عالمی سطح پر اُردو امن وآشتی کی زبان۔ سید سیدین حمید

,

   

ہمارے کاموں میں اُردو قدم قدم پر ساتھ ہے۔ منظفر علی قومی اُردو کونسل کی چھٹی عالمی اُردو کانفرنس کا دوسرا دن

نئی دہلی۔قومی اُردو کونسل کی چھٹی عالمی اُردو کانفرنس کے دوسرے دن پہلا سیشن اُردو کی تعلیم میں مدراس کا کردار کے موضوع پر منعقد ہوج اس کی صدرات تلنگانہ اُردو اکیڈیمی چیرمن عبدالرحیم انصاری اور معروف عالم دین مولانا فرمان ندوی نے کی ۔

جبکہ نظامت کے فرائض زبیر خان سعید نے انجام دیے۔اس سیشن میں پہلا مقالہ غلام محمد وستانوی کا تھا جو طبعیت کی خرابی کے سبب نہیں آسکے اس لئے ان کا مقالہ خالد صاحب نے پڑھا۔

اس سیشن میں پروفیسر قاضی حبیب ‘مفتی ارشد دیوبندی‘ ڈاکٹر نعیم انیس‘ مفتی مشتاق تجاوردی اور شاہ اجمل فاروقی ندوی نے مقابلے پڑھے ۔

سبھی مقالہ نگاروں نے مدراس میں اُردو کے حوالے سے تفصیلی گفتگو کی اور بتایا کہ مدارس نے اُردو کے مایہ ناز ادبیوں ‘ محققوں اور شاعروں کی آبیاری کی ہے ۔

دوسرے سیشن کی صدرات معروف فلم ساز مظفرعلی اور پلاننگ کمیشن کیس ابق سیدہ سیدین حمید نے کی جبکہ نظامت ڈاکٹر محمد کاظم نے کی ۔

اس سیشن میں پروفیسر نزہت کاظمی ‘ پروفیسر میش سی بھاردواج‘ اور سید سلیم عارف نے مقالے پڑھے۔ صدراتی کلمات اداکرتے ہوئے سیدہ سیدین حمید نے کہاکہ مادری زبان کا مجھ پر قرض ہے جو میں نے ادا نہیں کیا۔اُردو ایک عالمی زبان ہے جو پوری دنیا میں بولی او رسمجھی جاتی ہے ۔

اُردو عالمی سطح پر امن او ر آشتی کی زبان ہے ۔ یہ زبان ہندو مسلم سکھ عیسائی کے دلوں کی ترجمان ہے۔سیشن کے دوسرے صدرمظفرعلی نے کہاکہ ہمارے کاموں میں اُردو قدم قدم پر ساتھ ہے۔

انہوں نے خطاطی کی اہمیت پر اظہار خیال کرتے ہوئے حصرت علی کے قول بھی دہرایا او رکہاکہ خطاطی ہماری روی کی ترجمان ہے ۔ یہ زمانہ قدیم سے رائج ہے اور اس کی مقبولیت میں اضافہ ہی ہورہا ہے۔ظہرانہ کے بعد کا سیشن مختلف ممالک میں اُردو کی صورت حال پر تھا۔

اس سیشم میں علی بیات( ایران) ولی عالم شاہین( امریکہ)لدمیلا واسیلیوا ( روس) محیاعبدالرحمن( آزبکستان) محمد عبدالرحمن القاضی( مصر)ڈاکٹر محمد غلام ربانی ( بنگلہ دیش) ‘ نصر ملک ( ڈنمارک) ذکائی کردس( ترکی)مامیاکین ساکو(جاپان) نے مقالے پڑھے۔

سیشن کی صدرات معروف محقق ودانشور پروفیسر ابولکلام قاسمی( علی گڑھ) تقی عابدی( کناڈا) اور مولانا آزاد نیشنل اُردو یونیورسٹی کے چانسلر فیروز بخت احمد نے کی۔ سمینار کے دوسرے دن بھی بڑی تعداد میں معززین اور شہر اور یونیورسٹیوں کے ریسرچ اسکالر موجود تھے