’’عمل سے فارغ ہوا مسلمان بناکے تقدیر کا بہانہ‘‘

   

محمد نصیر الدین
ہمارا ملک ہندوستان یوں تو ساری دنیا میں ترقی یافتہ اقوام کی صفف میں کھڑا ہے۔ انفارمیشن ٹکنالوجی، کمپیوٹر، الکٹرانکس، خلائی سائنس، مڈیسن اور دیگر علوم و فنون میں غیر معمولی ترقی کی ہے۔ مزید یہ کہ مادی ترقی و عروج کی غیر معمولی بلندیوں کو پار کرلیا ہے، لیکن اخلاق و کردار کے اعتبار سے بدترین گراوٹ کا شکار ہے۔ سچائی ایمانداری، دیانت داری اور حق گوئی قصہ پارینہ بن چکے ہیں۔ مفاد پرستی، خود غرضی، مطلب براری طرہ امتیاز بن چکا ہے۔ مزید یہ کہ مادی ترقی نے فرد کے ضمیر اور اس کی روح کو فنا کردیا ہے۔ برسوں سے اقتدار کی تمنا رکھنے والے گروہ کو بدقسمتی سے جب اقتدار حاصل ہوا تو وہ اتاولے پن کا شکار ہوچکا ہے۔ دیگر نظریات اور عقائد رکھنے والوں کو وہ برداشت کرنے کے لئے ہرگز تیار نہیں ہیں۔ انہیں یکے بعد دیگرے اپنے ایجنڈہ کے مطابق قوانین بنانے کے بعد بھی اطمینان حاصل نہ ہوگا۔ اب وہ سارے ملک و عوام کو باٹنے میں لگے ہیں۔ ہر مسئلہ کو فرقہ وارانہ رنگ دینا، دیگر عقائد والوں کو بدنام کرنے کی کوشش کرنا اور مختلف عقائد کے ماننے والوں کے بیچ نفرت کی دیوار کھڑی کردینا ان کا محبوب مشغلہ بن چکا ہے۔ جو ملک صدیوں سے امن محبت اور بھائی چارہ کاعلمبردار رہا آج اس کی شناخت کو سنگین خطرہ لاحق ہے۔ سرکاری سطح سے لے کر سماجی، معاشرتی اور ہر قسم کے تعلقات و روابط بدگمانی، خوف و اندیشوں کا شکار ہوچکے ہیں۔ ہر سطح پر اقلیتی طبقہ کے خلاف نفرت کا ماحول پیدا کرنے کی عمداً کوششیں کی جارہی ہیں۔ ان کے مقاطعہ اور بائیکاٹ کی غیر محسوس طریقے سے کاوشیں ہو رہی ہیں اور اس ناانصافی اور ملک کی بدخدمتی کے خلاف جو بھی آواز بلند ہوتی ہے اس کو خاموش کرنے کے لئے جبر و ظلم کے ہر قسم کے ہتھکنڈے استعمال کئے جارہے ہیں لگتا ہے کہ دوسرے عقائد اور مذاہب کو ماننے والوں کا وجود ان کے لئے سوہان روح بن چکا ہے۔ عدلیہ انتظامیہ پولیس اور میڈیا کم و بیش ان ہی کے اشاروں پر کام کررہے ہیں۔ ایسے میں انصاف کہاں طلب کریں، اپنے حق کے لئے کہاں صدا لگائیں اور کس سے عدل و قسط کی امید رکھیں؟

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ حالات اچانک وقوع پذیر ہوگئے اور اہل ملک کی سونچ و فکر میں معاً تبدیی واقع ہوگئی؟ حقیقت اس کے برعکس ہے۔ ملک کو مخصوص راہ پر ڈالنے کے لئے ایک طویل منصوبہ بندی کی گئی۔ مخصوص نظریہ کے مطابق لاکھوں اذہان بنائے گئے۔ شیومندر کی شکل میں لاکھوں تربیت گاہیں چلائی گئیں۔ تعلیم یافتہ طبقہ سرکاری ملازمین، تجارتی گھرانوں، رٹائرڈ بیورو کریٹس، پولیس، عدلیہ فوج اور میڈیا میں اثر پذیری کے لئے سخت عرق ریزی کی گئی۔ میدان سیاست میں کامیابی کے لئے صبر آزما جدوجہد اور بے تکان محنت کی گئی تب جاکر انہیں اقتدار کے گلیاروں میں جگہ مل سکی۔ دوسری طرف ملت اسلامیہ ہندوستان میں ایک ہزار سال کی مسلم حکمرانی پر فخر کرتی رہی، تاریخی عمارتوں کی عظمت پر اتراتی دہی، جانے انجانے میں احساس برتری اور غرور میں مبتلا رہی اور سہل پسندی اور عیش کوشی کی رسیابن گئی۔ برصغیر کی تقسیم کے بعد جب فسادات کا سلسلہ چل پڑا، ظلم و بربریت اور قتل و خون کی ہولی کھیلی جاتی رہی اور مختلف شعبہ حیات میں تعصب اور ناانصافی کا سامنا ہوا تو ملت کو کچھ کچھ ہوش آنے لگا، حالات سے آگاہی ہوئی اور شعور بیدار ہونے لگا لیکن وائے ناکامی کہ یہ شعور و بیداری محض ملی مفادات کے ارد گرد گھومتی رہی، حقوق طلبی ہی ساری جدوجہد کا مرکزی نکتہ قرار پایا۔ جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ملک کی اکثریت کے ساتھ تعلقات و روابط میں اجنبیت اور غلط فہمیوں کی خلیج بڑھتی رہی اور ادھر ملت اپنے ہی خول میں بند ہوتی چلی گئی۔ اپنے حقوق اور ملی مفادات کے لئے ملت نہ اکثریت کو مطمئن کرپائی اور نہ ہی انصاف پسند اور غیر جانبدار سیاسی و سماجی قائدین ہی کو اپنے ساتھ شامل کرسکی۔ مزید افسوسناک حقیقت یہ ہے کہ ملت نے اپنے حقوق و مفادات سے اوپر اٹھ کر کبھی بھی ملک یا ملک کے دیگر مظلوم اور بچھڑے طبقات کے مسائل کے حل کے لئے آواز بلند کی اور نہ ہی کوئی احتجاج یا آندولن منظم کیا۔ یہی وجہ ہے کہ لگ بھگ 25 کروڑ پر مشتمل یہ ملت ملک میں اچھوت بنی ہوئی ہے۔ یہ حقیقت کسی بھی صورت میں حیرت انگیز نہیں ہونی چاہئے۔ حکمراں طبقہ اس ملت کو دبانے اور کچلنے کی منصوبہ بندی میں مصروف ہے۔ تو دوسری طرف یہ ملت ملک کے کسی بھی طاقتور جماعت یا طبقہ یا دانشوروں کی تائید حاصل کرنے سے قاصر ہے۔ ملت کے علماء، قائدین، دانشور اور اہل علم موجودہ حالات کی تبدیلی کے لئے فکرمند ہیں، ملت کی سلامتی اور دین و شریعت کی آزادی کو لیکر متفکر ہیں لیکن دور دور تک کسی کو کوئی راہ سجھائی نہیں دے رہی ہے۔ ماہ صیام میں نازل ہوئی کتاب ہدایت کی طرف رجوع ہوں تو ہدایت و رہنمائی یقینا حاصل ہوسکتی ہے۔ سب سے پہلی چیز جس کی طرف قرآن متوجہ کرتا ہے وہ یہ ہے کہ 25 کروڑ پر مشتمل ملت اپنے ’’مادی وجود کو اخلاقی وجود‘‘ میں تبدیل کرے۔ اخلاق و کردار کا ہتھیار ہر زمانہ میں موثر رہا ہے

اور مخالفوں کو بہ آسانی زیر کرسکتا ہے۔ ایمان کا دعویٰ کرنے والوں کا اخلاق، کردار، معاملات، معاشرت، معیشت، لین دین اور چلت پھرت جب قرآن کے مطابق ہو جائے گی تو ملت کے مخالفین اور بدخواہ بھی بدل سکتے ہیں اور ظلم و جبر اور نفرت و تعصب کے دور کا خاتمہ ہوسکتا ہے۔ دوسری چیز جس کی طرف ملت کو توجہ دینے کی ضرورت ہے وہ یہ کہ اللہ تعالیٰ نے اس ملت کو ’’شھدا علی الناس‘‘ کے منصب پر فائز کیا ہے کہ وہ تمام انسانوں کو بلا کم وکاست سبیل ربک، کی طرف حکمت اور عمدہ نصیحت کے ساتھ بلائیں، ہر سال لاکھوں حفاظ سے پھر انفرادی طور پر بھی قرآن پڑھا اور سنا جاتا ہے لیکن اس فریضہ کی طرف کوئی متوجہ نہیں ہے۔ الا ماشاء للہ۔ وقت اور حالات مزید غفلت کی اجازت نہیں دیتے ملت کے ایک ایک شخص مرد و عورت کو بیدار ہونے کی ضرورت ہے کہ وہ اپنے قرب و جوار میں رہنے والے وطنی بھائیوں سے لازماً تعلقات و روابط استوار کریں اور خالق کائنات کے پیغام کو ان تک پہنچائیں۔ اسی طرح ملت میں موجود تمام مذہبی، سماجی، فلاحی جماعتوں اور گروہوں کا فرض ہے کہ وہ ملک میں موجود تمام مذہبی، سماجی اور سیاسی گروہوں سے تعلقات استوار کریں اور اسلام و مسلمانوں سے متعلق غلط فہمیوں اور بدگمانیوں کو دور کرنے اور رب کائنات کے پیغام کو بلاکم و کاست ان تک پہنچانے کی کوشش کریں۔ یہی واحد راستہ ہے اور اکیلی ہی راہ ہے جس پر چل کر ملک کے حالات کو تبدیل کیا جاسکتا ہے۔ ظلم و زیادتی، نفرت اور تعصب کی فضاء تبدیل ہوسکتی ہے۔ اور ملک میں امن چین سکون اور خوشحالی کی فضا پروان چڑھائی جاسکتی ہے۔ اس کے علاوہ مسلمانوں کے لئے فلاح نجات اور ترقی کی کوئی دوسری راہ نہیں ہوسکتی!! کاش ملت کے درد مند اور مخلص احباب ملت کے عروج و ترقی کے اس راز کو سمجھ پائیں اور ملت میں بیداری لانے اور ساری ملت کو ’’سبیل ربک‘‘ کی دعوت کو ملک کے ایک ایک باشندہ تک پہنچانے کے لئے متحرک کرسکیں تاکہ ملک کو ایک روشن اور شاندار مستقبل سے ہمکنار کیا جاسکے !!! ؎
خبر نہیں کیا ہے نام اس کا خدا فریبی کے خود فریبی
عمل سے فارغ ہوا مسلماں بناکے تقدیر کا بہانہ