عوام کے مسائل اور قرنطینہ

   

سُن رہا ہوں پیامِ صبح مگر
ہر طرف یہ غُبار سا کیوں ہے
عوام کے مسائل اور قرنطینہ
ہندوستان میں لاک ڈاؤن اور عوام کا قرنطینہ ایک اہم جز ہے ۔ وائرس سے بچنے کے لیے ہزارہا تدابیر ہورہے ہیں وائرس نے لاکھوں افراد کو بے بس کردیا ہے ۔ کورونا وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے حکومت کے سخت ترین اقدامات کا سب سے زیادہ شکار روزانہ کی اساس پر روزی حاصل کرنے والے عوام ہورہے ہیں ۔ مختلف ریاستوں سے نقل مکانی کر کے روٹی روزی کی تلاش میں آبائی مقام کو ترک کرنے والے آج لاک ڈاؤن کے باعث روزگار سے محروم ہوچکے ہیں ۔ فیکٹریاں بند ہوگئی ہیں کارخانوں کو مقفل کردیا گیا ۔ دکانات بند اور تعمیراتی کام ٹھپ ہیں ۔ ایسے میں غریب مزدور اپنے آبائی وطن کو واپس ہونے کے لیے پیدل سفر کررہے ہیں ۔ ایسے لاکھوں مزدور چھوٹے چھوٹے بچوں ، ضعیف افراد ، خواتین کو لے کر طویل سفر پیدل ہی طئے کررہے ہیں یہ ایسے مناظر ہیں جو ہندوستان کی غربت اور بے بسی کی عکاسی کرتے ہیں ۔ ملک بھر میں کروڑہا افراد اپنے گھروں میں بند ہیں جب کہ لاکھوں مزدور پردیسی اپنے گھر پہونچنے کے لیے جدوجہد کررہے ہیں ۔ ان میں کئی افراد ایسے ہیں جو کوششوں کے باوجود اپنے آبائی وطن نہیں پہونچ سکتے اب حکومت نے لاک ڈاؤن کی خلاف ورزی کرتے ہوئے سڑکوں پر پیدل چلنے والوں کو دو ہفتوں کا قرنطینہ کرنے کا حکم دیا ہے ۔ غریبوں اور مجبور بے سہارا لوگوں کے لیے راحت کے اقدامات کی ضرورت تھی ۔ کورونا وائرس کے خوف و خطرات کے درمیان یہ لوگ چھوٹے چھوٹے بچوں کو لے کر کڑی دھوپ میں اپنی منزل کی طرف بڑھ رہے ہیں ۔ یو پی حکومت کا سخت رویہ بھی سامنے آیا اور اس کی جانب سے بعض اقدامات بھی دیکھے گئے لیکن مزدوروں کو ان کے مقام تک پہونچانے اور انہیں راحت پہونچانے میں ریاستی حکومتیں ناکام ہوگئی ہیں ۔ ہندوستان بھر میں کئی غریب افراد اپنا وطن چھوڑ کر روزی حاصل کرنے کے لیے دیگر مقامات کو منتقل ہوئے ہیں اور یہ رواج پرانا ہے ۔ اس مرتبہ ملک کو کورونا وائرس کی وباء نے گھیر لیا ہے تو ہر ریاست ہر شہر متاثر ہورہا ہے ۔ کاروبار بند ہونے سے روزگار سے محروم ہوچکے ہیں ۔ مرکزی حکومت نے لاک ڈاؤن کا اعلان کرنے سے قبل ان مسائل اور غریبوں کو ہونے والی تکالیف کا جائزہ نہیں لیا اور نہ ہی ان تمام مل مالکین ، صنعتوں اور فیکٹریوں کے ذمہ داروں کو پابند کیا گیا کہ وہ لاک ڈاؤن کے دوران اپنے کسی بھی ورکر کو نہ نکالیں بلکہ ان کی رہائش اور طعام کا انتظام کریں ، مگر ایسا نہیں ہوسکا ۔ اچانک لاک ڈاؤن نے لاکھوں عوام کو سڑک پر لا کھڑا کردیا ۔ اب یہ غریب لوگ سڑکوں پر نکل آئے ہیں تو حکومتوں کو احساس ہونے لگا ہے کہ بہت بُرا ہوا ہے ۔ کئی ریاستی حکومتوں نے ورکرس کو اپنے کام کی جگہ چھوڑ کر نہ جانے کی صلاح دی ہے ۔ بعض ریاستوں میں ان مزدوروں کے لیے کھانے پینے اور قیام کا بھی انتظام کیا گیا مگر ہر کوئی اپنے گھر میں ہی سکون محسوس کرتا ہے چاہے وہ پختہ عمارت ہو یا جھونپڑی ، اس تک پہونچ کر اسی میں رہنے کو ترجیح دیتا ہے ۔ ملک کے موجودہ حالات کتنے دن تک اسی طرح برقرار رہیں گے یہ غیر یقینی بات ہے ۔ مزدوروں کا اس قدر اپنے روزگار کے مقام کو چھوڑ کر واپس ہونے کا عمل تقسیم ہند کے دوران عوام کی نقل مکانی کا منظر پیش کردیا ہے ۔ اس طرح کا لاک ڈاون ہندوستان جسے کثیر آبادی والے ملک کے لیے ایک چیلنج ہے ۔ یہاں کی غریب آبادیاں زیادہ دن تک لاک ڈاؤن کے مصائب کو برداشت نہیں کرپائیں گی لیکن اس کے سواء کوئی چارہ بھی نہیں ہے ۔ کورونا وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے سماجی دوری پیدا کرنا اور انسانوں کو ایک دوسرے سے دور رہنا ضروری ہے ۔ اس ضرورت کے باوجود لاکھوں مزدوروں کا ایک جگہ اکٹھا ہونا بھی خطرے سے خالی نہیں ہے ۔ اسی لیے حکومت نے لاک ڈاؤن کے دوران پیدل چلنے والوں کو دو ہفتوں کے لیے قرنطینہ میں بھیج دینے کا حکم دیا ہے ۔ اب یہ عمل بھی ان مزدوروں کے لیے تکلیف کا باعث ہوگا ۔ سوال پیدا ہوگا کہ آیا قرنطینہ میں دئیے جانے کے بعد ان مزدوروں کی دیکھ بھال اور بہتر طبی نگہداشت کی ذمہ داری کو دیانتداری سے پورا کیا جائے گا یا نہیں ۔ لاک ڈاؤن کا آئیڈیا دراصل چین سے آیا ہے ۔ چین ہی پہلا ملک ہے جہاں کورونا وائرس سے لاکھوں افراد متاثر اور ہزاروں اموات ہوئی ہیں ۔ عالمی تنظیم صحت نے چین کی ستائش کرتے ہوئے کورونا وائرس پر قابو پانے کے لیے اس کے اقدامات کو درست قرار دیا تھا ۔ حکومت ہند کو بھی لاک ڈاؤن پر عمل آوری کے ساتھ اپنے ملک کے عوام کے مسائل اور مشکلات کا بھی خیال رکھنا ضروری ہے ۔ کورونا وائرس سے بچنے کا اہم عمل قرنطینہ ہے اور عوام کو لاحق تمام مسائل کے باوجود انہیں وائرس سے بچنے کے لیے خود کو قرنطینہ کرلینا ہی بچاؤ کا واحد راستہ ہے ۔۔