عدل و انصاف کے معاملے میں خلفائے راشدین کی سنجیدگی

   

ماضی بعید میں دو مختلف فرقوں اور مذاہب کے افراد بھی اپنے مسائل اسلامی عدالت (قاضی) سے رجوع کرتے تھے۔ اس دور کے یہودیوں اور عیسائیوں کو اپنی عدالتیں پسند نہیں تھیں، لہذا غیر مسلموں کو اسلامی عدالت سے رجوع کرنے کی اجازت دے دی جاتی تھی۔تاریخ اسلام میں عدالتی فیصلوں کے خلاف اپیل کا پتہ کم چلتا ہے۔ اس دور میں یہ بھی محسوس کیا گیا کہ ایسی بلاوجہ اپیلوں سے انصاف میں تاخیر ہوتی ہے، جس سے سائل مایوسی کا شکار ہو جاتے ہیں۔ اس سے ملزموں کی حوصلہ افزائی کا امکان بھی پیدا ہوتا ہے۔ تاریخ سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ اُس دور میں اپیل اور اپیل در اپیل کا نظام رائج نہ تھا اور نہ ہی یہ طریقۂ کار پسند کیا جاتا تھا۔خلفائے راشدین عدل و انصاف کے معاملے میں کس قدر سنجیدہ اور پرخلوص تھے، اس کا اندازہ اس واقعہ سے لگایا جاسکتا ہے۔ ایک بار دو جھگڑا کرنے والے حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ کے پاس آئے تو حضرت فاروق اعظم ؓگھٹنوں کے بل زمین پر بیٹھ گئے اور فرمایا ’’اے اللہ! ان کے بارے میں مجھے روشنی عطا فرما، ان میں سے ہر ایک میرا دین چاہتا ہے‘‘۔حضرت عمر فاروق ؓ ایک بار بحیثیت مدعا علیہ زید بن جابرؓ کی عدالت میں پیش ہوئے۔ قاضی نے عدالت میں کھڑے ہوکر ان کی تعظیم کی تو آپ نے انھیں ڈانٹا اور عام آدمی کی طرح مخالف فریق کے ساتھ بیٹھ گئے۔
اسلامی رو سے مقدمات کے فیصلوں میں حضرت علی مرتضیٰ رضی اللہ تعالی عنہ کو یدطولیٰ حاصل تھا۔ جب بھی کسی مقدمہ میں دشواری پیش آتی تو حضرت علی ؓکی طرف رجوع کیا جاتا۔ حضرت عمر ؓکے دور خلافت میں آپ نے اکثر مقدمات کے فیصلے کئے۔ ایک بار حضرت عمر ؓنے ایک پاگل عورت پر حد جاری کردی۔ حضرت علی ؓکو معلوم ہوا تو انھوں نے فرمایا ’’فاتر العقل پر حد جاری نہیں ہوسکتی‘‘۔ حضرت عمر ؓکو اس کا علم ہوا تو اپنا حکم واپس لے لیا۔ایک بار ایک زانیہ عورت کو سنگسار کرنے کی اجازت دی گئی۔ یہ عورت حاملہ تھی۔ حضرت علی ؓنے یہ کہہ کر سزا رکوا دی کہ یہ عورت بچہ کی ولادت تک سزا کی مستوجب نہیں۔ حضرت علی ؓ اپنے دور خلافت میں عدل و انصاف پر خصوصی توجہ دیتے تھے۔ وہ اپنے عاملوں کو عدل و انصاف کے قیام کی ہدایت فرماتے۔ آپ کا ایوان عدالت بلاامتیاز مذہب و ملت اور امیر و غریب سب کے لئے کھلا رہتا۔ سائل دن کے کسی بھی حصے میں خلیفۂ وقت امیر المؤمنین حضرت سیدنا علی مرتضیٰ رضی اللہ تعالی عنہ سے رجوع ہوسکتے تھے۔