عمران خان نمائشی وزیراعظم اصل اختیارات فوج کے پاس

   

امتیاز متین،کراچی
پاکستان کا سماج، سیاست، معیشت اور صحافت کورونا وائرس کی نذر ہو چکے ہیں۔ تا دم تحریر پاکستان میں کورونا وائرس کی معلوم مریضوں کی تعداد 1400 سے تجاوز کر چکی ہے ۔11 مریض جاں بحق اور 23 صحتیاب ہو چکے ہیں۔ کورونا وائرس سے متاثرہ افراد کی زیادہ تعداد ان لوگوں کی ہے جو حال ہی میں ایران، سعودی عرب اور برطانیہ سے پاکستان آئے تھے۔ایران میں کورونا وائرس کی وبا پھیلنے کے بعد جب ایرانی حکومت نے زائرین کو جب پاکستان کی سرحد تفتان پر لاکھڑا تو پاکستان کے پاس اس کے سوا کوئی چارہ نہ تھا کہ اپنے شہریوں کو ملک میں آنے کی اجازت دے۔ تفتان ایک دور دراز صحرائی علاقہ ہے جہاں امیگریشن اور سیکورٹی کے معمولی سے انتظامات ہیں۔ جس وقت یہ پاکستانی زائرین وہاں پہنچے تو اس صحرا میں ان افراد کو قرنطینہ میں رکھنے اور کورونا ٹیسٹ کرنے کا کوئی انتظام موجود نہیں تھا۔ بہرحال ہنگامی طور پر کچھ انتظامات تو کیے گئے لیکن یہ ناکافی تھے اور کورونا وائرس کے بہت سے مریض تفتان سے نکل کر شہروں میں پہنچ گئے، بہت سے مریضوں کو ڈھونڈنے میں مشکلات ہوئیں اور کچھ مریض قرنطینہ سے فرار بھی ہو گئے۔ اسی طرح انٹرنیشنل ایئر پورٹس پر بھی شروع میں کورونا وائرس کی جانچ پڑتال کا کوئی انتظام نہیں کیا گیا بلکہ خانہ پری کے لیے پاکستان آنے والے مسافروں کو طیارے میں ایک فارم بھروا کر یہ پوچھ لیا گیا کہ انہیں سانس لینے میں کوئی دقت تو نہیں ہو رہی یا انہیں زکام اور بخار تو نہیں ہوا ہے۔ یہ وہ وقت تھا جب حکومت نے ملک بھر میں تعلیمی ادارے اور ہوٹل، ریسٹورانٹس، پارک، تفریحی و سیاحتی مقامات اور میرج ہال بند کرنے کے احکامات جاری کر دیے تھے۔ ایران کی جانب سے پاکستانی شہریوں کو نکال دینے کی ایک بڑی وجہ یہ سمجھ میں آتی ہے کہ معاشی پابندیوں کی وجہ سے ایران میں علاج معالجے کی بہتر سہولتیں موجود نہیں ہیں لہٰذا جب ایران میں کورونا وائرس اپنی ہلاکت خیزی کے ساتھ نمودار ہوا تو ایرانی حکومت نے پاکستانی زائرین کو جلد وطن واپس بھیجنے کا فیصلہ کیا۔ ایرانیوں کی مشکلات کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ صدر حسن روحانی نے وزیر اعظم عمران خان کو خط لکھ کر درخواست کی ہے کہ وہ طبی سہولتوں کی فراہمی پر عائد پابندیاں ختم کروانے کے لیے ایران کی مدد کریں۔اس کے جواب میں وزیر اعظم عمران خان نے نہ صرف دوسرے ممالک سے ایران کی مدد کرنے کی اپیل کی ہے بلکہ صدر ٹرمپ سے بھی کہا ہے کہ انسانیت کے لیے ایران پر عائد امریکی پابندیاں ختم کی جائیں اور طبی سہولتوں اور ادویہ کو پابندیوں سے استثنیٰ دیا جائے ۔

پاکستانی میڈیا اوراپوزیشن لیڈرز کا بھی عجب حال ہے جس وقت حکومت نے ووہان میں موجود پاکستانی طلبا کو وطن واپس لانے سے انکار کر دیا تھا تب یہ لوگ حکومت پر تنقید کر رہے تھے اور اب ایران سے آنے والے زائرین کو وطن واپسی کی اجازت دینے پر بھی تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ بلکہ یہ کہا جا رہا ہے کہ بعض لوگ اس تنقید کی آڑ میں صوبائیت، لسانیت اور فرقہ واریت کی آگ بھڑکانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ حد تو یہ ہے کہ جب صدر پاکستان ڈاکٹر عارف علوی ایک حدیث کا حوالہ دیتے ہوئے کہہ رہے تھے کہ اگر آپ وبا کے علاقے میں ہوں تو اسے چھوڑ کر نہیں جانا چاہیے تب بھارت کے بعض اینکرز پاکستان پر پھبتیاں کستے ہوئے کہہ رہے تھے کہ حکومت پاکستان نے اپنے بچوں کو بے آسرا چھوڑ دیا۔ حالانکہ یہ بالکل غلط بات تھی کیونکہ چینی حکومت نے یہ یقین دلایا تھا کہ ووہان میں موجود کسی پاکستانی طالبعلم کو کوئی پریشانی نہیں ہوگی بس وہ اپنے ہوسٹل کے کمروں میں بند رہیں۔ خدا کا شکر ہے کہ چین میں موجود کوئی طالبعلم کورونا وائرس سے بیمار نہیں ہوا جبکہ چینی حکومت اور شہریوں کی جانب سے اس مشکل وقت میں ساتھ کھڑے رہنے پر پاکستان کا نہ صرف شکریہ ادا کیا گیا ہے بلکہ اب جب کورونا وائرس کی وبا تیزی سے پاکستان میں پھیل رہی ہے تو چین کی جانب سے جلد اس وبا پر قابو پانے کے لیے ہر طرح سے مدد کی جا رہی ہے۔ طبی سامان اور دیگر آلات کے ساتھ ساتھ طبی عملے کی پاکستان میں آمد کی خبریں بھی آ رہی ہیں۔ اپوزیشن جماعت پیپلز پارٹی اور ان کے حامی میڈیا میں وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ کی دریا دلی کے قصیدے پڑھتے رہے کہ سندھ حکومت نے چین سے طبی سامان منگوایا تھا جو تھوڑا سال اپنے پاس رکھ کرباقی صوبہ پنجاب اور خیبر پختونخواہ کو بھجوا دیا ہے، لیکن بعد میں سوشل میڈیا پر یہ خبریں اور تبصرے سننے میں آئے کہ وہ سامان حکومت سندھ نے نہیں منگوایا تھا بلکہ یہ چینی کمپنی علی بابا کے مالک جیک ما نے بھجوایا تھا اور چونکہ یہ سامان کراچی میں اتارا جانا تھا لہٰذا وزیر اعلیٰ سندھ وہاں تصویر کھنچوانے وہاں پہنچے تھے۔ سیاسی جھنڈا تو لہرا گیا لیکن اس کا کچھ فائدہ نہیں ہوا۔ دوسرے یہ کہ حکومت سندھ کی کارکردگی بہت سے معاملات میں قابل رشک نہیں رہی ہے لیکن پھر بھی کچھ میڈیا گروپس اگلے وزیر اعظم کے طور پر پیش کر رہے ہیں۔ اٹھارہویں آئینی ترمیم کے بعد صوبے بہت سے معاملات میں خود مختار ہو گئے ہیںجس کے بعد وزیر اعظم پہلے جیسا خود مختارتو نہیں رہا ہے لیکن موجودہ ہنگامی حالات میں وزیر اعظم نے آئین کے تحت صوبوں کو یہ اختیار دیا ہے کہ وہ اپنے حالات کے مطابق فیصلے کریں۔ اسی وجہ سے صوبوں نے آئین کے آرٹیکل 245 کے تحت فوج کو خصوصی اختیارات کے ساتھ سول حکومت کی مدد کے لیے طلب کر لیا ہے جبکہ کورونا وائرس سے پیدا ہونے والی صورتحال سے نمٹنے کی ذمہ داری نیشنل ڈزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی پاکستان (NDMA) کے سپرد کی گئی ہے جس کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل محمد افضل ہیں۔ صوبہ سندھ میں فوج نے آتے ہی کراچی کے ایکسپو سینٹر میں کورونا وائرس کے مریضوں کے لیے ہسپتال بنایا ہے، جس کے متعلق کہا جا رہا ہے کہ اس میں دس ہزار مریضوں کے لیے گنجائش بنائی جا سکتی ہے۔ اسی طرح لاہور کے ایکسپو سینٹر اور دوسرے شہروں میں خصوصی ہسپتال بنائے گئے ہیں۔
کورونا وائرس کی وجہ سے پیدا ہونے والی صورتحال کے تحت حکومت نے 1200 ارب روپے کے اقتصادی پیکیج کا اعلان کیا ہے اس کے تحت پیٹرو ل اور ڈیزل کی قیمتوں میں 15 روپے فی لیٹر اور بینکوں کی شرح سود میں 1.5 فیصد کمی کی گئی ہے۔بجلی اور گیس کے بلوں کی قسطیں کی جائیں گی ۔ ایمرجنسی صورتحال کے لیے 100 ارب روپے،دیہاڑی دار مزدوروں کے لیے 200 ارب روپے، اسمال اور میڈیم انڈسٹریز کے لیے 100 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں جبکہ ایک کروڑ 20 لاکھ غریب خاندانوں کو چار ماہ تک تین ہزار روپے ماہانہ کی امداد دی جائے گی۔ غریب افراد کے لیے بنائی گئی پناہ گاہوں کی توسیع کے لیے 6 ارب روپے اور گندم کی خریداری اور یوٹیلٹی اسٹورز کے لیے 50 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔ دریں اثنا پیپلز پارٹی کے زیر اہتمام ملک کی تاریخ میں پہلی بار ویڈیو لنگ کے ذریعے آل پارٹیزکانفرنس کا انعقاد کیا جس میں بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ سیاسی قیادت متحد ہو کر کورونا وائرس کی وبا کا مقابلہ کرے گی۔ انہوں نے وزیر اعظم عمران خان پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ انہیں اسلام آباد کے بجائے پورے ملک کا وزیر اعظم بن کر اپنا کردار نبھانا ہوگا۔ اپوزیشن جماعتوں کے لیڈرز کا مسئلہ یہ ہے کہ یہ سب دو چار سال نہیں بلکہ دس پندرہ سال حکومت میں رہے ہیں اور ناقص طبی سہولتوں کے حوالے سے حکومت پر تنقید کرنے کا کوئی جواز موجود نہیں ہے ۔ حد تو یہ ہے کہ پیپلز پارٹی کے صوبائی وزیر سعید غنی بھی کورونا وائرس کے حملے کا شکار ہو چکے ہیں۔ پنجاب میں مسلم لیگ (ن) اور سندھ میں پیپلز پارٹی جبکہ کراچی میں ایم کیو ایم کا دور اقتدار بہت طویل ہے لیکن آج سرکاری ہسپتال برے حال میں ہیں۔

وزیر اعظم عمران خان مکمل لاک ڈائون یا کرفیو نافذکرنے کے لیے آمادہ نہیں ہیں کیونکہ اس صورت میں پورے ملک میں بھوک اور کھانے پینے کی اشیا کی قلت سے حالات بگڑنے کا اندیشہ ہے، وہ یہ کام اس وقت تک نہیں کریں گے جب تک لوگوں کے گھروں تک راشن پہنچانے کا انتظام نہ ہو جائے۔ اس کے برعکس سندھ کی صوبائی حکومت لاک ڈائون سے بڑھ کر اب شام سے صبح کے کرفیو کے مرحلے میں داخل ہو رہی ہے۔ اس وقت پورے ملک میں لاک ڈائون جاری ہے جس کے تحت کسی کو بھی بلا ضرورت سڑکوں پر نکلنے کی اجازت نہیں ہے ۔صرف ہسپتالوں کے عملے، ضروری سروسز اور میڈیا سے منسلک افراد کے علاوہ سامان کی ترسیل کرنے والی ٹرانسپورٹ چلنے کی اجازت دی گئی ہے جبکہ ایئرلائنز، ریلوے اور شہروں کے مابین چلنے والی بسوں سمیت ہر طرح کی پبلک ٹرانسپورٹ بند ہے۔
وزیر اعظم عمران خان کے محدود لاک ڈائون اور کرفیو نہ لگانے کے موقف اور صوبوں میں بتدریج لاک ڈائون کے معاملے پر میڈیا اور سوشل میڈیا کے کچھ حلقوں میں یہ تاثر دیا جا رہا ہے کہ وزیر اعظم عمران خان اور اسٹیبلشمنٹ میں شدید اختلافات ہو گئے ہیں اور وزیر اعظم کو کونے میں بٹھا دیا گیا ہے اور وہ ایک نمائشی وزیر اعظم کے طور پر عوام کے سامنے رہ گئے ہیں ۔ اس سارے معاملے میں فوج نے چارج سنبھال لیاہے۔ اس کے ساتھ ہی کہا جا رہا ہے کہ مسلم لیگ (ن) کے قائد حزب اختلاف اور سابق وزیر اعلیٰ پنجاب جو لندن سے اچانک وطن واپس آئے ہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ اسٹیبلشمنٹ ان سے کہہ رہی ہے کہ وہ آکر چارج سنبھال لیں۔ ان کے خلاف تمام مقدمات کو نظر انداز کر دیا جائے گا۔ تاہم اس پروپیگنڈا کے پیچھے کوئی حقیقت نظر نہیں آتی کیونکہ جس طرح سول حکومت اور فوجی قیادت کے مابین ان ہنگامی حالات پر قریبی رابطوں اور کورونا وائرس کے نتیجے میں پیدا ہونے والی ہنگامی صورتحال سے نمٹنے کے لیے باہمی مشاورت سے اقدامات کیے جا رہے ہیں۔ تاہم حکومت خلاف پروپیگنڈا اور میڈیا مہم سے یہ لگتا ہے کہ موجودہ ہنگامی حالات میں اپوزیشن جماعتوں کو اپنیحکومت مخالف سیاست کرنے میں مشکل پیش آ رہی ہے۔ شہباز شریف کی اچانک واپسی کی ایک وجہ یہ بھی سمجھ آ رہی ہے کہ شہباز شریف کو مسلم لیگ (ن) پر مریم نواز کی حاکمیت پسند نہیں ہے ، گزشتہ دنوں جس طرح وہ سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کے ساتھ پبلک میٹنگ میں آئی تھیں اس سے لگتا تھا کہ اب نواز شریف کے بعد مریم نوازمسلم لیگ (ن) پر اپنی حاکمیت قائم کرنا چاہتی ہیں حالانکہ نواز شریف اور شہباز شریف کے ملک سے جانے کے بعد یہ خبریں گردش کر رہی تھیں کہ مریم نواز بھی چند دنوں میں لندن چلی جائیں گی۔ بعض نیوز چینلز نے اس بات کی بڑی وکالت کی تھی کہ نواز شریف کی تیمار داری کے لیے مریم نواز کا لندن جانا بہت ضروری ہے یہ خبر بھی آئی کہ نواز شریف نے مریم نواز کی موجودگی کے بغیر دل کا پروسیجر کروانے سے انکار کر دیا تھا۔ حالانکہ نواز شریف کو خون میں پلیٹ لیٹس کی تشویشناک حد تک کمی کی میڈیکل رپورٹس آنے کے بعد جیل سے رہا کرکے علاج کی غرض سے لندن جانے کی اجازت دی گئی تھی۔تاہم لندن میں ڈاکٹرز کو ایسی کوئی بیماری نہیں ملی جس کاعلاج کیا جاتا۔ شہباز شریف کہنے کو کورونا وائرس کی وبا کے دنوں میں قیادت کرنے واپس آئے ہیں جس کے بعد وہ پارٹی پر اپنی گرفت مضبوط کرنے کی بھر پور کوشش کریں گے۔ لوگ تو احتساب بیورو کی جانب سے شاہد خاقان عباسی کی دوبارہ گرفتاری کو بھی شہباز شریف کا دوہرا سیاسی وار قرار دے رہے ہیں جس کے تحت انہوں نے نہ صرف وزیر اعظم پر اپوزیشن لیڈرز کو دبانے کا ملزم بنانے کی کوشش کی ہے بلکہ اپنے راستے میں آنے والی ایک بڑی رکاوٹ کو کم از کم تین مہینے کے لیے حراست میں بھیج دیا ہے۔ دوسری جانب حکومت نے سابق وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق اور ان کے بھائی کو ضمانت پر رہا کر دیا ہے لیکن ان کا ٹی وی انٹرویو سے لگتا ہے کہ وہ پاکستان کے شاہی جمہوری نظام سے خوش نہیں ہیں جس میں نہ تو نچلی سطح تک جماعتیں منظم کی جاتی ہیں اور نہ ہی بڑے قائدین دوسرے لوگوں کو اوپر آنے دیتے ہیں۔ خواجہ سعد رفیق کی رہائی کی ایک وجہ یہ ہوسکتی ہے کہ عدالت کورونا وائرس کی وجہ سے ضرورت سے زیادہ بھرے ہوئے جیلوں سے لوگوں کو نکالنے کی پالیسی پر عمل کر رہی ہے۔

ان دنوں مراعات یافتہ صحافیوں اور مالکان کی وزیر اعظم عمران خان سے ایک طرح کی چپقلش چل رہی ہے۔ جس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ احتساب بیورو نے جنگ گروپ اور جیو ٹی وی کے مالک اور ایڈیٹر انچیف میر شکیل الرحمن کو آج سے تقریباً پینتیس سال پہلے لاہور میں 54 کینال کا پلاٹ اس وقت کے وزیر اعلیٰ نواز شریف سے غیر قانونی طور پر الاٹ کروانے کے الزام میں حراست میں لے لیا ہے تاہم اس کیس سے بہت سے دوسرے کیس بھی نکل سکتے ہیں۔ گزشتہ دنوں سوشل میڈیا پر دوسرے نیوز چینلز کے مالکان کے نام بھی گردش کرتے رہے جن کے خلاف بدعنوانیوں کے مقدمات سامنے آ سکتے ہیں۔ شاید یہی وجہ ہے کہ جو چینل کچھ عرصہ پہلے تک حکومت کی حمایت کرتے نظر آتے تھے اب ان کے رویوں میں بھی تبدیلی نظر آ رہی ہے۔ میر شکیل کی گرفتاری کو حکومت نے نیب کی کارروائی قرار دیا ہے جبکہ صحافیوں کے ایک طبقے نے اسے آزادی صحافت پر حملہ قرار دیا ہے لیکن باقی صحافی خاموش ہیں۔ چیئر مین نیب نے اگر یہ گرفتاری میر شکیل کو ڈرائی کلین کرکے نکالنے کے لیے کی تھی تو اب ان کے لیے عدالت میں کمزور مقدمہ پیش کرنا مشکل ہوگا کیونکہ اگر میر شکیل رہا ہوئے تو چیئرمین نیب کو گھر جانا پڑے گا۔ ادھر شہباز شریف بھی کورونا وائرس مہم میں میڈیا کی حمایت حاصل کرنے کے لیے میر شکیل کی رہائی کی وکالت کر رہے ہیں جبکہ بعض معروف اینکر پرسنز بھی کورونا وائرس کے حوالے سے وزیر اعظم عمران خان سے ہونے والی ملاقات میں میر شکیل اور حکومت کی مبینہ میڈیا مخالف پالیسیوں اور دوسرے ایجنڈا سوالات کرکے منھ کی کھا چکے ہیں۔ اس ملاقات میں ہونے والی گفتگو براہ راست نشر کی جا رہی تھی۔ اس ملاقات کے حوالے سے جو عوامی ردعمل سامنے آیا ہے اس کے پیش نظر یہ کہا جا سکتا ہے کہ میڈیا کے مراعات یافتہ صحافیوں اور مالکان کو کافی سیاسی نقصان ہوا ہے۔