عوام ، حکومت پر انحصار کرنا چھوڑ دے

   

پی چدمبرم

ہندوستانی عوام یا کم از کم عوام کی اکثریت اس نتیجہ میں پہنچ چکی ہے کہ کووڈ۔19 کے خلاف جنگ میں اپنے اپنے خاندانوں اور دوست احباب کی زندگیوں کے تحفظ کیلئے صرف اور صرف خود پر بھروسہ یا انحصار کرنا چاہئے، کیونکہ ریاست بالخصوص مرکزی حکومت اپنی ذمہ داریوں سے راہ فرار اختیار کرچکی ہے۔ وہ اپنی ذمہ داریاں بہتر طور پر نبھانے میں ناکام رہی۔ یہ اور بات ہے کہ چند ایک ریاستی حکومتیں ہیں جنہیں اب بھی عوام کا اعتماد حاصل ہے۔ ایسی ریاستوں میں کیرالا اور اڈیشہ شامل ہیں۔ جبکہ ٹاملناڈو اور پڈوچیری میں جہاں حکومتیں تبدیل ہوئی ہیں، ایسے میں ان دونوں حکومتوں کے بارے میں ابھی کسی نتیجہ یا فیصلے پر پہنچا نہیں جاسکتا۔ آج حالات اس قدر بدتر ہوچکے ہیں کہ کوئی بھی پارٹی ذمہ داریوں سے راہ فرار اختیار نہیں کرسکتی۔ یہ اور بات ہے کہ ہماری حکمراں جماعت ذمہ داریوں سے راہ فرار اختیار کرنے کی جان توڑ کوشش کررہی ہے۔ بعض ریاستی حکومتوں نے لاکھ رکاوٹوں کے باوجود اچھی کوشش کی ہے۔ کچھ ریاستیں بار بار غلطیوں کا ارتکاب کررہی ہیں اور ان ریاستوں میں حقائق کو دفن کرکے قیاس آرائیوں اور زبانی دعوؤں پر تکیہ کئے ہوئے ہیں۔ یہ تو حکومتوں کا حال ہے، لیکن متاثر اگر کوئی ہے تو وہ عوام ہے۔
یہ ایسا وقت ہے جہاںکووڈ۔ 19 کے مسئلہ کو یہ کہتے ہوئے یا دلائل پیش کرتے ہوئے حل نہیں کیا جاسکتا کہ اس ابتر صورتحال کیلئے کون ذمہ دار ہے۔ ویسے بھی یہ دور وجوہات یا مسئلہ کی جڑ تک پہنچنے کا نہیں بلکہ سیاست کا ہے اور ہر مسئلہ کو سیاسی رنگ دیا جارہا ہے۔ آج میں آپ کے سامنے ایسے سوالات اور نکات پیش کررہا ہوں جس کا جواب ہمارے ملک کے ہر فرد کو دینا چاہئے۔ مثال کے طور پر کئی ایک ٹارگٹ گروپ یا چنندہ گروپ ہے۔ یہ ایسے گروپ ہوتے ہیں جس پر ہم یا حکومت تمام تر توجہ مرکوز کرتی ہے اور جہاں ٹارگٹ گروپ ہوتا ہے وہاں طلب بھی ہوتی ہے۔ ٹارگٹ گروپ کی تعداد کے لحاظ سے طلب کا تعین کیا جاتا ہے، لیکن کورونا وائرس کی وباء کے معاملے میں یہ نہیں کیا گیا۔ یہ نہیں دیکھا گیا کہ ویکسین کی جو خوراک ہے، ان کی درکار تعداد کیا ہوگی، یعنی ہماری حکومت نے طلب پر زیادہ توجہ نہیں دی۔ اگر ہم طلب پر توجہ دیتے تو موجودہ بحران پیدا نہیں ہوتا۔ ہم نے یہ بھی نہیں دیکھا کہ ہندوستان میں ٹیکے تیار کرنے والی دو کمپنی سیرم انسٹیٹیوٹ آف انڈیا اور بھارت بائیوٹیک کی گنجائش کیا ہے، اگر دیکھا جائے تو یہ دونوں کمپنیوں کی گنجائش کے بارے میں حکومت کو معلوم ہونا چاہئے۔ جہاں تک گنجائش اور اہم حقائق کا جائزہ لینا کا سوال ہے، اس کیلئے فیکٹری کا معائنہ اور وقفہ وقفہ سے آڈٹ بہت زیادہ اہمیت رکھتی ہے، لیکن ہمارے لئے مشکل ہے کہ ہم نے کوئی فیکٹری معائنہ کیا اور نہ ہی وقفہ وقفہ سے آڈٹ کی۔

ٹیکوں کے بغیر ٹیکہ اندازی
11 جنوری 2021ء کو حکومت نے سیرم انسٹیٹیوٹ آف انڈیا اور بھارت بائیوٹیک کو ویکسین کیلئے آرڈر دیا اور ان دونوں کمپنیوں نے جو پراڈکٹ تیار کیا تھا اور جس کا اسٹاک ان کے ہاں موجود تھا، اس کے ذریعہ ابتدائی طور پر سربراہی انجام دی اور ان سب کیلئے ان لوگوں نے خطرہ مول لیا۔ ان دونوں کمپنیوں کے پاس پروڈکشن بڑھانے کیلئے وقت نہیں رہا۔ ویسے بھی ان دونوں کمپنیوں کو ٹیکوں کی گنجائش بڑھانے کیلئے فنڈنگ کی ضرورت تھی۔ خاص طور پر سیرم انسٹیٹیوٹ آف انڈیا کیلئے فنڈس کی فراہمی بہت ضروری ہے اور افسوس کی بات یہ ہے کہ آج کی تاریخ تک ٹیکوں کی گنجائش بڑھانے کیلئے مالی اعانت منظور نہیں کی گئی۔ 19 اپریل 2021ء کو سپلائی اڈوانسیس کا اعلان کیا گیا، لیکن سپلائی کیلئے پیشگی رقم کی ادائیگی سے گریز کیا گیا۔ یہاں تک کہ رقومات کی منظوری یا پھر گنجائش بڑھانے کیلئے قرض بھی نہیں دیا گیا۔ حد تو یہ ہے کہ ہندوستان میں تیار کردہ ٹیکے کی برآمد کی اجازت مارچ 2021ء تک دی گئی اور سیاسی جماعتوں اور عوام نے اعتراض کیا اور حکومت کے خلاف آواز اٹھائی تو 29 مارچ 2021ء کو برآمدات پر پابندی عائد کی گئی۔ اس وقت تک 5.8 کروڑ ٹیکے برآمد کئے جاچکے تھے۔ چھٹواں اہم نکتہ یہ ہے کہ فائزر ویکسین کے ہنگامی استعمال کی منظوری سے بھی گریز کیا گیا۔ نتیجہ میں فائزر نے اپنی درخواست سے دستبرداری اختیار کی۔ جبکہ 12 اپریل 2021ء کو تیسرے ٹیکے اسپیوٹنک V کے ہنگامی حالات میں استعمال کی اجازت دی گئی اور اس روسی ساختہ ٹیکے کی پہلی کھیپ یکم مئی 2021ء کو سرزمین ہند پہنچی اور آج کی تاریخ تک کسی اور ٹیکے کے استعمال یا ہندوستان میں اس کی درآمد کی اجازت نہیں دی گئی۔ سال 2020ء میں صحت عامہ کی جو اضافی بنیادی سہولتوں کی تخلیق کی گئی تھی، اکتوبر 2020ء کے بعد ہٹا دیا گیا اور پھر مارچ 2021ء میں دوسری لہر کے شروع ہونے کے بعد اسے دوبارہ نصب کیا گیا۔ اس سے جو بچی کچی بنیادی سہولتیں تھی، ان پر دباؤ میں اضافہ ہوا۔ مثال کے طور پر اسپتال بستروں، وینٹیلیٹرس اور آکسیجن ٹینکرس ؍ کنسنٹریٹرس ایسی بنیادی سہولتیں ہیں، جن پر موجودہ حالات میں بہت زیادہ دباؤ پڑا ہے۔ جیسے ہی پہلی لہر میں کمی آئی، ٹسٹوں کی تعداد میں نمایاں کمی دیکھی گئی اور ٹسٹوں کی تعداد میں کمی ہوئی، کورونا وائرس کے نئے متاثرین کی تعداد میں بھی بہت کمی دیکھی گئی۔ یہ ایسے ہی ہیں کہ آپ ایک گھر تعمیر کررہے ہیں، دیواریں تو کھڑی کردیں لیکن چھت نصب نہیں کیا گیا اور سورج کی شعاعوں کے نتیجہ میں ماحول گرم ہوگیا یا پھر جب بارش ہورہی ہے تو چھت سے پانی رسنے لگا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ ہر روز ٹیکہ لینے والوں کی تعداد میں اضافہ ہونے کے بجائے کمی آتی گئی۔ آپ کو جان کر حیرت ہوگی کہ 2 اپریل تک ہمارے ملک میں صرف 42 لاکھ 65 ہزار 157 لوگوں کو ٹیکے دیئے گئے۔ اس طرح اپریل میں یومیہ اوسطاً صرف 30 لاکھ لوگوں کو ٹیکے دیئے گئے۔ مئی میں یومیہ اوسطاً 18.5 لاکھ ٹیکہ لینے والوں کی کمی آئی اور اس کی سب سے اہم وجہ ٹیکہ اندازی پروگرام کا ٹیکوں کی قلت کے نتیجہ میں متاثر ہونا ہے۔

تردید ، تردید مزید تردید
ہنگامی حالات سے نمٹنے کیلئے ہمارے پاس کوئی وسائل نہیں ہیں اور نہ ہی ہم نے کوئی منصوبہ بنا رکھا ہے۔ مثال کے طور پر آکسیجن کے وسائل بڑھانے کیلئے یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا ہمارے پاس کوئی منصوبہ ہے، اس کا جواب نفی میں ہے۔ اسی طرح نائٹروجن ؍ آرگن ٹینکرس کو آکسیجن ٹینکرس میں تبدیل کرنے کے ساتھ ساتھ آکسیجن کے لئے پی ایس اے پلانٹس کی درآمد اور ان کی تنصیب کا بھی ہمارے پاس کوئی منصوبہ نہیں۔ حد تو یہ ہے کہ ہمارے پاس آکسیجن کنسنٹریٹرس اور وینٹیلیٹرس کی درآمد اور ان کا اسٹاک کرنے کیلئے بھی کوئی خاص منصوبہ نہیں تھا۔ حد تو یہ ہے کہ نرسیس اور نیم طبی عملہ کی تعداد میں اضافہ کا منصوبہ بھی ہمارے پاس نہیں تھا۔

ایک اور اہم بات یہ ہے کہ ہمارے ملک میں موجودہ بدترین حالات کے باوجود انفارمیشن، ایجوکیشن اور کمیونیکیشن کا کوئی نیٹ ورک نہیں۔ یہ ایسے بنیادی عناصر ہیں جو صحت عامہ کے شعبہ کو مستحکم کرسکتے ہیں۔ حکومت نے پہلی لہر کے دوران پبلیسٹی کا طریقہ اختیار کیا اور یہ ظاہر کرنے کی کوشش کی کہ ہم نے کورونا وائرس پر قابو پالیا ہے، اس کے خلاف لڑائی جیت چکے ہیں اور جب دوسری لہر آئی تو ہم نے ہر معاملے میں انکار اور تردید کا طریقہ اختیار کیا (مثال کے طور پر یہ بتایا کہ آکسیجن کی کوئی قلت نہیں، ریاستوں کے پاس ٹیکوں کا وافر ذخیرہ موجود ہے) ہماری حکومت نے سچائی کو دفن کردیا اور تمام تر ذمہ داریاں اور الزامات ریاستوں کے سَر تھونپ دیئے ۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ افراتفری پھیل گئی اور لوگوں میں الجھن پیدا ہوگئی اور حکومتی اداروں میں جوابدہی کا تصور ہی غائب ہوگیا۔ اگر دوسرے ملکوں میں ایسا ہوتا تو اس کی سزائیں ذمہ داروں کو بھگتنی پڑتی۔ اب ان تمام حقائق جاننے کے بعد عوام ہی یہ فیصلہ کرسکتے ہیں کہ قصوروار اور خطاوار کون ہیں۔