے تیار نہیں ۔ پران جائے پر وطن نہ جائے۔ ظلم کی کشتی کاغد کی ناؤ ہے زیادہ دیر نہیں چلے گی ۔ ہر رات کی سحر ہوجاتی ہے ع
خون ہزار انجم سے ہوتی ہے سحر پیدا
افسوس کہ کچھ عقل سے پیدل ، اسلام سے ناواقف حضرات بی جے پی کے ڈھول پر ڈھولک کے گیت گارہے ہیں ۔ ان کا سیاسی گیت بھی تفنن طبع کے لئے سن لیا جائے گا ۔
اچھا ہے ایک قانون ایک قوم یکساں سیول کوڈ نافذ کردیا جائے ۔ اب یہ بتائیے تمام قوم کا خدا کون ہوگا ؟ اللہ ، پربھو، رام رحیم اور گروناک ، عیسیٰ کون ہوگا ؟ لیکن ہر نام سے مذہب کی بو آتی ہے۔ جو وجہ اختلاف ہے ۔ فسادات کا باعث ہے ۔ چلئے سب مل کر سیندھی کے جھاڑ کو خدا تسلیم کرلیں تاکہ ہم کو سیندھی مفت میں ملے اور سکون ملے۔ نیند کی گولی کھانے کی کوئی ضرورت نہیں۔ ڈاکٹر کی فیس ، دواخانہ کا خرچ سب ختم ۔ کوئی مسلمان ہندو سکھ عیسائی کوئی نہیں ۔
دوسرا سوال یہ ہے کہ ہم کیا ہیں ؟ ڈارون کے نظریہ کے مطابق ہم سب بندر کی اولاد ہیں ۔ ترقی کرتے کرتے انسان بن گئے ہیں ۔ چلئے یہ بھی صحیح ہے ۔ دوسری قوم یہ کہے گی تو ہم کہیں گے کہ ہم بندر کی اولاد ہیں ۔ اب رہا سوال طہارت کا ۔ یہ ایک درد سر ہے ۔ طہارت سے معلوم ہوجاتا ہے کہ کس مذہب سے ہمارا تعلق ہے ۔ اس فعل پر قانوناً پابندیاں عائد کی جائیں ۔ تاریخ کہتی ہے کہ مغلیہ سلطنت کا بادشاہ رنگیلاشاہ بھرے دربار میں طہارت کرتا تھا اس کا دیکھا دیکھی اس کے وزرا بھی بھرے دربار میں فارغ ہوجایا کرتے تھے (تاریخ طبع طباطبائی )۔ افضل میاں کی تاریخ یہی کہتی ہے اور یہ کہ مغلیہ خاندان میں ختنہ کا رواج نہیں تھا ۔ کسی مختون کو بادشاہی کا حق حاصل نہیں تھا ۔ ہم بھی اسی طرح ختنہ جیسے اذکار رفتہ قانون پر پابندی عائد کردیں ۔ یکساں سیول کوڈ زندہ باد ۔ کوئی مسلم نہیں ، کوئی غیر مسلم نہیں؎
آئین نو سے ڈرنا ، طرز کہن پہ اڑنا
منزل یہی کٹھن ہے قوموں کی زندگی میں
ہندوستانی قوم میں مصیبت کا حل یہ ہے کہ ہم سب موٹر یا موٹر سیکل ، بس ، ٹرین،ہوائی جہاز کی سواری ترک کردیں ۔ پیسہ بچ جائے گا۔ سب گدھے پر سواری کریں ۔ ارے بھائی ارے بھائی صلیبی جنگوں کا ہیر وپیٹرگدھے پر بیٹھ کر تقریر کے ذریعے آگ لگادیتا تھا ۔ اور ہم کیوں نہ گدھے پر بیٹھیں ۔ کروڑوں کی بچت ۔ کاروں سے چھٹکارا ، ارکان پارلیمنٹ گدھے پر پارلیمنٹ آئیں گے۔ ویسے وزیراعظم نے نوجوانوں سے کہا بھجئے تلیں، پکوڑے تلیں ، چائے بنائیں ، ہوٹلوں میں پوچے لگائیں، خوش رہئے ۔ بی ایس سی ، ایم اے ، ایل ایل بی ، ایم بی بی ایس کی ڈگریوں کی ضرورت نہیں مقصد صرف پیسہ کمانا ہے تو چلئے صرف بجھئے تلیں۔
یکساں سیول کوڈ لباس کے مسئلہ کو بھی حل کردیتا ہے ۔کروڑوں روپئے ٖخرچ کرکے لباس بنانے کی ضرورت نہیں ۔ کوئی شخص شیروانی یا سوٹ نہیں پہنے گا تاکہ یہ معلوم نہ ہوکہ اس کا مذہب کیا ہے ۔ کیا آپ نے کبھی شیر کو سوٹ پہن کر ٹہلتے ہوئے دیکھا ہے یا ریچھ کو شیروانی پہنتے ہوئے دیکھا ہے ۔ کیا بندر کو لنگی پہن کر چھلانگ لگاتے ہوئے دیکھا ۔لنگورو ں کو دھوتی میں دیکھا ہے یا کوئل مینا کو ساڑی میں دیکھا ۔ پروفیسر بلراج ہد ہک نے اپنی کتاب Indianisation میں یہی لکھا ہے کہ لباس فساد کی وجہ ہے ۔ قبرستان اور شمشان گھاٹ کا مسئلہ نہیں بلکہ یہ حل ہوجائے گا۔ کوئی مرے لاش کو پانی میں بہادیا جائے ۔ قبرستان ختم ،شمشان ختم ایسی زمین غربا میں تقسیم کردی جائے۔ غریبی دور ہوجائے گی ۔ یکساں سیول کوڈ زندہ باد ۔ بی جے پی پائندہ باد ۔