عتیق احمد کون ہے ؟ قتل کیوں ہوا؟ کس نے کروایا؟

   

محمد ریاض احمد
وہ اس قدر دولت، شہرت، طاقت اور سیاسی اثر و رسوخ کا حامل ہوگیا تھا کہ پولیس عہدہ داروں سے لے کر تاجرین و صنعت کار، سیاستدانوں سے لے کر جیلرس اور ججس پر اس کا خوف طاری رہتا تھا۔ اگرچہ اس نے الہ آباد کے ایک غریب گھرانے میں آنکھیں کھولی لیکن دیکھتے ہی دیکھتے جرائم کی دنیا میں اس تیزی سے آگے بڑھا کہ دوست دشمن سب کے سب حیران رہ گئے۔ اس پر قتل و غارت گردی ، فساد برپا کرنے اغوا اور تاوان کی وصولی جیسے سنگین مقدمات درج کئے گئے۔ اپنی 61، 62 سالہ زندگی میں اسے دو دہوں (20 برسوں) تک وقفہ وقفہ سے جیل کی ہوا کھانی پڑی لیکن ہر بار وہ الزامات متوبہ سے بری ہوتا گیا کہا جاتا ہے کہ اس نے کئی سیاستدانوں، پولیس والوں، مخالف ٹولیوں کے ارکان کے قتل اور اغوا، میں اہم کردار ادا کیا اور پھر ایک دن ایسا آیا کہ پولیس حراست میں جبکہ اس کے ہاتھوں میں بیڑیاں تھیں بالکل قریب سے اس کے سر میں گولیا ماردی گئیں۔ اس وقت پولیس عدالت کے حکم پر اس کے اور اس کے بھائی کو میڈیکل چیک اپ کروانے کے لئے ہاسپٹل لے جارہی تھی (عینی شاہدین اور انسانی حقوق کے جہدکاروں نے اس واقعہ کو منصوبہ بند قتل سے تعمیر کیا۔ عینی شاہدین کے مطابق پولیس خود قاتلوں کو اپنے ساتھ لائی تھی اور پھر انہیں ایک مقام پر روک ایک عمارت کے اندر بھیجا گیا اور پھر انہوں نے صحافیوں کے بھیس میں قریب آکر اس کے اور اس کے چھوٹے بھائی پر گولیوں کی بارش کردی۔ قاتلوں اور ان کے آقاؤں کی بزدلی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ ان دونوں کے ہاتھوں میں بیڑیاں تھیں اور دونوں کے ساتھ زنجیر سے بندھے ہوئے تھے۔ ایسے میں پولیس اور میڈیا کی موجودگی میں قاتلوں کا قریب آکر حملہ کرنا اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ انہیں منصوبہ بند انداز میں موت کے گھاٹ اتارا گیا۔ ہاں ہم بات کررہے ہیں ایک مجرم ایک گینگسٹر سے سیاستداں اور پھر مقتول بننے والے عتیق احمد المعروف عتیق پہلوان کی جنہیں بڑی بیدردی بڑی چالاکی، عیاری و مکاری کے ساتھ پولیس حراست میں گولیاں ماردی گئیں۔ (یہ گولیاں کس کے اشارے پر ماری گئیں پولیس، انتظامیہ اور عوام بخوبی جانتے ہیں)، بہرحال اترپردیش جیسی ملک کی سب سے بڑی ریاست میں خوف و دہشت کی علامت بنے عتیق احمد المعروف عتیق پہلوان کون ہیں اس بارے میں جاننے کے لئے لوگوں میں بہت دلچسپی پائی جاتی ہے؟ ایسے میں ہم نے سوچا کہ کیوں نہ آپ کو عتیق احمد کی زندگی کے بارے میں واقف کروائیں۔ میڈیا کے مختلف گوشوں میں عتیق احمد کے تعلق سے بہت کچھ منظر عام پر لایا جارہا ہے۔ ہاں ہم نے سطور بالا میں آپ کو بتایا کہ کس طرح عتیق احمد کی پیدائش 10 اگست 1962 کو ٹانگہ چلانے والے ایک غریب شخص فیروز احمد کے شکشہ گھر میں ہوئی۔ عتیق احمد، ان کے چھوٹے بھائی خالد عظیم المعروف اشرف اور بہن عائشہ لوری کی ابتدائی زندگی انتہائی کسمپرسی میں گذری، چنانچہ غربت کے نتیجہ میں عتیق احمد زیادہ تعلیم حاصل نہ کرسکے اور مجیدیہ اسلامیہ انٹرمیڈیٹ کالج (MIC) سے 8 ویں جماعت میں کامیابی حاصل کی اور دسویں جماعت میں فیل ہونے کے بعد تعلیم ترک کردی۔ کہتے ہیں کہ بھوک و افلاس اور غربت انسان کو معاشرہ سے بغاوت پر مجبور کردیتے ہیں۔ ایسا ہی کچھ کمسن عتیق احمد کے ساتھ ہوا اور پھر 17 سال کی عمر میں پولیس نے ان کے خلاف مقدمہ درج کیا۔ کہا جاتا ہے کہ پہلا مقدمہ قتل کا تھا اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے عتیق احمد جرائم کی دنیا کا ایک اہم اور مشہور و معروف نام بن گیا اور ’’بدنام ہوں گے تو کیا نام نہ ہوگا‘‘ کے مصداق سیاستدانوں، صنعت کاروں و تاجرین کے حلقوں میں عتیق احمد کا نام بڑی تیزی سے گردش کرنے لگا۔ عتیق احمد کے بارے میں ہمیں جہاں تک معلومات حاصل ہوئیں ان کے مطابق 17 سال کی عمر میں اپنے خلاف پہلا پولیس کیس درج ہونے کے بعد عتیق نے پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا اور کسمپرسی کی زندگی گذارنے والے عتیق احمد 30 سال کی عمر میں کروڑ پتی بن گئے۔ سیاستدانوں پر بھی اپنا اثر و رسوخ بڑھالیا۔ عتیق احمد کی دولت اور اثاثوں کا جہاں تک سوال ہے انہوں نے اپنے آخری انتخابی حلف نامہ میں جو تفصیلات پیش کی تھیں اس کے مطابق وہ 26 کروڑ روپے مالیتی اثاثوں و نقد رقم کے حامل تھے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ عتیق احمد اگرچہ ایک گینگسٹر تھے اور گینگسٹرس کے دشمنوں کی تعداد بھی بہت ہوتی ہے لیکن یوگی ان کے سب سے بڑے دشمن تھے اور انہوں نے کچھ عرصہ قبل ہی یوپی اسمبلی میں اکھلیش یادو کے ساتھ نوک جھونک کے دوران عتیق احمد کا نام لیتے ہوئے مافیاؤں کو مٹی میں ملا دینے کا انتباہ بلکہ دھمکی دی تھی۔ چنانچہ مارچ 2023 تک یوپی میں پولیس نے عتیق احمد اور ان کے ارکان خاندان کی 1168.4 کروڑ روپے مالیتی املاک ضبط کی۔ عتیق احمد اگرچہ ایک گینگسٹر کی حیثیت سے جانے جاتے تھے لیکن انہوں نے اپنے انتخابی حلف ناموں میں ہمیشہ خود کو ایک کنٹراکٹر، بلڈر، پراپرٹی ڈیلر اور کسان کی حیثیت سے پیش کیا تھا۔ عتیق احمد اپنی رعب دار شخصیت خاص طور پر اپنے ڈول ڈھال چہرہ پر بڑی بڑی مونچھ کے باعث دشمنوں پر دہشت پیدا کردیتے۔ 5 فٹ 7 انچ قد کے حامل عتیق احمد کا وزن دن بہ دن بڑھتا جارہا تھا۔ اس کی وجہ ان کی قید و بند کی صعوبتیں جھیلنا تھا۔ بہرحال 34 برس کی عمر میں 1996 میں ایک پولیس کانسٹبل محمد ہارون کی گریجویٹ بیٹی شائستہ پروین سے ان کی شادی ہوئی اور اس جوڑے کے 5 بیٹے علی احمد، عمر احمد، اسد احمد، احضان احمد اور ایان احمد ہیں۔ جن میں سے علی احمد اور عمر احمد فی الوقت جیل میں ہیں جبکہ اسد احمد کو چند دن قبل ہی انکاؤنٹر میں مار دیا گیا۔ اسی طرح دو کمسن بیٹے احضان اور ایان کو اومیش پال قتل کیس میں ملزم بناکر جو بنائل ہوم (بچوں کی جیل) میں رکھا گیا ہے۔ پولیس نے اس کیس میں عتیق کی اہلیہ شائستہ پروین ان کی بہن (عتیق احمد کی نسبتی بہن) عتیق احمد کی بہن عائشہ نوری کے ڈاکٹر شوہر کو جو یہ کے میدان پور کمیونٹی ہیلتھ سنٹر میں تعینات تھے ملزم بنایا۔ 50 سالہ شائستہ پروین اور ان کی بہن کو مفرور بتایا جارہا ہے جبکہ عتیق احمد کے بہنوئی جیل میں ہیں ان پر امیش پال کے قاتلوں کو نہ صرف پناہ دینے بلکہ انہیں مالیہ فراہم کرنے کا بھی الزام ہے۔ ملزمین میں عتیق احمد کے چچا زاد بھائی اسلم منتری کو بھی شامل کیا گیا ہے۔ اسی طرح تین برادران نسبتی صدام، قذافی اور زید کو بھی مفرور بتایا جارہا ہے۔ عتیق احمد کا الہ آباد میں کس قدر خوف و دبدبہ تھا اور پولس کس طرح ان سے پریشان رہا کرتی تھی اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ 1986 میں عتیق کو گینگسٹر ایکٹ کے تحت گرفتار کیا گیا تھا۔ اور وہ پولیس کے اس قانون کے تحت گرفتار ہونے والے پہلے شخص تھے۔ 17 ڈسمبر 2013 میں عتیق کے خلاف 117 مقدمات درج تھے اس وقت پولیس نے بتایا تھا کہ عتیق احمد کی ٹولی میں 140 ارکان ہیں ۔ ان کی ٹولی کی خاص بات یہ تھی کہ اس میں ہندو، مسلم سب شامل تھے۔ (ویسے بھی ہندوستان کی یہ خوبی ہے کہ یہاں بات ہندو، مسلم اور گنگا جمنی تہذیب کی جاتی ہے لیکن حقیقی اتحاد چوروں، لٹیروں، ڈاکوؤں، دھوکہ بازوں اور مختلف سیاسی جماعتوں اور مذاہب سے تعلق رکھنے والے سیاستدانوں میں پایا جاتا ہے کیونکہ ان سب کو عوامی مفادات کی نہیں بلکہ اپنے شخصی مفادات کی فکر لاحق رہتی ہے)۔ یہ بھی بتایا جاتا ہے کہ عتیق احمد اور ان کے ارکان خاندان کے خلاف 160 مقدمات درج ہیں جس میں سے صرف عتیق پر 100 سے زائد، اشرف پر 52، شائستہ پروین پر 4 ، علی احمد اور عمر احمد پر چار چار اور دو چھوٹے بیٹوں پر ایک ایک مقدمہ درج ہے۔ یہ بھی معلوم ہوا ہیکہ اب 54 مقدمات مختلف عدالتوں میں زیر سماعت ہے۔ عتیق کے بارے میں یہ بھی مشہور ہیکہ وہ جیلوں میں رہ کر بھی اپنی ٹولی کے ارکان کو پورا پورا تحفظ فراہم کرتے رہے اور یہ بھی مشہور ہے کہ وہ غریبوں کے مسیحا تھے۔ الہ آباد کے لوگ انہیں رابن ہوڈ ڈاکٹر جیکل اور مسٹر ہائیڈ کہا کرتے تھے۔ یہ ایسے کردار ہیں جو غریبوں کی دل کھول کر مدد کیا کرتے تھے۔ غریب بچیوں کی شادیوں میں مالی مدد کو اپنا فرض سمجھتے۔ عیدوں و تہواروں کے موقع پر بلا لحاظ مذہب و ملت ذات پات لوگوں کی مالی مدد میں آگے رہتے۔ یہاں تک کہ بچوں کی کتابوں، اسکول ڈریس اور فیس کی ادائیگی کے معاملہ میں غریب خواتین کی جی کھول کر مدد کرتے ۔ یہی وجہ تھی کہ وہ جیل میں بھی رہ کر انتخابات میں کامیابی حاصل کرتے رہے۔ اب چلتے ہیں عتیق احمد کے سیاسی زندگی کی طرف ان کے سیاسی کیریئر کا آغاز 1989ء میں ہوا جب وہ الہ آباد ویسٹ سے بحیثیت آزاد امیدوار ایم ایل اے منتخب ہوئے۔ 1989-91 ء تک ایم ایل اے رہے۔ دوسری مرتبہ 1991-1993 تک انہوں نے اسمبلی میں الہ آباد وسیٹ کی ہی نمائندگی کی، 1993-1996 آزاد امیدوار کی حیثیت سے ہی مذکورہ حلقہ سے کامیابی حاصل کی۔ 1996-2002 سماج وادی پارٹی کے ٹکٹ پر انتخاب لڑے اور کامیاب رہے۔ 2002 انتخابات میں اپنادل کے ٹکٹ پر الہ آباد ویسٹ کے ایم ایل اے منتخب قرار دیئے گئے۔ سال 2004-2009 عتیق احمد 14 ویں لوک سبھا کے پھولپور سے سماج وادی پارٹی کے ٹکٹ پر منتخب ہوئے۔ اس طرح پانچ مرتبہ ایم ایل اے اور ایک مرتبہ رکن پارلیمنٹ ہونے کا انہیں اعزاز حاصل رہا۔ 2009 میں سمجھا جارہا تھا کہ عتیق احمد کو انتخابات میں حصہ لینے کی اجازت نہیں دی جائے گی لیکن انہیں انتخابات میں حصہ لینے کی اجازت مل گئی۔ عتیق احمد کو انتخابی ناکامیوں کا سامنا بھی کرنا پڑا۔ 2008 میں ایس پی نے انہیں پارٹی سے نکال دیا۔ مایاوتی نے بھی ٹکٹ دینے سے انکار کیا ۔ تب انہوں نے اپنادل کے ٹکٹ پر مقابلہ کیا اور ہار گئے۔ 2012 میں عتیق پر ایک ایسا وقت بھی آیا جب دس ججس نے ان کی درخواست ضمانت کی سماعت سے انکار کردیا 11 ویں جج نے بالآخر درخواست کی سماعت کی اور انہیں ضمانت دے دی۔ تاہم 2012 کے انتخابات میں مقتول بی ایس پی ایم ایل اے راجوپال کی بیوہ پوجا پال نے کامیابی حاصل کی۔ 2014 میں عتیق کو ایس پی میں واپس لیا گیا لیکن وہ بی جے پی کے مدور مشرا سے شہر سوتی حلقہ میں ہار گئے۔ عتیق کی زندگی کے خطرناک موڑ راجوپال قتل (یہ واقعہ 2005 میں اس وقت پیش آیا جب عتیق کے بھائی اشرف احمد کو راجو پال کے مقابلہ شکست ہوئی تھی) ، امیش پال قتل اور SAM Higginbottom university of Agriculture Techno and Sciences کے عملہ پر حملہ کیس میں آیا جس میں دو طلباء کو نقل نویسی کی پاداش میں ڈیبار کردیا گیا تھا۔ اس کیس میں عتیق احمد کی گرفتاری عمل میں آئی تھی وہ 2019 سے راجو پال امیش پال اغوا و قتل کیس میں خاطی قرار دیئے جانے کے بعد سابرمتی جیل میں منتقل کردیئے گئے تھے۔ واضح رہے کہ شائستہ پروین جنہیں فرار بتایا جارہا ہے ستمبر 2021 میں اسد الدین اویسی کی موجودگی میں مجلس میں شمولیت اختیار کی اور کئی ریالیوں سے خطاب بھی کیا۔ حال ہی میں وہ بی ایس پی میں شامل ہوئیں لیکن افسوس مایاوتی ان کی حمایت میں آگے نہیں آئی۔ اُسی طرح جس طرح اکھلیش نے اعظم خاں سے دوری اختیار کی تھی۔