عید میلادالنبی ﷺ

   

عمدۃ المحدثین حضرت مولانا محمد خواجہ شریف علیہ الرحمہ شیخ الحدیث جامعہ نظامیہ

قال سبحانہ و تعالیٰ ( وَمَا أَرْسَلْنٰكَ إِلَّا رَحْمَةً لِلْعٰلَمِيْنَ) یوم میلاد سب سے زیادہ خوشی و مسرت کا دن ہے اور فضیلت میں سب سے بڑا ہے ۔ جمہور علماء اور علامہ ابن تیمیہ بھی یہی کہتے ہیں کہ میلاد کا دن شب قدر سے افصل ہے ۔ ایسے خوشی اور مسرت کے دن خوشی اور مسرت کا اظہار اور خوشی کی بات اچھی معلوم ہوتی ہے ۔ اﷲ اور اس کے رسول ﷺ کو میلاد کے مبارک موقعہ پر خوشی اور مسرت کا اظہار بہت پسند ہے ۔ اﷲ تعالیٰ کا ارشاد ہے ’’آپ کہہ دیجئے اﷲ کے فضل و رحمت ہی کی وجہ سے لوگ خوشی منائیں‘‘۔ خوشی کے موقعہ پر خوشی کا اظہار فطری چیز ہے اور شریعت کا حکم بھی ہے ۔
دیکھو اب سے چند گھنٹے پہلے رات کی تاریکی کا سناٹا تھا ، حرکت ساری حیات کی بند تھی ، لیکن دیکھتے ہی دیکھتے کیا ہوگیا ۔ چرند پرند سب جاگ گئے ، بلبلیں نغمہ ریز ہوئیں ، چڑیاں چہچہانے لگیں ، ہرنیاں چوکڑیاں بھرنے لگیں اور جنگلوں میں جانور دوڑنے لگے ، تھوڑی دیر میں کیا سے کیا ہوگیا اور کیوں ہوا ! ہر شخص کہہ رہا ہے آفتاب آرہا ہے ، آفتاب آرہا ہے ، یہ سب کچھ اسی کی مسرت میں ہے دنیا اسی کی مسرت میں جھوم رہی ہے ۔ آفتاب جو صرف چند گھنٹوں کیلئے آتا ہے تو کیا روشنی لاتا ہے ؟ روشنی وہ صرف آنکھوں کیلئے لاتا ہے ، دل و دماغ اندھیرے میں ہیں ۔ بند مکان ، بندکمرے ہر بند چیز اندھیرے میں ہی رہتی ہے ۔ خیالات بھی تاریکی میں رہتے ہیں ، باطن تک اس کی روشنی نہیں پہنچ رہی ہے بس اس کی روشنی تو تھوڑی دیر ظاہر کیلئے آتی ہے اور بس ساری دنیا مسرت میں جھومنے لگتی ہے ۔ تو اندازہ کیجئے اس خوشی کا کیا عالم ہوتا ہے جب آفتاب نور ہدایت کی آمد آمد ہے ۔ ان کے نور کو اﷲ تعالیٰ نے سب سے پہلے وجود میں لایا اور ارض و سماء عرش و کرسی لوح و قلم جن و بشر اور کل کائنات کو ان کے نور سے اور ان کی وجہ سے وجود بخشا اور یہ چاند سورج اور یہ سارا عالم جگمگایا ، رب نے تاکید کے ساتھ فرمایا ہے : ’’ہم نے سارے عالموں کیلئے آپ کو سراپا رحمت بناکر بھیجا ہے ‘‘ ۔ کائنات کی ابتداء و انتہاء میں ہر زمان ، ہر مکان میں ، جہاں بھی عالم ہے وہاں آپ ہی رحمت ہیں۔ ایمان والوں کیلئے بھی رحمت ہیں اور ان کے لئے بھی جو آپ کے دشمن ہوئے ، آپ کی مخالفت اور آپ کا انکار کئے اور آپ کے ایذاء کے در پے ہوئے اور ہورہے ہیں ۔ دشمنوں کی حیات و بقاء اور ان کی دنیا کی بہار بھی آپ کی رحمت سے ہے ۔
جب آپ کی میلاد کا مبارک وقت آیا تو عالم کی خوشی کا کیا ٹھکانہ ارض و سماء سے عرش و کرسی تک نباتات و جمادات اور حیوانات سے لیکر جن و بشر اور حور و ملک تک ہرایک کی خوشیوں کا کیا کہنا ۔ سیرت کی کتاب ’’مواہب‘‘ میں ہے کہ ڈوبے ہوئے ستارے نکل آئے زمین کی جانب جھک گئے ۔ مولدالنبی ﷺ میں حوریں اُتر آئیں۔ بی بی آمنہ و مریم بھی آگئیں۔ ہرطرف خوشخبری سناتی ہوئی معطر ہوائیں چلنے لگیں۔ مولدالنبی ﷺ سے ہزاروں میل ملک شام تک روشنی چھاگئی ، آتش پرست ایوان کسریٰ کے ۱۴ کنگرے جھڑگئے ، صنم اوندھے منہ گرگئے ، توحید کا غلغلہ بلند ہوا ۔ گزشتہ زمانوں میں جو قومیں پیغمبروں کو جھٹلاتیں تو ساری قوم کی قوم تباہ کردی جاتی تھی ۔ نوح علیہ السلام کی قوم تباہ ہوئی ، صالح علیہ السلام کی قوم کا نام و نشان نہیں رہا ، ہود علیہ السلام کی قوم ہلاک ہوگئی ۔ دنیا میں ایسا ہی ہوا جب پیغمبر آئے ، ان پر جو ایمان لائے وہ کامیاب ہوگئے ۔ اور جو جھٹلائے وہ عذاب سے دوچار ہوگئے ۔ اور جب سب سے آخر میں سیدالاکوان خاتم النبیین حضور پاک صلی اﷲ علیہ وآلہٖ و سلم تشریف لائے تو اعلان ہوا رحمتہ للعالمین آرہے ہیں ، کفار و مشرکین کیلئے بھی رحمت ہیں ، ان کو جینے کا پورا پورا حق دیا جائے گا کفر و شرک کی وجہ سے ان کو ہلاک نہیں کیا جائے گا ، ان پر گرفت و سزاء کا معاملہ آخرت میں ہوگا ۔ جب تک وہ زمین کے اوپر ہیں خدا کی نعمتوں سے بہرہ مند ہوتے رہیں گے اور فائدہ اُٹھاسکیں گے ۔ یہ رحمت للعالمین کا صدقہ ہے ، آج ان کی میلاد شریف کا دن ہے ۔ خوشی و مسرت کا دن ہے ۔ حضرت شیخ الاسلام بانی جامعہ نظامیہ نوراﷲ مرقدہ لکھتے ہیں کہ میلاد مبارک کے موقعہ پر جو آدمی اظہار خوشی کرتا ہے اس کے گھر میں اس دن کے پھر آنے تک اس کی زندگی میں برکت رہتی ہے ۔ کیوں نہ ہو جب اﷲ تبارک و تعالیٰ خود حکم فرمایا ہے ’’اﷲ کا حکم ہے کہ اﷲ کی رحمت و فضل پر اور اسی کی وجہ سے وہ خوب خوشیاں منائیں۔ قرآن پاک کی اس آیت کی تفسیر میں جمہور مفسرین لکھتے ہیں اس آیت میں فضل و رحمت سے مراد حضور پاک علیہ الصلوٰۃ والسلام ہی مراد ہیں۔
اب یہ سوال رہتا ہے کہ میلاد کیسے منائیں؟ شریعت نے عیدالاضحی و عیدالفطر کا خاص طریقہ مقرر کیا مگر اس کے لئے اور اس طرح کی عیدوں کیلئے خاص طریقہ مقرر نہیں ہوا ۔ اﷲ تعالیٰ کا حکم ’’فَلْيَفْرَحُوْا‘‘ مطلق ہے۔ اس کے ساتھ کوئی قید نہیں ، یہ عید مقیم ، مسافر ، آقا ، غلام ، مرد عورت بڑے چھوٹے ہر ایک کی ہے ۔ مالدار اور تنگدست ، غنی و فقیر ہر ایک کیلئے یکساں ہے اور یہ ایک فطری خوشی ہے ۔ اس لئے مطلق رکھدیا گیا ۔ ہر ایک اپنی وسعت و بساط کے مطابق خوشی منائے۔ ایسے مظاہر خوشی کو اختیار کرے جس سے یہ ظاہر ہو کہ اس کو خوشی ہوئی اور ہورہی ہے ، زینت زیب تن ہو یا انوار و چراغاں ہوں یا اطعام طعام و انفاق ما تیسر ہو یا اپنے قول سے ہو یا اپنے عمل سے ہو ۔بخاری شریف میں ہے ابولہب نے بوقت میلاد اظہار خوشی کرتے ہوئے شہادت کی انگلی سے اشارہ کرتے ہوئے اپنی باندی ثویبہ کو آزاد کیا تھا اور اپنی ساری زندگی اسلام دشمنی اور حضور علیہ وآلہٖ وصحبہ الصلاۃ و السلام کی ایذا رسانی میں گذاری مگر تاقیامت ہر دوشنبہ کو اس کی انگلی میں تراوٹ ملتی ہے جس کو چوسنے سے اس کے عذاب میں تخفیف ہوتی ہے ۔ ایک مرتبہ کی اظہار خوشی سینکڑوں برس کیلئے رحمت بن گئی !! علامہ امام ابن تیمیہ لکھتے ہیں بعض حضرات کو میلاد شریف پر اظہار خوشی سے ثواب ملتا ہے ۔ وہ لکھتے ہیں ’’مسلمان احکام شریعت کا پابند ہے وہ خوشی میں بھی خلاف شریعت کام نہیں کرسکتا ، بلکہ خدا کی نعمت کے شکرانہ میں شریعت کا اہتمام اورزیادہ کرتا ہے ‘‘۔ میلادپاک کے اہتمام کیلئے یہ حدیث شریف کافی ہیکہ رسول اﷲ ﷺ ہر دوشنبہ کو روزہ رکھتے اور فرمایا یہ میری میلاد کا دن ہے ۔
اس مختصر مضمون کا خلاصہ یہ ہے (۱) حضور پاک ﷺ کی میلاد شریف بندوں پر اﷲ تعالیٰ کی سب سے بڑی نعمت ہے ۔ عید میلاد فطری ہے ۔ جب کسی خوشی کے موقعہ پر خوشی کا اظہار فطرت کا تقاضہ ہے تو میلاد شریف سب سے بڑی خوشی کا موقعہ ہے۔(۲) عیدمیلاد امر شرعی ہے اور شریعت میں مطلوب ہے ۔ (۳) رسول اﷲ ﷺ یوم میلاد کی تعظیم اور اس کا ہمیشہ اہتمام فرماتے اور اسی لئے ہر دوشنبہ کو روزہ رکھتے ۔ (۴) اﷲ تعالیٰ کی نعمتوں کے نزول اور زمانے کے حوادث کے مواقع پر اس کا تذکرہ اور یاد شرعی امر ہے ۔ حضور پاک ہر دوشنبہ کو روزہ رکھتے اور یوم عاشورہ کو روزہ رکھتے ۔ (۵) اﷲ نے صلوٰۃ و سلام کا حکم فرمایا ہے اس کا مفہوم یہ ہے کہ رسول اﷲ ﷺ کی شان و عظمت اور عیب سے آپ کی پاکی ہر وقت بیان کی جاتی رہے ۔ میلاد شریف اور جلسہ ہائے سیرت کا اہتمام ہر وقت کیا جاسکے گا ۔ (۶) مسلم شریف اور ابوداؤد شریف میں ہے جمعہ کی فضیلت کے اسباب میں ہے کہ حضور سیدنا آدم علیہ السلام اس دن پیدا ہوئے تھے تو حضور کی میلاد کا دن سب سے افضل ہوا ۔ (۷) حضور پاک ﷺ کی میلاد کا ذکر عہد صحابہ میں موجود ہے ۔ موجودہ شکل کے جلسے نہ بھی ہوئے ہوں مگر صحابہ میلاد و سیرت کے واقعات بیان کرتے رہے ہیں ، واقعات کثرت سے ہیں ۔ (۸) علامہ شیخ ابن تیمیہ کا قول ’’کتاب منھج السلف للسید محمد المالکی‘‘ میں ہے کہ رسول اﷲ ﷺ کی محبت و تعظیم میں میلاد کا اہتمام کرنا اس میں اجر عظیم ہے ۔ (۹) مسند دارمی اور ترمذی شریف کتاب المناقب باب فی فضل النبی ﷺ میں ہے صحابہ رضی اﷲ عنھم حضور صلی اﷲ علیہ وآلہٖ و سلم کا انتظار کرتے ہوئے بیٹھے اور انبیاء علیھم السلام کا ذکر کررہے تھے ، حضور ﷺ تشریف لائے اور اپنے فضائل بیان فرمائے ۔ (۱۰) میلاد شریف کا اہتمام مختلف طور طریق سے ہر دور میں رہا ہے ۔ بخاری شریف کی متعدد احادیث میں ہے حضور علیہ وآلہٖ الصلاۃ والسلام جب کسی سفر سے تشریف لاتے صحابہ رضی اﷲ عنھم خوشی و مسرت میں نغمے اور اناشید پڑھتے۔
وما توفیقی الا باﷲ وصلی اﷲ تعالیٰ و سلم علیہ و آلہٖ و اصحابہ و محبیہ و تبعھم اجمعین۔