علامہ ابن القمرین (شرافت و ظرافت کے مجمع البحرین)

   

نذیر نادر

یہ 1993ء کے اواخر کی بات ہے، میں ابھی منزل شباب تک نہیں پہچا تھا مگر علامہ ابن القمرین 32 سالہ جوانی کی پکی اینٹ پر قدم رنجہ تھے، میں (اُردو) ابجد خوانی کیلئے رجوع ہوا تھا، خدا کی مہربانی ساتھ تھی۔ اس اتالیق بے نظیر کی صحبت باضرافت مل گئی۔ محبوب نگر (مکتھل)کا وہ برج سما کتنا ظرف خیز ہوگا جس کے مطلع سے یہ پیکر ظرافت نمودار ہوا۔ حسن اتفاق دیکھئے کہ ماں کا نام ایسا جس کا اردو ترجمہ ’’چاند‘‘ سے کیا جاتا ہے اور باپ کا نام تو ’’چاند‘‘ ہی تھا۔ باپ نے آپ کا نام عبدالعظیم رکھا تھا۔ ماں نے لاڈ سے کوثر پکارا۔ آگے چل کر آپ نے اپنا قلمی نام ’’ابن القمرین‘‘ تجویز کرلیا۔ رئیس والدین نے آپ کی پرورش، نگہداشت، تعلیم و تربیت میں کوئی کسر باقی نہیں رکھی اور محبت و شفقت میں رتی برابر کمی نہیں کی۔ تبھی تو یہ صحیح طور پر بھولے بھالے، آپ کے والد چاند صاحب جو نہ صرف حاذق طبیب تھے، بلکہ روحانی معالج بھی تھے، آنے والے مریضوں کی جسمانی حالت پر کم اور اس کی روحانی کیفیت پر زیادہ نظر رکھتے تھے۔ آپ ہمیشہ زندگی اور حوصلے کی بات کرتے ہیں۔ عزم بالجزم کے قائل ہیں۔ ناکام طلبہ، نامراد عاشق، مایوس مریض اور تہی دست انسان جب آپ کی خانقاہ دلنواز میں جاتے ہیں تو اس قدر مطمئن ہوکر لوٹتے ہیں، جیسے کچھ پاگئے، عمر بھر کیلئے ’’کوئی ربع صدی سے میں آپ سے آشنا ہوں، گردش لیل و نہار نے اس کی ظاہری ہیئت تو بدل ڈالی مگر آپ کی رفتار و گفتار پر نونہار اثرانداز نہ ہوسکی۔
ایک مرتبہ ایک سوال آیا تھا کہ دنیا میں بالخصوص ہندوستان میں سب سے زیادہ مشکل کام (مرد کیلئے) کیا ہے؟ سنا کہ اس کے ہزاروں جواب موصول ہوئے تھے مگر انعام ابن القمرین کو ملا کیونکہ آپ کا جواب تھا ’’سب سے مشکل کام دوسری شادی کرنا ہے‘‘۔
طبابت میں لیمو کے بیجوں سے احتیاط کی تعلیم دی جاتی ہے جبکہ آپ کو لیمو شربت بنانا خوب آتا تھا۔ جب یہ لیمو شربت بناتے تو چند شمالی احباب کچھ زیادہ ہی ملاحظہ کرتے تھے کہ کوئی بیج شربت میں گرنے نہ پائے۔ ایک دن آپ نے سارا شربت چائے کی چھلنی سے چھان دیا اور باقی رہے سارے بیج چباکر نگل گئے۔ احباب تلملا گئے کہ اب آپ کی قوت ماہ ہی نہیں قوت آہ بھی سلب ہوجائے گی مگر یہ اولوالعزم ٹھہرے کہنے لگے ایسا کچھ نہیں ہوگا۔
مدیر محترم کے حوالے کی ۔ مدیر صاحب اولا مسکرائے اور پسینہ پونچھتے ہوئے بولے: ’’مدعا کیا ہے؟‘‘ حوارین منہ تکتے رہ گئے۔ کئی برس پہلے ایک ادبی نشست استاذالشعراء حضرت رحمن جامی کی صدارت میں منعقد ہوئی تھی۔ ابن القمرین مہمان اعزازی کے طور پر تھے۔ جب کسی کی باری آئی تو آپ نے اپنی تقریر کا اختصار اس قدر خوبصورتی سے کیا کہ حضرت جامی مسکراتے رہے۔ آپ نے یوں کہا کہ ’’مجھے ہمیشہ دو جامیوں سے بڑا ڈر لگتا ہے۔ ایک شرح جامی سے دوسرے رحمن جامی سے۔
ایک اردو مجلس میں شہر کے ایک غیرمعمولی بلکہ غیرضروری تکلف پسند آدمی کو بطور مہمان خصوصی مدعو کرنا تھا۔ ابن القمرین نے ان کے خادم خاص سے دریافت کیا کہ صاحب کیلئے گاڑی بھیجیں یا پالکی! اسی طرح ایک اور صاحب جو چھوٹی سی چھوٹی خدمت کرنے کو بھی احسان سمجھتے تھے، ان پر تبصرہ کرتے ہوئے آپ نے کہا تھا کہ یہ ایسے لوگ ہیں جو بوقت اِجابت کچھ زور بھی لگالیں تو خود اپنی ذات پر اپنا احساس گردانتے ہیں۔
ایک جلسے کی سرپرستی (مصلحت کے پیش نظر) منتظمین نے ایک رئیس کو سونپی جب ابن القمرین تک بات پہنچی تو یہ آگ بگولہ ہوئے اور کہنے لگے: پھر تو زیر زر پرستی ہوئی۔
مدت مدید قبل شہر میں کرفیو کا نفاذ تھا۔ یہ مکتھل سے شہر آرہے تھے، راستے میں آپ کی کار کو پولیس جوانوں نے حراست میں لے لیا اور اناپ شناب بکنے لگے۔ وہ اپنی کار سے اطمینان سے اترے، ایک طرف ہوکر پان کا پانی تھوک دیا اور دست بستہ کھڑے ہوکر کہنے لگے۔ ’’جمعدار صاحب آداب! کار میں میری اکلوتی بیوی اور چند سسرالی رشتہ دار ہیں، کچھ تو میری عزت کا خیال کیجئے۔ اس طرز تکلم پر پولیس نے خود راہ ہموار کی۔
جس وقت ثانیہ مرزا کی شادی طئے ہوگئی، اس وقت آپ نے تمام احباب کو اس طرح ایس ایم ایس کیا کہ آپ اپنے ذہن سے اور فون سے ثانیہ کی تصویر نکال دیجئے اور اب اس کے خیال گھروندے بنانا چھوڑ دیجئے کیونکہ اب اس پر صرف شعیب ملک کا حق ہے۔شہر کے ایک نام نامی قاری صاحب آپ کے یہاں مہمان ہوئے، آپ نے اچھی ضیافت کی، جاتے جاتے قاری صاحب نے دعا دی کہ اللہ آپ کو فردوس بریں عطا فرمائے۔ آپ نے پلٹ کر مجھ سے سرگوشی کی کہ ’’فردوس بریں کسی خاتون کا نام ہے؟ ایک عورت کسی کام سے ان کے مکتب آئی، بات چیت کے بعد وہ عورت جانے کیلئے اٹھی اور کہنے لگی ’’تو پھر امید سے رہوں؟‘‘
ایک مشاعرے میں شاعرات کے نخرے حد سے تجاوز کررہے تھے، یہ کہنا مشکل ہوگیا تھا کہ یہ مشاعرہ ہے یا مجرا؟ میں نے آپ سے چپکے سے پوچھا یہ کیا ہے؟ آپ نے برملا کہا ’’مشجرا‘‘ ہے، مطلب آدھا مشاعرہ، آدھا مجرا یعنی مشجرا۔
آپ شاعر تو نہیں ہیں مگر شعر فہم اور ادب شناس ضرور ہیں۔ مولانا عامر عثمانی، قدرت اللہ شہاب، ابراہیم جلیس، مشتاق احمد یوسفی، رشید احمد صدیقی کی قلمکاری اور غالب، اکبر، داغ، اقبال، جوش اور جگر کی شاعری آپ کو خوب بھائی ہے۔ اشعار، چاہے جس شاعر کے بھی ہوں، جسے پڑھنے ہیں تو پورے وثوق کے ساتھ پڑھتے ہیں۔ نیز کبھی کبھی بے دریغ تحریف بھی کردیتے ہیں مثلاً جو قلب کو گرما دے جو روح کو تڑپا دے۔ اس کو اس طرح بدل دیا کہ سننے والے چوک پڑے۔ ’’جو قلب کو گرما دے، جورو کو بھی تڑپا دے‘‘۔ ایک دفعہ یہ بس اسٹیشن میں تھے، مطلوبہ بس کے آنے میں تاخیر ہوگئی، آپ نے جیب سے نوٹوں کا بنڈل نکالا اور ہر نوٹ پر ایک شعر لکھنے لگے، آخری نوٹ پر شعر لکھ رہے تھے کہ بس آگئی۔
آپ انوکھے عناوین پر تقاریر کے عادی ہیں جیسے رافت، ظرف، فطرت، مسکراہٹ، نظر، قوت ارادہ، عزم مصمم، غصہ، شعور، فیصلہ، چھٹی حس، تیسری آنکھ، ذکاوت وغیرہ وغیرہ۔
ہمارے یہاں ایک بزم شباب سجی تھی حاضرین سب جوان تھے اور دائرہ کی شکل میں بیٹھے ہوئے تھے۔ ابن القمرین نے آتے ہی کہا۔ کیا یہ بزم شباب ہے یا رس بھرے پھلوں کا گمپا، پھر آپ کی پرلطف گفتگو کا سلسلہ شروع ہوا ، اس طرح کہ جب قبر میں رکھا جائے گا، نکیرین کے سوال و جواب میں کامیابی کے بعد نیکو کار کیلئے حور مراقش نہیں کی جائے گی، وہ بدہوش سا ہوجائے گا، پہلی ہی نظر میں، پھر اس سے قریب ہونے کی کوشش کرے گا، حور کے گلے میں موتیوں کی مالا ہوگی، اس کا دھاگہ اتنا لطیف ہوگا کہ جیسے ہی یہ نیک بخت اس کو چھوئے گا، وہ ٹوٹ جائے گا اور سارے موتی بکھر جائیں گے۔ حور مراقش اپنی نگاہ شمس نواز موند لے گی یعنی زبان حال سے کہہ رہی ہوگی کہ تم نے یہ کیا کیا؟ میری مالا ہی توڑ دی۔ اب وہ نیک بخت پوری پھرتی سے اُٹھے گا اور مالا کے موتی سمیٹنے میں لگ جائے گا، پھر جب سارے موتی اس کے ہاتھ آئیں گے اور وہ انہیں پروکر آخری گرہ لگا رہا ہوگا، جب تک قیامت برپا ہوگی۔ حضرت اسرافیل صور پھونکیں گے۔ سارے انسان، جاندار مرجائیں گے اور جو مرچکے ہیں، ان کی روحیں بے ہوش ہوجائیں گی، اتنی تقریر کے بعد ابن القمرین کہنے لگے۔ بیچارہ اتنی بے قراری سہہ کر وصل بار کا شدید متمنی تھا کہ اب کیا ہوگا؟ شاہد داغ نے ایسے ہی موقع کیلئے کہا ہوگا۔
دی شب وصل مؤذن نے اذان پچھلے پہر
ہائے کمبخت کو کس وقت خدا یاد آیا۔
مضافات شہر کے ایک جدید فارم ہاؤز کی خوشگوار فضاء تھی، سب آپ کو گھیر کر بیٹھے تھے۔ آپ نے اپنی فلم بینی کا قصہ سنایا کہ فلم نگری سے آپ کو کچھ بھی رغبت نہ تھی اور نہ آج ہے مگر بچپن میں ایک مرتبہ لنگوٹی یاروں نے سنیما کیلئے شدید اصرار کیا بلکہ جبر کیا۔ مرتا کیا نہ کرتا، وہ کہنے لگے کہ میں ان کے ساتھ ہولیا۔ جب سنیما ہال پہنچا تو سنیما کی لفظی تحقیق کرکے یہاں تک پہنچا کہ سنیما دراصل ’’سین نما‘‘ ہوگا۔ دوستوں نے مجھے اس خول تحقیق سے باہر نکالا اور علم بینی پر توجہ مرکوز کروائی، علم بھی ایسی کہ ہیجان انگیزی کا تصور بھی نہیں کرسکتے۔ اس لئے بھی سب کا وضو باقی رہا، ابھی کچھ وقت گزرا ہی تھا کہ اذان کی آواز آئی۔ میں سب دوستوں کے ساتھ سنیما ہال کے ایک خالی گوشے میں آگیا جہاں لوگوں کی آوک جاوک نہیں تھی، ہم سب نے مل کر باجماعت نماز ادا کی اور پھر فلم بینی میں مشغول ہوگئے۔
ایک صاحب آپ کے گھر گئے، آپ گھر پر نہیں تھے آپ سے فون پر بات ہوئی آپ نے کوئی پانچ سات منٹ انتظار کی گزارش کی مگر وہ صاحب بڑے جلد باز تھے، فوراً واپس چلے گئے، جب آپ گھر آئے اور انہیں نہ پایا تو فون کیا اور کہا : ’’عالی جناب! تھوڑا انتظار کرلیتے، کیا آپ کی قوت امساک پورے طور پر مفقود ہوچکی ہے؟ وہ لفظ ’’امساک‘‘ سنتے ہی اُچھل پڑے، آپ نے فون کی لائن کٹ کردی۔ چند دن تک آپ کے حلقے میں لفظ ’’امساک‘‘ صدائے بازگشت‘‘ بنا رہا۔ اسی اثناء آپ کے ایک بے تکلف دوست نے اس سے نقص امساک کی شکایت کی، آپ نے برجستہ کہا کہ یعنی تمہاری ذکاوت حس بڑھ چکی ہے اور تم اسکرین ٹچ فون ’’ہوگئے ہو‘‘۔
ایک دن آپ کی نظر ایک نحیف شاگرد پر پڑی اس کو پاس بلایا اور کہا ’’تو خوش ہوجا کیونکہ خدا تعالیٰ تجھ سے قیامت میں یہ سوال نہیں کرے گا کہ میں نے تجھے جوانی دی تھی تو تو نے اسے کن کن کاموں میں لگایا۔ نحیف شاگرد اپنی ساری توانائی یکجا کرکے پوچھا: ’’کیوں؟‘‘ تب آپ نے اطمینان سے جواب دیا کہ ’’جب خدا نے تجھے جوانی ہی نہیں دی تو پھر وہ اس کا سوال کیوں کرے گا‘‘۔ ایک مرتبہ انہوں نے کافر جوانی کا مفہوم ایسا بتایا اور اس کا ایسا تعارف کروایا کہ ہم نے فوراً اس کے خیال کو اس طرح منظوم کردیا:
خدا نے کیا جوانی دی تجھے گویا کہ سونامی
ذرا انگڑائی لی تونے ، تو بند پیرہن ٹوٹا