عالمگیر اور دائمی نمونے کی چار شرطیں

   

پروفیسرسیدعطاء اللہ حسینی
کسی سیرت کے عالمگیر اور دائمی نمونہ ہونے کیلئے اس میں تاریخیت، کاملیت، جامعیت اور عملیت کا پایا جانا ضروری ہے۔ ان چار شرطوں میں سے ہر شرط ضروری ہے۔ اگر ان میں سے ایک کی بھی کمی رہ جائے تو پھر وہ سیرت عالمگیر اور دائمی نمونہ نہیں بن سکتی۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم خاتم النبیین ہیں، آپﷺ کی سیرت کو تمام بنی نوع انسان کے لئے اور رہتی دنیا تک کے لئے نمونہ بنایا گیا ہے۔
تاریخیت سے مراد یہ ہے کہ نمونہ کی سیرت کوئی افسانوی کردار نہ ہو، اس کا تعلق صرف قصوں اور کہانیوں سے نہ ہو، بلکہ تاریخ اس کا ٹھوس ثبوت فراہم کرے۔ تاریخ کو جانچنے اور پرکھنے کے جو معیارات مقرر ہیں، ان پر وہ پوری اترتی ہو۔جب ہم رسول اکرم ﷺ کی سیرت طیبہ کا مطالعہ کرتے ہیں تو آپﷺ تاریخ کے ہر معیار پر پورے اترتے ہیں اور تاریخ آپ کی سیرت کا ٹھوس ثبوت فراہم کرتی ہے۔ آپ کی سیرت طیبہ جس تواتر اور تسلسل کے ساتھ دنیا میں پھیلی، اس میں کہیں خلا نہیں۔ مثلاً آپﷺ ہمیشہ صحابہ کرام کی نظروں کے سامنے رہے اور آپ کے اقوال و اعمال کو صحابہ کرام نے بیان کیا۔ آپ کی حیات طیبہ ہی میں آپ کی ایک ایک بات وہاں وہاں تک گھر گھر پہنچ چکی تھی، جہاں جہاں تک اسلام کی آواز پہنچی تھی۔ آپﷺ کے بعد تقریباً سو برس تک خود صحابہ کرام رضی اللہ عنہم روایت کرتے رہے۔ آخری صحابی حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ ہیں، جن کا انتقال ۹۳ھ میں ہوا۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حضور اکرم ؐکے بعد ۸۳ برس تک صحابہ کرام کا زمانہ رہا، اس کے بعد تابعین اور تبع تابعین کا زمانہ آتا ہے۔ یہ تینوں دَور ایسے تھے، جس میں گھر گھر قرآن و حدیث کا چرچا تھا۔

اس بات پر پوری دنیا متفق ہے کہ مسلمانوں نے اپنے پیغمبر ﷺکے حالات کی، بلکہ ہر اس چیز اور ہر اس شخص کے حالات کی، جس کا ادنی سا تعلق بھی رسول اکرم ﷺکی ذات گرامی سے تھا، جس طرح حفاظت کی وہ ایک خیابانِ حیرت ہے۔ وہ لوگ جو آنحضرت ﷺ کے اقوال و اعمال اور متعلقات کی زندگی کی روایت، تحریر اور تدوین کا کام انجام دیتے تھے، راویان حدیث، محدثین اور ارباب سیر کہلاتے ہیں۔ اس مقدس گروہ میں صحابہ کرام، تابعین اور تبع تابعین رضی اللہ عنہم اور چوتھی صدی ہجری تک کے اشخاص داخل ہیں۔ جب روایت کا یہ سرمایہ تحریری صورت میں جمع ہوچکا تو ان تمام راویوں کے حالات قلم بند کئے گئے، جو اسماء الرجال کے نام سے ایک فن کی شکل میں ہمارے سامنے ہیں۔ صحابہ کرام، تابعین اور تبع تابعین کے زمانے میں قرآن و حدیث کا علم ہی اصل علم سمجھا جاتا تھا اور اس علم کا گھر گھر چرچا تھا۔ بکثرت صحابہ کرام نے سرمایہ سیرت و حدیث دوسری نسل تک بڑی احتیاط کے ساتھ منتقل کی ہے۔ اسی طرح تابعین اور تبع تابعین میں یہ کام بکثرت ہوتا رہا۔ صرف مدینہ منورہ میں ۳۵۵ تابعین نے صحابہ کرام سے روایت کی۔ اس پر مکہ، طائف، بصرہ، کوفہ، دمشق، یمن اور مصر کو قیاس کیا جاسکتا ہے، جہاں بکثرت صحابہ کرام موجود تھے۔

پھر جب حضرت عمر بن عبد العزیز رضی اللہ عنہ نے (جن کا زمانہ خلافت ۹۹ھ تا ۱۰۱ھ ہے) حدیث شریف اور سیرت طیبہ کو ضبط تحریر میں لانے کا حکم دیا تو یہ سارا ریکارڈ تحریری شکل میں آگیا۔ محدثین نے احادیث کے مجموعے مرتب کئے، ارباب مغازی نے غزوات کی تفصیل لکھی، کتب دلائل کے نام سے معجزات قلم بند کئے گئے، کتب شمائل میں سیرت نگاری ہوئی، مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کے حالات میں سیرت کا خاصا حصہ ضبط تحریر میں آگیا۔ احادیث کے مجموعوں میں صحاح ستہ کو سارے عالم اسلام میں ایک امتیاز حاصل ہے۔ سیرت، سنت اور حدیث شریف کے ذخیرے کی محدثین نے چھان پھٹک کی۔ اس کا اندازہ صرف اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ فن جرح و تعدیل کے نام سے ایک مستقل فن وجود میں آیا اور ’’اسماء الرجال‘‘ کے نام سے پانچ لاکھ اشخاص کے سوانح لکھے گئے۔ سیرت کا یہ سارا ریکارڈ انتہائی احتیاط کے ساتھ ایک نسل سے دوسری نسل تک منتقل ہوتے ہوئے ہم تک پہنچا ہے۔ یہ ریکارڈ اتنا مستند ہے کہ غیر مسلم محققین بھی اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ مسلمانوں نے اپنے رسول (ﷺ) کی سیرت کو جس طرح محفوظ رکھا ہے، اس کی نظیر دنیا کی کسی قوم میں نہیں ملتی۔پھر اس کے علاوہ خود قرآن پاک میں سیرت کا ایک بہت بڑا حصہ محفوظ ہے اور جس کی حفاظت قرآن کے ساتھ ساتھ ہوتی چلی آئی ہے۔ علاوہ ازیں تبلیغ، مواعظ اور مذہبی جلسوں کے ذریعہ بھی سیرت تواتر کے ساتھ منتقل ہوتی رہی۔

یہ روایت حدیث و سیرت کا حیرت انگیز کام اس وجہ سے بھی سرانجام پایا کہ عربوں کا حافظ نہایت قوی تھا۔ وہ سیکڑوں اشعار کے قصیدے زبانی یاد رکھتے تھے۔ صحابہ کرام اور تابعین عظام نے قوت حافظ کو معراج کمال تک پہنچایا۔ وہ ایک ایک واقعہ اور ایک ایک حدیث کو سن کر اس طرح زبانی یاد رکھتے تھے، جس طرح آج مسلمان قرآن مجید کو یاد کرتے ہیں۔ ایک ایک محدث، کئی کئی ہزار اور کئی کئی لاکھ حدیثیں زبانی یاد کرتے اور یاد رکھتے تھے۔ وہ اس کی وجہ سے لوگوں کی نگاہوں میں معزز ہوتے تھے۔ پھر ان کی بڑی بڑی درسگاہیں تھیں اور مسجدوں میں ان کے درس کے حلقے قائم تھے۔

عہد رسالت سے لے کر آج تک حضور اکرم ﷺکے حالات، واقعات اور ارشادات پر جو کتابیں لکھی گئیں، ان کا شمار مشکل ہے۔ان تمام باتوں سے اندازہ ہوتا ہے کہ سیرت محمدی ﷺ کا تاریخی پہلو کتنا مستند اور وسیع ہے۔ ایسی تاریخی حیثیت حضور اکرم ﷺ کے علاوہ اقوام عالم میں کسی فرد کو حاصل نہیں۔