عرب ممالک کے بعد اب کینیڈا میں بھی نفرت کے سوداگروں کے خلاف کارروائی

   

سیف اللہ خان
پچھلے چند برسوں سے ہندوستان میں اسلاموفوبیا اور مسلمانوں کے خلاف نفرت میں بڑی تیزی کے ساتھ اضافہ ہوا جس کی ماضی میں کوئی نظیر نہیں ملتی۔ مسلمانوں کے خلاف نفرت میں اضافہ ہوتا رہا لیکن اس کے نتائج پر غور نہیں کیا گیا۔ ہندوستان کی دوسری چیزوں کی طرح تعصب و جانبداری بھی عالمی سطح پر پہنچ گئی لیکن جس طرح متعصب و جانب دار عناصر کو ہندوستان میں کھلی چھوٹ حاصل رہی اور انہیں حکمراں بی جے پی کے ارکان کی راست یا بالواسطہ تائید بھی حاصل رہی یہاں تک کہ نریندر مودی حکومت کی بھی راست یا بالراست تائید انہیں ملتی رہی ایسا بیرونی ممالک میں نہیں ہوا۔ مثال کے طور پر خلیجی ممالک اور اب کینیڈا میں ان ہندوستانیوں کے خلاف کارروائی کا آغاز ہوچکا ہے اور وہ جان چکے ہیں کہ ہندوستان کی طرح مسلمانوں کے خلاف تعصب و جانبداری برتنا دوسرے ملکوں میں آسان نہیں ہے۔
خلیجی ممالک میں رہنے والے کئی ہندوستانی تارکین وطن کو سوشل میڈیا پر اسلاموفوبیا سے متعلق اشتعال انگیزی کا خمیازہ بھگتنا پڑرہا ہے۔ انہیں ان کے آجرین ملازمتوں سے برطرف کررہے ہیں۔ خلیجی ممالک میں یہ آغاز ہوچکا ہے اب ایسا لگتا ہے کہ کینیڈا کی باری ہے جہاں نفرت اور اسلاموفوبیا پھیلانے میں ملوث ہندوستانی باشندوں کے خلاف کارروائی کی جارہی ہے۔ اونٹاریو میں مقیم ایک ریئل اسٹیٹ ایجنٹ روی ہوڈا برامپٹن کے میئر پیٹرک براون کے اس ٹوئٹ پر کافی برہم تھا جس کے ذریعہ اذانوں کی خاطر شہر کے صوتی قوانین سے مساجد کو استثنیٰ دیا گیا۔ روی ہوڈا نے ٹوئٹ کرتے ہوئے میئر سے سوال کیا ’’آئندہ کیا ہے؟‘‘ اونٹوں اور بکرے چرانے والوں کے لئے علیحدہ سڑکیں، قربانی کے نام پر گھروں میں جانوروں کو ذبح کرنے کی اجازت، تمام خواتین کو اپنے سر سے لے کر پاوں تک ڈھانکے رکھنے کا قانون تاکہ ووٹ حاصل کئے جائیں۔

حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ یہ استثنیٰ پہلے صرف گرجا گھروں تک محدود تھا جہاں گرجا گھروں کی گھنٹیاں بجائی جاتی ہیں اور اب یہ استثنیٰ تمام مذاہب کے لئے دیا گیا ہے۔ اصل میں روی ہوڈا نے یہ فراموش کردیا کہ وہ کینیڈا میں مقیم ہیں ہندوستان میں نہیں جہاں اس طرح کے ریمارکس پر ہزاروں لائکس حاصل ہوتے ہیں اور ری ٹوئٹ بھی کئے جاتے ہیں لیکن جلد ہی اسے اپنے اشتعال انگیز ریمارکس کا سبق مل گیا۔ ہوڈا جس نے بعد میں اپنی ٹوئٹ حذف کردی کئی ٹوئٹر صارفین بشمول کینیڈا کی مخالف نفرت نیٹ ورک کا نشانہ بنا۔ اسے اس کے اشتعال انگیز تبصرے پر عوام کی نکتہ چینی برداشت کرنی پڑی۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ جس ریئل اسٹیٹ کمپنی سے وہ وابستہ تھا اس نے اسے خدمات سے برطرف کردیا۔ اسے مائیک ویلے پبلک اسکول کی اسکول کونسل چیر سے بھی ہٹادیا گیا۔ یہ کینیڈا میں ایک ایسے وقت ہوا جبکہ کئی خلیجی ممالک میں جہاں لاکھوں کی تعداد میں ہندوستانی تارکین وطن رہتے ہیں کورونا وائرس کے پھیلاو کے لئے مسلمانوں کو نشانہ بنانے کی خاطر اسلاموفوبیا پوسٹ کرنے والے بے شمار لوگوں کو ملازمتوں سے نکال دیا گیا ہے۔
اگر ہندوستان میں نفرت کی سوداگری اور فرقہ وارانہ بنیاد پر عوام کو تقسیم کرنے کے رجحان کا جائزہ لیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ خاص طور پر چند برسوں سے مسلم کمیونٹی کو نشانہ بنایا گیا اور مسلمانوں کو نشانہ بنانا حقیقت میں ہندوستانی سیاستدانوں کی جانب سے کم خرچ میں ہی انتخابات جیتنے کا ایک فامولہ بن گیا ہے۔ جبکہ پہلے سے ہی عدم تحفظ اور فرقہ وارانہ بنیاد پر تقسیم موجود ہے۔ ہندوستانی سوشل میڈیا پر خاص طور پر 2014 کے لوک سبھا انتخابات سے ہی مسلمانوں کے خلاف نفرت میں اضافہ ہوا ہے۔ انہیں بڑی تیزی سے نشانہ بنایا گیا۔ ملک میں ہر برائی اور پریشانی کے لئے مسلمانوں کو ہی ذمہ دار قرار دیا جارہا ہے۔ نفرت کے ان سوداگروں کی تاریخ بہت ہی بدترین رہی ہے لیکن یہ تمام اپنے مرضی موافق نتائج حاصل کرنے میں کامیاب رہے۔ ان کا مقصد مسلمانوں کے خلاف تشدد برپا کرنا رہا اور یہ عناصر ہمیشہ اپنے مقاصد میں کامیاب رہے۔

ہندوستان ایک ہمہ مذہبی ملک ہے اور قومی اتحاد اور سماجی دھاگے کو نقصان پہنچانے والی کسی بھی کوشش سے ملک کو نقصان پہنچتا ہے لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ مسلمانوں کے خلاف اکثریتی فرقہ کا ایک گوشہ جس انداز میں نفرت کی مہم چلا رہا ہے اس سے قومی دھاگے کو نقصان پہنچنے کا جوکھم بڑھ گیا ہے۔ آج ملک کو متحد رہنے کی ضرورت ہے کیونکہ دنیا منتشر ہوکر رہ گئی ہے۔ ساتھ ہی ہندوستان کی مضبوط معیشت کے لئے بھی قومی ہم آہنگی ضروری ہے۔ ان حالات میں اسلاموفوبیا ملک کی معیشت اور خوشحالی کے لئے خطرناک ثابت ہوسکتا ہے۔ مثال کے طور پر سارے ملک میں کورونا وائرس کو دیکھتے ہوئے قومی صحت کی ایمرجنسی نافذ کی گئی لیکن یہ ایمرجنسی بھی اسلاموفوبیا کو ختم کرنے میں غیر موثر ثابت ہوئی۔ اس کے برعکس نیشنل ہیلتھ ایمرجنسی اسلاموفوبیا کی آگ کو بڑھانے میں ایک آلہ کا رول ادا کرسکتی ہے۔ 28 مارچ اور تین اپریل کے دوران ہیش ٹیگ کورونا جہاد ٹوئٹر پر تین لاکھ مرتبہ ظاہر ہوا اور نفرت پر مبنی ان پوسٹس سے 30 کروڑ عوام متاثر ہوئے۔ دہلی میں تبلیغی جماعت کا اجتماع اور اس کے بعد مسلمانوں کو ایک ویلن کی طرح الگ تھلگ کئے جانے کا رجحان ہندوستان کی دائیں بازو اور اس کے آئی ٹی سیل کے باب میں ایک اور اضافہ ہے۔ یہ آئی ٹی سیل اقلیتوں کو کس طرح نشانہ بنایا جائے اس پر بڑی منصوبہ بندی کے ساتھ کام کرتا ہے۔

اپنی ایک سالانہ رپورٹ میں امریکی کمیشن برائے مذہب آزادی (USCIRF) نے ہندوستان کو ان ممالک کی فہرست میں شامل کیا ہے جہاں اقلیتوں کے ساتھ بہت برا سلوک کیا جاتا ہے۔ اگر ہندوستان اپنا ریکارڈ بہتر بنانے میں ناکام رہتا ہے تو اس پر پابندیاں بھی عائد کی جائیں گی۔ رپورٹ میں بتایا گیا کہ 2019 میں ہندوستان میں مذہبی آزادی کو شدید نقصان پہنچا ہے اور اقلیتوں پر حملوں میں اضافہ ہوا ہے۔ اب نفرت کے اس کھیل کے خلاف لڑائی میں کینیڈا بھی شامل ہوا ہے جس سے امید ہے کہ دیگر ممالک کے اقدامات ہمارے ضمیر کو بھی جھنجوڑیں گے۔