طویل رسہ کشی کے بعد کسانوں کو دہلی کے نرنکاری گراونڈ پر احتجاج کی اجازت

,

   

پولیس کی نگرانی میں شمالی دہلی تک کسان جتھوں کی آمد۔ طویل احتجاج کا منصوبہ ۔ کجریوال حکومت کی جانب سے خیموں اور دیگر سہولیات کا انتظام

نئی دہلی ۔ ہزاروں کی تعداد میں کسان آنسو گیس کے شیلس ‘ واٹر ینن اور پولیس لاٹھی چارچ کا سامنا کرنے کے بعد اب دارالحکومت دہلی کے مضافات میں براری میں جمع ہونے شروع ہوگئے ہیں۔ کسانوں کو دہلی میں آنے کی اجازت دی گئی تھی ۔ ہریانہ اور اترپردیش میںمختلف انٹری پوائنٹس سے کسانوں کو دہلی میںداخلہ دیا گیا اور انہیں پولیس کی نگرانی میں شمالی دہلی کے براری میں جمع ہونے اور احتجاج کی اجازت دی گئی ہے ۔ کسان براری میں نرنکاری گراونڈ میں جمع ہونے شروع ہوگئے ہیں۔ دارالحکومت کے مختلف انٹری پوائنٹس پر کسانوں کا پولیس کے ساتھ تصادم ہوا تھا جو انہیں دہلی میں داخل ہونے سے روک رہی تھی ۔ دو پہر یں دہلی پولیس نے کہا کہ کسانوں کو احتجاج کیلئے مختص جگہ تک پولیس کی نگرانی میں پہونچایا جائیگا۔ دہلی میں داخلہ سے قبل تین دن سے کسانوں اور پولیس کے مابین جھڑپیں چل رہی تھیں ۔ کئی مقامات پر پولیس نے ان کسانوں کو دہلی میں داخلہ سے روک دیا تھا ۔ کسانوں پر لاٹھی چارچ کیا گیا ۔ ان پر آنسو گیس کے شیلس برسائے گئے اور واٹرکینن کا بھی استعمال کیا گیا ۔ پولیس کے ساتھ ٹکراو میں کسانوں نے رکاوٹوں کو اکھاڑ پھینکا تھا اور بعض مقامات پر سنگباری کے بھی الزامات ہیں۔ آج چیف منسٹر اروند کجریوال کی عام آدمی پارٹی نے ٹوئیٹ کیا کہ پنجاب ‘ ہریانہ اور دوسری ریاستوں سے کسان زرعی قوانین کے خلاف احتجاج کیلئے یہاں جمع ہورہے ہیں۔ حکومت دہلی کی جانب سے ان کیلئے پانی اور دوسری سہولیات کا انتظام کیا جا رہا ہے ۔ عام آدمی پارٹی کے رکن اسمبلی راگھو چڈھا نے کہا کہ چیف منسٹر کجریوال خود انتظامات کی نگرانی کر رہے ہیں ۔ کسانوں کیلئے ٹنٹس ڈالے جا رہے ہیں اور غذا بھی فراہم کی جا رہی ہے ۔ دہلی کے وزراء ستیندر جین اور راگھو چڈھا نائب صدر نشین دہلی واٹر بورڈ نے نرنکاری گراونڈ کا دورہ کرکے انتظامات کا جائزہ لیا ۔ پولیس نے کہا کہ اس گراونڈ کے آس پاس کی شراب کی دوکانات کو بند کردیا گیا ہے ۔ کہا گیا ہے کہ کئی کسان جن کا پنجاب سے تعلق ہے مغربی دہلی میں سرحد پر ہی رکے ہوئے ہیں ۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ اپنے ساتھیوں کی کل آمد کے بعد براری جائیں گے ۔

احتجاج میں شامل بعض کسان اپنے خاندانوں کے ساتھ آئے ہیں۔ براری کے قریب کچھ خواتین کو سڑکوں پر پکوان کرتے بھی دیکھا گیا ہے ۔ کسان ٹرکس اور ٹریکٹرس کے ساتھ آئے ہیں اور ان میں بعض کا کہنا ہے کہ وہ چھ ماہ کے راشن کے ساتھ آئے ہیں اور زرعی قوانین کے خلاف طویل احتجاج کیلئے تیار ہیں۔ مرکزی حکومت کے نئے قوانین کے خلاف کسان احتجاج کر رہے ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ ان قوانین سے کسانوں کو اقل ترین امدادی قیمت نہیں مل پائے گی اور کارپوریٹ شعبہ کو ان کی اشیا پر قیمتوں کو کنٹرول کرنے کا موقع مل جائیگا ۔ اس احتجاج کو چلو دہلی کا نام دیا گیا ہے اور سمجھا جا رہا ہے کہ کسانوں کی تقریبا 500 تنظیمیں اس میں حصہ لے رہی ہیں۔ گذشتہ دو دنوں کے دوران چھ ریاستوں اترپردیش ‘ ہریانہ ‘ اترکھنڈ ‘ راجستھان ‘ کیرالا اور پنجاب سے تعلق رکھنے والے کسانوں نے دہلی کی سمت پیشرفت کی ہے ۔ ان پر پولیس کی جانب سے آنسو گیس کے شیلس برسائے گئے تھے ۔ لاٹھی چارچ کیا گیا تھا اور واٹر کینن کا استعمال بھی کیا گیا تھا ۔ کسانوں نے ان تمام رکاوٹوں کے باوجود اپنے احتجاج کو جاری رکھا ہے اور بالآخر انہیں دہلی میں داخلہ کی اجازت مل گئی ہے ۔
کسانوں کو بات چیت کی دعوت
اس دوران مرکزی وزیر زراعت نریندر سنگھ تومر نے کسانوں سے اپیل کی کہ وہ اپنے احتجاج کو ختم کرتے ہوئے بات چیت کیلئے آگے آئیں۔ نریندر سنگھ تومر نے کہا کہ ملک میں کورونا کی صورتحال ہے اور اس کو دیکھتے ہوئے کسانوں کو اپنا احتجاج ختم کرنا چاہئے ۔ حکومت ان کے ساتھ بات چیت کرنے کیلئے تیار ہے ۔ ان کے شکوک پر بات کی جائے گی ۔ حکومت نے 3 ڈسمبر کو کسانوں سے بات کرنے کا ارادہ ظاہر کیا ہے اور کہا کہ کسان برداری کو فوری اپنے احتجاج سے دستبرداری اختیار کرلینا چاہئے ۔