عالم اسلام کی آزمائشوں کا سامنا کرنے کے لیے ہمیں قرآن پاک کی رہنمائی کی ضرورت ہے

   

عالم اسلام کی آزمائشوں کا سامنا کرنے کے لیے ہمیں قرآن پاک کی رہنمائی کی ضرورت ہے
( تحریر : حضرت مولانا سید محمد رابع حسنی ندوی ، مجلہ الرائد ربیع الآخر 1437 ع)
اردو ترجمانی : محمد ثالث اکرمی

جب ہم مسلمانوں کے عروج و زوال کی تاریخ پر ایک نظر دوڑاتے ہیں تو ہمیں یہ نظر آتا ہے کہ جب بھی مسلمان ایمانی طاقت کے ساتھ ساتھ مادی طاقت کے حصول میں کامیاب رہے وہ ممتاز اور سب سے آگے رہے اور جب بھی انہوں نے ایمانی طاقت اور مادی طاقت کے مابین جمع و تطبیق میں کوتاہی کی، زوال پذیر ہوتے گئے اور اس کی نمایاں مثال ہمیں مشرق میں گزشتہ صدی میں پیش آئے واقعات میں ملتی ہے کہ اہل مشرق پر مادی اور مغربی طاقت کا تسلط اور دور دورہ ہوگیا جس کے نتیجے میں ان کی بھی وہی حالت ہوگئی ،چنانچہ عالم اسلامی کے ممالک میں رونما ہونے والے حالات و واقعات مغربی سامراج کے ہمیشہ زیرنگیں رہے اور آج بھی ہیں ، بلکہ سامراج تو ان ممالک میں حکومتی تسلط سے محروم ہونے کے باوجود ان پر بعینہ غالب و اثر انداز رہا ، اپنی عیاری و حکمت عملی سے دنیا کو مختلف ٹکڑوں میں تقسیم کرتا رہا ، مختلف ممالک کے مابین سیاست کے طرز و انداز کی بنیاد پر تفرقہ پیدا کرتا رہا ، انہیں وطن کی عصبیت کا علم بردار بناتا رہا بلکہ ان کو کمزور اور بے حیثیت بناکر مغربی ممالک کی حمایت وسرپرستی کا انہیں ضرورت مند اور بڑی بڑی طاقتوں کی امداد و معاونت کا محتاج بناتا رہا جس کے نتیجے میں عالم اسلامی کے ممالک بڑی بڑی طاقتوں کے سرنگوں اور ان کے اشاروں کے غلام بن گئے گرچہ وہ دنیا کے سامنے اپنی آزادی اور خود مختاری کا مظاہرہ کرتے رہے ۔

ایک طرف اُن ممالک کے قائدین مغربی سازشوں سے واقفیت کے باوجود اپنی ناواقفیت کا مظاہرہ کرتے ہیں اور دوسری طرف جو لوگ اپنے ممالک پر فرمانروا طاقتوں کی مخالفت کا پرچم اٹھاتے ہیں بڑی بڑی طاقتیں ان کا نام و نشان هي ختم کر دیتی ہیں ، خصوصا اسلامی حمیت اور جوش و ولولے سے بھرپور نوجوانان کو ظالم طاقتوں سے سازباز نہ کرنے کی وجہ سے یا پھر سازشوں سے پوری آگاہی نہ ہونے کی وجہ سے اپنا شکار بناتی ہیں۔

افسوس ناک حقیقت یہ ہے کہ اُس آزمائش سے ۔ جس کا مسلم ممالک کو سامنا ہے ۔  شعور و آگہی رکھنے والے حضرات بھی اپنے فریقِ مخالف کی سازشوں اور دسیسہ کاریوں سے فریب زدہ ہورہے ہیں اور نتیجۃً سنگین نقصانات سے دوچار ہورہے ہیں ، لہذا دشمنوں کا سامنا کرنے کے لئے ہمیں تیاری کرنا اور حکمت و دانشمندی کے ساتھ موزوں و مفید أسباب کا انتخاب کرنا ازحد ضروری ہے اور ویسے بھی دینی تعلیمات کی بدولت اسی تیاری اور خود سازی کی وجہ سے مسلمانوں کو امتیاز بخشا گیا ہے چنانچہ قرآن مجید میں کہا گیا ﴿ وَأَعِدُّوا لَهُم مَّا اسْتَطَعْتُم مِّن قُوَّةٍ وَمِن رِّبَاطِ الْخَيْلِ تُرْهِبُونَ بِهِ عَدُوَّ اللَّهِ وَعَدُوَّكُمْ وَآخَرِينَ مِن دُونِهِمْ لَا تَعْلَمُونَهُمُ اللَّهُ يَعْلَمُهُمْ ۚ وَمَا تُنفِقُوا مِن شَيْءٍ فِي سَبِيلِ اللَّهِ يُوَفَّ إِلَيْكُمْ وَأَنتُمْ لَا تُظْلَمُونَ﴾ [ سورة الأنفال : 60]  ۔
   واضح رہے کہ دشمنان اسلام کا اعتماد و دار مدار خاص طور پر دو طرح کے وسائل پر رہتا ہے ۱) مطلوبہ ضروری طاقت ( پاور)  کو تیار کرنا ۲) ذرائع ابلاغ اور نشریات کا استعمال ، اسی وجہ سے دشمنوں نے مشرقی کمزور وناتواں حکومتوں کو مختلف ہتھکنڈوں سے اپنے تابع بهي کیا ہے ،  عوام کے دلوں میں دہشت و ہراس بھی پیدا کیا ہے اور وہاں انتشار و خلفشار کا جال بھی پھیلایا ہے ، خاص طور پر مغربی فکر کے قائدین نے ان ممالک میں اپنے افکار و نظریات کے پرچار کرنے کے لئے ایک طرف طاقتور ترقی یافتہ میڈیا کا بھرپور استعمال کیا ہے اور دوسری طرف مغربی طاقتوں نے بھی اسلام کی قابلیت اور زمانہ سے اس کی مطابقت کی صلاحیت کو داغ دار کرکے لوگوں کو احساس ِ کمتری میں مبتلا کردیا ہے اور  مسلمانوں كو ان کی اپنی زندگی بدمست و غافل کرکے چھوڑدیا ہے بایں طور پر کہ وہ ماضي کے سلف صالحین کے ایمانی اخلاق و کردار سے بھی محروم و بے بہرہ ہیں اور دنیا و آخرت کی کامیابی کے أسباب و محرکات سے بھی غافل و لا پرواہ۔۔