مذکورہ معصوم لڑکی کا قتل مبینہ طور پر 30مئی کے روز اس کے گھر کے باہر سے اغوا کے بعد دولوگوں نے کیا‘ او راس کی نعش کو کچرے کے ڈبے میں ڈال کر چلے گئے۔
منشاء کے متعلق شبہ ہے کہ ملزمین اور متوفی کے داداکے درمیان کوئی مالی تنازع ہوگا۔
علی گڑھ۔ علی گڑھ میں دو سال کی معصوم کے قتل پر انصاف کا مطالبہ کرتے ہوئے شام کے وقت گاؤں کے سنٹر سے ایک موم بتی مارچ گذرا۔
کیونکہ پولیس مزید حقائق کی جانچ کررہی ہے‘ گھر والوں کی سونچ ہے کہ مبینہ طور پر قرض لڑکی کی جان کی قیمت ہوگی۔
مذکورہ معصوم لڑکی کا قتل مبینہ طور پر 30مئی کے روز اس کے گھر کے باہر سے اغوا کے بعد دولوگوں نے کیا‘ او راس کی نعش کو کچرے کے ڈبے میں ڈال کر چلے گئے۔
منشاء کے متعلق شبہ ہے کہ ملزمین اور متوفی کے داداکے درمیان کوئی مالی تنازع ہوگا۔متوفی کے گھر والے حال ہی میں علی گڑھ منتقل ہوئے تھے۔
گھر والوں کا کہنا ہے کہ پانچ سال قبل متوفی کی ماں کو حمل کے دوران بچے کا نقصان ہونے کے بعد علاج او ردعاؤں کی وجہہ سے متوفی معصوم لڑکی پیدا ہوئی تھی۔
مذکورہ والدجو کھیتی کے کام سے جوڑا ہے‘ نے کہاکہ وہ خوشحال زندگی گذارتے تھے۔
متوفی معصوم کی ماں او ردیگر رشتہ داروں کا کہنا ہے کہ معاشی معاملات کا فیصلے متوفی کے دادا کرتے تھے اور بہت کم ہی ان معاملات پر وہ دوسروں سے بات کیاکرتے تھے۔
ایک رشتہ دار نے کہاکہ ”انہوں نے 1.5سال قبل ملزم سے 50,000روپئے لئے تھے۔ ہم انہیں کچھ نہیں بولے کیونکہ وہی تھے جو ایسے فیصلے ذاتی طور پر کیاکرتے تھے۔
نہ تو ہم اس پر کوئی سوال کیاہے۔ہمیں کیامعلوم تھا ایک معمولی رقم کا اتنا بڑا نقصان اٹھانا پڑے گا“۔مذکورہ دادا نے کہاکہ وہ قرض کی ماباقی رقم 10,000روپئے ادا کرنے کے لئے تیارتھا‘ اور ملزم نے قتل سے قبل ہوئی بات چیت میں بھی اس طرح کی کوئی دھمکی نہیں دی۔
دادا نے کہاکہ ”جب میں نے اسکو سڑک پر دیکھا‘ وہ کچھ برہم دیکھائی دیا۔کسی کے متعلق بھی میرے سونچ خراب نہیں تھی۔
یہاں تک جب معصوم کا اغوا کرلیاگیا اس وقت تک بھی ہمارے ذہن میں ایساکوئی بات نہیں ائی‘ بعد میں اس طرف ذہن گیا“۔
گھر کے باہر ایک عارضی ڈیرے میں جہاں پر بیٹھ کر دادا نے بات کی ایک ہفتہ قبل اسی مقام سے معصوم لڑکی کا اغوا کیاگیاتھا۔ گاؤں کے پردھان نے کہاکہ”نعش کے اعضاء اب بھی میرے ذہن میں ہے۔
شائد کتاوں نے اس کا الگ کیاہے۔ گھر والوں کے ساتھ ہم تمام لوگ وہاں پر بھاگے۔وہ مقام ناقابل برداشت تھا۔ گھر والوں کے ساتھ انصاف ناگزیرہے“۔
گاؤں والوں کا کہنا ہے کہ دیگر ملزمین کے مجرمانہ ریکارڈ سے سب واقف ہیں۔اس میں سے ایک مبینہ واقعہ‘ اس نے اپنی بیوں کو گھر باہر گھسیٹ کر پیٹا تھا۔
پولیس کے مطابق2014میں اس پر اپنی ہی بیٹی کی عصمت ریزی کا درج کیاگیاتھا۔پردھان نے کہاکہ”اس نے اپنی بیوی کو لاٹھیوں سے پیٹا تھا اور اس عورت کی حالات خراب ہوگئی تھی۔ مزید زخمی ہونے سے بچانے کے لئے ہم لوگوں نے مداخلت کی۔
وہ ہم تمام کے لئے مسئلہ بنا ہوا ہے“۔
دوسال کی بچی کو یاد کرتے ہوئے گھر والوں نے کہاکہ وہ ہمیشہ ہشاش بشاش رہتی تھی۔ ایک رشہ دار نے کہاکہ ”وہ سب سے جلد گھل مل جاتی او ربات کرتی تھی۔
وہ ہر چیز کا جواب دیاکرتی تھی‘ حالانکہ اس نے ابھی با ت کرنا شروع کیاتھا“۔
جب اترپردیش کے زراعی منسٹر سوریہ پرتاب شاہی سے علی گڑھ قتل کے متعلق میڈیا نے استفسار کیاتو انہوں نے کہاکہ اس قسم کے واقعات رونما ہورہے ہیں مگر ہم ان کے خلاف سخت کاروائی کریں گے۔
شاہی نے کہاکہ”دیکھئے یہ واقعات ہوجاتا ہیں‘ لیکن ایسے واقعات کے خلاف سخت سے ہم کاروائی کرتے ہیں۔ کچھ ذہنیت بھی اس کے ساتھ ہوتی ہے“