عمر خالد کی مخالف سی اے اے تقریر پر دہلی ہائی کورٹ نے کہاکہ دہشت گردانہ کاروائی نہیں ہے

,

   

یہ مشاہدہ اس وقت سامنے آیا جب 24مارچ2022کو دائر کردہ ان کی درخواست کو ٹرائیل کورٹ کی جانب سے مسترد کرنے کے فیصلے پر چیلنج کرتے ہوئے خالد کی جانب سے دائر کردہ ایک درخواست کی سنوائی کی جارہی تھی۔


دہلی ہائی کورٹ کا مشاہدہ ہے کہ جیل میں قید جہدکار اورجواہرلا ل نہرو یونیورسٹی(جے این یو) ریسرچ اسکالر عمرخالد کی تقریر جو فبروری 2020میں مہارشٹرا کے امرواتی میں دی گئی تھی خراب حالات میں بھی ایک”دہشت گردانہ کاروائی“ قرارنہیں دیاجاسکتا ہے۔

این ڈی ٹی وی کی ایک رپورٹ کا کہنا ہے کہ یہ مشاہدہ اس وقت سامنے آیا جب 24مارچ2022کو دائر کردہ ان کی درخواست کو ٹرائیل کورٹ کی جانب سے مسترد کرنے کے فیصلے پر چیلنج کرتے ہوئے خالد کی جانب سے دائر کردہ ایک درخواست کی سنوائی کی جارہی تھی۔

دوججوں کی بنچ نے مانا کہ”مذکورہ تقریر کا ذائقہ خراب ہے‘ مگر اس کو دہشت گردانہ کاروائی نہیں بنایاجاسکتا۔ ہم اسے بہت اچھی طرح جانتے ہیں۔اگر استغاثہ کا مقدمہ اس بات پر قائم ہے کہ تقریر کس قدر جارحانہ تھی تو یہ بذات خود ایک جرم نہیں بنتا ہے۔

ہم انہیں (استغاثہ کو) کو موقع فراہم کریں گے“۔ مذکورہ بنچ کی نگرانی جسٹس سدھارتھ مردیول اور رانجیش بھٹناگر کررہے تھے۔عمر خالد کے وکیل نے استدلال پیش کیاکہ مذکورہ تقریر جو عمر نے کی تھی وہ ایک ”غیر منصفانہ قانون“ (شہریت ترمیمی ایکٹ) کے خلاف تھی اورکسی بھی صورت میں ہندوستان کے ائین کی خود مختاری کے خلاف نہیں ہے۔

مذکورہ وکیل نے کہاکہ عمرخالد کے خلاف دہلی پولیس کی جانب سے لگائے گئے الزامات کو بطور ’دہشت گرد حملہ“ نہیں تسلیم کیاجاسکتا ہے اور جو لوگ تقریر کے وقت وہاں پر موجود تھے انہوں نے تشدد کے متعلق نہ تو سونچا او رنہ ہی کوئی کوشش کی ہے۔


عمر خالد کی گرفتاری کا پس منظر
عمر خالد کو یو اے پی اے کے تحت دہلی پولیس نے فبروری 2020میں کی گئی تقریر کے ضمن میں گرفتار کیاتھا۔ دہلی پولیس کا الزام ہے کہ عمر کی تقریر دہلی فسادات میں ایک سازش تھی جو فبروری 2020میں پیش ائے جس میں 53لوگ مارے گئے اور700سے زائد زخمی ہیں۔

شہریت ترمیمی قانون اور این آرسی کے خلاف احتجاج کے دوران تشدد کے یہ واقعات پیش ائے تھے