غزہ جنگ: امریکی حکام کی عرب کمیونٹی قائدین سے ملاقات

,

   

نیویارک : امریکی اعلٰی حکام ریاست مشی گن میں صدر جو بائیڈن کے ناقد عرب اور مسلمان کمیونٹی کے رہنماؤں سے ملاقات کریں گے جو غزہ میں مستقل جنگ بندی کا مطالبہ نہ کرنے کی حکومتی پالیسی پر تنقید کرتے آئے ہیں۔خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق مسلمان کمیونٹی کے رہنماؤں سے ملاقات کرنے والے وفد میں امریکی ایجنسی برائے ڈیولپمنٹ ایڈمنسٹر سمانتھا پاور، وائٹ ہاؤس کے عہدیدار سٹیو بینجمن اور ان کے نائب جیمی سٹرن کے علاوہ دیگر حکام شامل ہیں۔خیال رہے کہ امریکہ میں صدارتی انتخابات 5 نومبر کو متوقع ہیں اور ریاست مشی گن انتخابی مہم کا گڑھ سمجھتی جاتی ہے۔جنوب مشرقی ریاست مشی گن کی مسلمان کمیونٹی کے رہنماؤں نے چند ہفتے قبل جو بائیڈن کی مہم چلانے والے حکام سے ملنے سے انکار کر دیا تھا۔مسلمان رہنماؤں کا کہنا ہے کہ وہ صرف اس صورت میں پالیسی سازوں کے ساتھ ملاقاتیں کریں گے کہ غزہ پر اسرائیلی حملے بند کیے جائیں اور فلسطینیوں تک امداد پہنچائی جائے۔منگل کو ریاست مشی گن سے منتخب ہونے والے 30 سے زائد عہدیداروں کا کہنا تھا کہ وہ 27 فروری کو ہونے والے ڈیموکریٹک پرائمری انتخابات میں جو بائیڈن کی غزہ جنگ پالیسی کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے کسی بھی امیدوار کو ووٹ نہیں ڈالیں گے جبکہ دیگر کا کہنا ہے کہ نومبر میں صدارتی انتخابات کے دوران وہ جو بائیڈن کے حق میں ووٹ نہیں دیں گے۔بائیڈن انتظامیہ کے مطابق مسلمان رہنماؤں کے ساتھ ملاقاتیں 7 اکتوبر کو جنوبی اسرائیل پر حماس کے حملوں کے بعد سے کمیونٹی رہنماؤں اور منتخب عہدیداروں کے ساتھ ہونے والے رابطوں کا حصہ ہیں۔امریکی حکومت کا مؤقف رہاہے کہ وسیع جنگ بندی سے حماس کو فائدہ پہنچے گا تاہم حماس کے ہاتھوں یرغمال بنائے گئے افراد کی رہائی اور غزہ کے رہائشیوں میں امداد کی تقسیم کے لیے لڑائی میں محدود تعطل کا مطالبہ کیا ہے۔امریکی عرب چیمبر آف کامرس کے بانی اور چیئرمین احمد چیبانی کا کہنا ہے کہ کمیونٹی کے رہنماؤں میں تشویش پائی جاتی ہے اور امریکی انتظامیہ کے حکام کو ان سے بہت پہلے رابطہ کرنا چاہیے تھا۔احمد چیبانی نے جو بائیڈن کے حق میں ووٹ نہ ڈالنے کے حوالے سے کہا کہ کہ مسلمان کمیونٹی کا یہ فیصلہ اب واپس نہیں ہو سکتا اور نہ ہی 30 ہزار فلسطینیوں کی لاشوں کو چھپایا جا سکتا ہے۔گزشتہ سال 7 اکتوبر کو حماس کے اسرائیل پر حملے کے جواب میں کم از کم 27 ہزار 585 فلسطینی ہلاک ہو چکے ہیں جبکہ ہزاروں کے حوالے سے یہ خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ وہ ملبے تلے دبے ہوئے ہیں۔