عرب ،اسرائیل کی طرح طاقتورکیوں نہیں ؟

   

پرویز ہد بھائی
گزشتہ ماہ یعنی مئی کے 11 دن فلسطینیوں کیلئے انتہائی خوفناک و دہشت ناک تھے۔ ساری دنیا نے دیکھا کہ سب سے بڑے اوپن ایر جیل کیمپ پر کس طرح بم داغے جارہے تھے، راکٹس برسائے جارہے تھے اور فلسطین کے آسمان تک آگ کے شعلے بلند ہورہے تھے اور ہر طرف دھویں کے کثیف بادل چھائے ہوئے تھے۔ جہاں تک دنیا کے سب سے بڑے اوپن ایر جیل کیمپ کی بات ہے، دنیا اس جیل کیمپ کو ’’غزہ‘‘ (Gaza) کے نام سے جانتی ہے۔ بموں کی بارش کی زد میں آکر بلند و بالا جو عمارتیں زمین دوز ہوئی، ان کے ملبے سے خون میں لت پت آہ و بکا کرتے ہوئے لوگ نکل رہے تھے، انہیں اس سے قبل اسی طرح کے تجربے یا صورتحال سے گزرنا پڑا اور ہر کوئی جانتا ہے کہ یہ المیہ دہرایا جائے گا۔ غزہ سے دُور عرب شہروں اور خود پاکستان جیسے ملک میں لوگ ٹی وی سیٹس سے چپکے ہوئے حیرت کے مارے آنکھیں پھاڑے غزہ پر اسرائیلی جنگی طیاروں سے کی جانے والی بمباری و شلباری کے مناظر دیکھ رہے تھے، لیکن عالمی برادری اور مسلم ملک ، غزہ کے ان مجبور و بے بس مکینوں کو اسرائیلی جنگی طیاروں سے کی جانے والی بمباری اور شلباری سے بچانے کیلئے کسی بھی قسم کا عملی اقدام کرنے سے قاصر تھے۔ ہاں! عالمی سطح پر چند ایک قراردادیں منظور کی گئیں لیکن قراردادوں کی منظوری کے باوجود وہ کسی کام کی ہی نہیں تھی اور بعض مقامات پر لوگ اسرائیل کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے اسرائیلی پرچم کو روند رہے تھے اور ایسا لگ رہا تھا کہ وہ صرف نعروں تک ہی محدود ہوگئے ہیں۔
اب یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ 9 ملین یعنی 9 لاکھ نفوس پر مشتمل اسرائیل جس کی آبادی پاکستان کے اقتصادی شہر کراچی کی آبادی کی نصف یا ایک تہائی آبادی کے درمیان ہوگی، کس طرح اس قدر طاقتور ہوگیا ہے کہ دنیا اسے روک سکتی ہے نہ ٹوک سکتی ہے۔ سب سے زیادہ حیرت کی بات یہ ہے کہ عرب ممالک تیل کی دولت سے مالامال ہیں اور اسرائیل کی 9 ملین آبادی کے مقابل عربوں کی آبادی 427 ملین یعنی 42 کروڑ ہے، اس قدر کثیر آبادی کے باوجود عالمی سیاست میں اسرائیل بلند قامت اور عرب بونا دکھائی دیتے ہیں۔ ساری دنیا اور عالمی ادارے ، اسرائیل کی آواز کو اہمیت دیتے ہیں اور عربوں کو نظرانداز کرتے ہیں۔ ایک بات ضرور ہے کہ جی سی سی عرب ممالک یقینا پاکستان جیسے چند مسکین ممالک میں جو کچھ ہوتا ہے، اس پر کنٹرول کرسکتے ہیں اور اس طرح کے ممالک کے قائدین کو چند گھنٹوں کی نوٹس پر ریاض طلب کرسکتے ہیں اور چاول سے بھرے تھیلے ان کی فرمانبرداری کے انعام کے طور پر دیتے ہوئے واپس بھیج دیتے ہیں لیکن اسرائیل کے سامنے عرب حکمراں اور شیوخ اپنے سر جھکاتے ہیں، حالانکہ عرب ممالک اور اسرائیل میں پائے جانے والے قدرتی وسائل کا جائزہ لیں تو پتہ چلتا ہے کہ عرب ممالک کے سامنے اسرائیل کے قدرتی وسائل تقریباً صفر ہیں۔ اگر آپ چاہتے ہیں کہ صورتحال کیلئے مغرب خاص طور پر امریکہ کو ذمہ دار قرار دیں تو آپ ایسا کرسکتے ہیں۔ سال 2000-19ء میں مغربی طاقتوں (امریکہ، برطانیہ، فرانس، اسپین اور جرمنی) نے اسرائیل کو سرکاری دستاویزات کے مطابق 9.6 ارب ڈالرس مالیتی ہتھیار سربراہ کئے ہیں، لیکن اسی 20 سال کی مدت میں مذکورہ ممالک کے سرکاری دستاویزات یہ بتاتے ہیں کہ ہتھیاروں کے ان سربراہ کنندہ ممالک نے سعودی عرب کو 29.3 ارب ڈالرس، متحدہ عرب امارات کو 29.1 ارب ڈالرس، مصر کو 17.5 ارب ڈالرس، عراق کو 9.1 ارب ڈالرس اور قطر کو 6 ارب ڈالرس مالیتی ہتھیار سربراہ کئے ہیں، اس کے باوجود یہ مہنگے ترین ہتھیار ان عرب ملکوں کو اسرائیل کے مقابل بہت ہی کم تحفظ فراہم کریں گے۔ مثال کے طور پر اگر اسرائیل، عرب ملکوں پر دوبارہ حملہ کرنا چاہے تو پھر یہ ہتھیار عربوں کو بہت کم فائدہ دیں گے۔ دوسری طرف 9 ممالک پر مشتمل سعودی زیرقیادت فوجی اتحاد نے یمن میں انسانی بحران پیدا کیا ہے۔ وہاں پر تباہی کی صورتحال پیدا ہوئی ہے۔ 9 ملکی فوجی اتحاد ہونے کے باوجود ایران کی حمایت یافتہ حوثی باغیوں کے خلاف مایوسی و ناکامی اسے ہاتھ آرہی ہے۔

ٹھیک ہے! تو پھر موجودہ حالات کیلئے یا پھر عربوں میں عدم اتحاد کیلئے فلسطینیوں کی بدقسمتی کو ذمہ دار قرار دیں۔ ہاں اس میں سچائی ہے کیونکہ عربوں میں دراصل کوئی اتحاد نہیں۔ وہ پوری طرح منقسم ہیں، بٹے ہوئے ہیں لیکن جس وقت عرب بٹے ہوئے نہیں تھے، متحد تھے، مثال کے طور پر 634ء تا 750ء کا دور تاریخ میں صرف وہ دور ہے جب عرب متحد تھے، پھر ناصر نے برطانیہ کے خلاف سوئز جنگ میں کامیابی حاصل کی تھی۔ عرب مختصر مدت کیلئے پھر سے متحد ہوئے تھے، لیکن ان کے وہ اتحاد 1967ء میں برپا ہوئی عرب ۔ اسرائیل جنگ میں ہزیمت ناک شکست سے نہیں بچا سکا۔ 1967ء کی عرب۔ اسرائیل جنگ نے سرحدوں کو ہمیشہ کیلئے تبدیل کردیا اور فلسطین کے دوست اور جہد کاروں بشمول مجھ جیسے لوگوں نے یہی چاہا کہ فتح اور حماس اپنے اختلافات ختم کرتے ہوئے صلح کرلیں۔ اس طرح کرتے ہوئے بھی بنیادی طور پر حالات میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ اسرائیل کے طاقتور ہونے کے پیچھے کارفرما راز کا جہاں تک سوال ہے، یہ اس کے ہتھیاروں کے ذخیرہ میں پوشیدہ نہیں ہے بلکہ وہ مسلسل نوآبادیاتی طریقہ کار کو اپناتے ہوئے ظلم و جبر کے ذریعہ فلسطینی علاقوں میں اپنی آبادیاں بسا رہا ہے۔ ’’اسرائیل‘‘ کے بارے میں ہم یہی کہہ سکتے ہیں کہ یہ بے ملک لوگوں کی جانب سے عالمی طاقتوں کی سازش و منصوبوں کے ذریعہ زبردستی بسایا گیا ملک ہے۔ جس طرح انگریزوں نے اٹھارہویں صدی میں سارے برصغیر ہند کو اپنی نوآبادیات میں تبدیل کرلیا تھا، اسی طرح کی روش اسرائیل ، فلسطین کے تعلق سے اختیار کئے ہوئے ہے۔ آیئے! یاد کریں کہ کس طرح انگریزوں نے 250 برسوں تک برصغیر ہند کے 200 ملین شہریوں پر حکومت کی تھی اور حیرت کی بات یہ ہے کہ سرزمین ہند پر کبھی بھی 50 ہزار سے زائد سفید فام سپاہی نہیں تھے۔ اگرچہ عصری بندوقوں اور توپوں نے انہیں ہندوستانیوں پر برتری عطا کی تھی۔ حقیقت میں ان کا حقیقی ہتھیار بہت بڑا تھا، وہ ہتھیار معقولیت اور زندگی کی تئیں سکیولر طریقہ کار پر مبنی ایک منظم سوچ و فکر کا نظام تھا۔ ایک عصری نظام انصاف تھا، اور سماجی تعلقات پر ایک نیا سیٹ تھا۔ یہ نظام مسلسل مستحکم ہوتا رہا اور اسے علم کے دور نے مزید تقویت بخشی۔ یہ ایک ایسا نظام تھا جس نے حال کو سدھارتے ہوئے روشن مستقبل کی منصوبہ بندی کی تھی اور یہ ایسا نظام تھا، جس میں باقاعدہ سائنسی سوچ و فکر استعمال کرتے ہوئے مسائل کے حل کی مہارتوں پر توجہ مرکوز کی گئی۔ آپ کو یاد دلا دوں کہ ترسیل کے جدید طریقوں کی ایجاد جیسے ریلویز اور ٹیلیگراف کی ایجاد کرتے ہوئے بحر شمالی میں واقع ایک چھوٹے سے جزیرہ نے اپنی سلطنت کو دور دور تک وسعت دی۔ ایک ایسا بھی وقت آیا جب اس کی سلطنتیں اس قدر وسعت اختیار کرگئیں کہ وہاں کبھی سورج غروب نہیں ہوتا تھا۔ مختصر سے الفاظ میں ہم اسے اس طرح بیان کرسکتے ہیں کہ سامراجی طاقتوں کو ان کی مہمات میں جو کامیابی ملی ہے، اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ طاقت سے کہیں زیادہ دماغ کام کرتے ہیں اور ذہن کی بناء پر ہی حکمرانی کی جاسکتی ہے اور یہ وقت بہ وقت درست ثابت ہوچکا ہے، لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ذہن کہاں تیار ہوتے ہیں ؟اور اس کا جواب یہ ہے کہ یقیناً رحم مادر میں، لیکن حقیقت میں ذہن اسکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیز میں بنتے ہیں جہاں ذہنوں کو ایک شکل دی جاتی ہے۔ انہیں تیز و تند کیا جاتا ہے، بہ الفاظ دیگر ان تعلیمی اداروں میں ذہن سازی کی جاتی ہے چنانچہ ان دنوں ہر کوئی اسی واحد نتیجہ پر پہنچ رہا ہے کہ تعلیم معیاری دیجئے اور دیکھئے کہ کس طرح ذہن تیار ہوتا ہے اور اقتدار پر پائے جانے والے عدم مساوات کا اختتام ہوتا ہے۔

آہ! کرنے سے کہنا بہت آسان ہے۔ اساتذہ کے ساتھ اسکولی کی عمارتیں اور کلاس روم الگ چیز ہے اور ان میں سے تیار ہونے والے طلبہ کی مجموعی تعداد الگ چیز ہے۔ عرب ممالک کے پاس دولت کی کوئی کمی نہیں، عرب ممالک نے متاثرکن یونیورسٹی کیمپس تعمیر کئے ہیں جو عصری تقاضوں و جدید آلات سے لیس ہیں۔ اسی طرح ان کیمپس میں جو کتب خانے ہیں، وہ بھی ہزاروں بلکہ لاکھوں کی تعداد میں کتابوں سے بھرے ہوئے ہیں۔ عرب ممالک نے ان یونیورسٹیز میں امریکہ اور یوروپ سے پروفیسر کو درآمد کیا ہے، لیکن اس کا تاحال زیادہ فائدہ دکھائی نہیں دیتا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ سیکھنے کے تئیں جو رویہ ہے، اس میں تبدیلی نہیں ہے۔ اگر تبدیلی چاہتے ہیں تو سوچ و فکر میں بھی تبدیلی آنی چاہئے۔

جہاں تک عربوں کا تعلق ہے ، ان کا مسئلہ جینیات سے تعلق نہیں رکھتا۔ عربوں کا جو شاندار ماضی رہا ہے، وہ اَشکنازی اسرائیلیوں سے کچھ کم نہیں ، لیکن دونوں گروپوں میں کامیابی اور مختلف رول ماڈلس کے سمت جو رویے ہیں، وہ بھی مختلف ہیں۔ اَشکنازی یہودی بچہ البرٹ آئن اسٹان، نیل ہرس ، جان وارن نیومان، جارج والٹ، پال سیموئل سن، گٹریوٹ الیان ، رالفس لارین، جارج سورس اس طرح کی شخصیتیں بننا چاہتے ہیں۔ یہ ایسی شخصیتیں ہیں، جن کے نام سے طبیعیات، فلسفہ، کیمیاء، ٹیکنالوجی، طب اور تجارت کی ہزاروں کتابیں جڑی ہوئی ہیں۔ ان اَشکنازی یہودی بچوں سے ایک عرب بچے کا تقابل کیجئے جو صلاح الدین ایوبیؒ بننا چاہتا ہے اور پاکستانی بچے کے بارے میں ہم بتا سکتے ہیں کہ وہ ارطغرل غازیؒ بن کر گھوڑے پر سوار ہونے کا خواب دیکھتا ہے۔ وہ نوبل لاریٹ عبدالسلام کے بارے میں نہیں جانتا۔ ہم ایک ظالم دنیا میں رہتے ہیں، اور ایسے میں ہمارے لئے یہ کوشش کرنا لازم ہوجاتا ہے کہ یہ دنیا ظالم کم اور انسانیت نواز زیادہ بنے۔ ویسے بھی ہمیں یہ یاد رکھنا چاہئے کہ طاقت تیل یا نیوکلیئر بموں سے اخذ نہیں کی جاتی بلکہ طاقت انسانی ذہن سے حاصل کی جاتی ہے اور یہ تب ممکن ہے جب قدرت کے اس بہترین تحفے کو مناسب انداز میں تیار کیا جائے استعمال کیا جائے اور ایسے سکیولر اقدار پر مبنی نظام کے تحت تربیت دی جائے جو دلیل پر مبنی سوچ و فکر، سوالات کرنے کی صلاحیت پیدا کرے اور تخلیقی صلاحیتوں کو اُبھارے۔