ظلم اور ظالم حکمرانوں سے نجات کے لیے ووٹ اہم ذریعہ

   

ملک میں تبدیلی ناگزیر، ووٹ دستوری حق اور دینی فریضہ، مسلمان ووٹ کی امانت کو ضائع نہ کریں، نوجوانوں اور خواتین کی رائے دہی پر توجہ ضروری
حیدرآباد۔/23 اپریل، ( سیاست نیوز) سماج میں تبدیلی لانی ہو یا پھر حکومت کو بدلنا ہو جمہوریت میں عوام کو حقوق حاصل ہیں کہ وہ اپنی پسند کے عوامی نمائندوں کا انتخاب کرسکتے ہیں۔ تبدیلی کے تصور کے ساتھ ہی عام طور پر رائے دہی کا تصور ذہن میں اُبھرتا ہے۔ ہندوستان جو ایک جمہوری اور سیکولر ملک ہے اس نے شہریوں کو رائے دہی کا دستوری حق فراہم کیا ہے تاکہ وہ عوامی خدمت گذار نمائندوں اور حکومت کا انتخاب کرسکیں۔ یوں تو ووٹ کی اہمیت کے بارے میں ہر الیکشن سے قبل شعور بیداری مہم چلائی جاتی ہے باوجود اس کے عوام نے ووٹ کی اہمیت کو محسوس نہیں کیا اور رائے دہی کا فیصد بتدریج گھٹتا ہی جارہا ہے۔ دراصل الیکشن سے عوام کی عدم دلچسپی کی اہم وجہ انتخابی دھاندلیاں ہیں جن کے ذریعہ امیدوار حقیقی رائے دہندوں کی رائے پر بھاری پڑ جاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ الیکشن کمیشن نے رائے دہی کیلئے استعمال کی جانے والی ووٹنگ مشین میں NOTA کا آپشن شامل کیا ہے جس کا مطلب کوئی بھی امیدوار پسند نہیں کا ہوتا ہے۔ ’ نوٹا ‘ آپشن کے ذریعہ ناپسندیدہ امیدواروں کو مسترد کرنے کا حق حاصل ہے لیکن اس حق کے استعمال کیلئے بھی رائے دہندوں کو پولنگ اسٹیشن جانے کی زحمت اٹھانی پڑے گی۔ ملک میں ’ نوٹا ‘ کے استعمال کے بارے میں بھی عوام میں کوئی خاص دلچسپی اس لئے بھی نہیں ہے کہ وہ جانتے ہیں کہ چند ایک افراد کے مسترد کرنے سے نتیجہ پر کوئی فرق نہیں پڑتا۔ الیکشن 2024 ملک کی تاریخ کا فیصلہ کن الیکشن کہا جارہا ہے کیونکہ مبصرین کا ماننا ہے کہ اگر جاریہ الیکشن میں نریندر مودی کو تیسری مرتبہ اقتدار کا موقع مل جائے تو ملک میں جمہوریت کی جگہ ڈکٹیٹر شپ کا آغاز ہوگا اور نریندر مودی تاحیات وزیر اعظم بن جائیں گے۔ ملک میں نظریاتی جنگ پر مبنی لوک سبھا چناؤ میں اقلیتوں اور کمزور طبقات کو ووٹ کی اہمیت سے واقف کرانے کی ضرورت ہے۔ اکثر یہ دیکھا گیا ہے کہ اعلیٰ طبقات میں رائے دہی کا فیصد کمزور طبقات سے زیادہ ہوتا ہے اور ایک منظم منصوبہ کے تحت کمزور طبقات اور اقلیتوں کے حوصلے پہلے ہی سے پست کردیئے جاتے ہیں تاکہ وہ پولنگ اسٹیشن تک نہ پہنچ سکیں۔ جمہوریت میں ووٹ ایک دستوری حق ہے لیکن اسلام اور شریعت کے اعتبار سے ووٹ ایک امانت ہے جس کے زیاں پر روز قیامت جواب دینا ہوگا۔ ملک بھر میں مذہبی تنظیموں کی جانب سے مسلمانوں میں یہ پیام عام کیا جارہا ہے کہ ووٹ کی امانت کو ضائع نہ کریں کیونکہ حدیث پاک کے مطابق امانت ضائع کی جائے تو قیامت کا انتظار کرنا چاہیئے اور امانت کے زیاں کا مطلب نااہل افراد کو کام سپرد کرنا ہے۔ انتخابی نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو الیکشن بھی اہل افراد کو ذمہ داری دینے کا ایک موقع ہے۔ اگر اپنی کوتاہی اور غفلت کے نتیجہ میں نااہل افراد ملک کے اقتدار پر قابض ہوجائیں تو یہ امانت ضائع کرنے کے مترادف ہوگا۔ کئی نامور مذہبی شخصیتوں نے ملک کا چپہ چپہ گھوم کر مسلمانوں اور کمزور طبقات کو ووٹ کی اہمیت سے واقف کرانے کی کوشش کی ہے۔ عام طور پر یہ احساس دیکھا گیا ہے کہ ایک ووٹ سے کیا فرق پڑ جائے گا۔ جہاں تک تبدیلی کا سوال ہے ایک ووٹ بھی ملک کی تقدیر بدل سکتا ہے۔ اٹل بہاری واجپائی کی حکومت کو صرف ایک ووٹ کے فرق سے زوال آیا تھا۔ الیکشن 2024 میں بی جے پی 400 نشستوں پر کامیابی کا نشانہ مقرر کرچکی ہے اور ان حالات میں ایک ، ایک ووٹ اہمیت کا حامل ہے۔ مسلمانوں میں خاص طور پر نوجوانوں اور خواتین کو ووٹ کی اہمیت سے واقف کرانے کی ضرورت ہے۔ اکثر یہ دیکھا گیا ہے کہ رائے دہی کے دن خواتین اور نوجوان چھٹی منانے کیلئے تفریحی مقامات یا اپنے رشتہ داروں کا رُخ کرتے ہیں اور ووٹنگ جیسے دینی فریضہ کو فراموش کردیا جاتا ہے۔ دیہی علاقوں کے مقابلہ شہری علاقوں میں خواتین اگر گھر میں بھی رہیں تو وہ پولنگ بوتھ جانے کی زحمت نہیں کرتیں اور اپنا ووٹ ضائع کردیتی ہیں۔ نوجوانوں میں زیادہ تر سوشیل میڈیا میں مصروف دکھائی دیتے ہیں یا پھر تفریحی مقامات میں وقت گذاری کرتے نظر آتے ہیں۔ ایک سروے کے مطابق شہری علاقوں میں مسلم نوجوانوں اور خواتین کا رائے دہی کا فیصد 25 تا 30 فیصد ریکارڈ کیا گیا۔ جاریہ الیکشن کی اہمیت کے پیش نظر شہری علاقوں میں نوجوانوں اور خواتین کو ووٹ کی اہمیت سے واقف کراتے ہوئے انہیں رائے دہی مرکز تک پہنچنے کی کامیاب ترغیب دی جانی چاہیئے۔ مبصرین کا ماننا ہے کہ رائے دہی کی ذمہ داری سے تساہل آئندہ کیلئے پچھتاوے کا سبب بن جائے گا۔ ملک میں ظلم اور ظالم حکمرانوں سے نجات کیلئے رائے دہی اہم ذریعہ ہے اور ایک‘ ایک ووٹ کے استعمال کے ذریعہ ملک میں عوام سے ہمدردی رکھنے والے حکمرانوں کے اقتدار کو یقینی بنایا جاسکتا ہے۔1