غزہ پٹی میں اسرائیلی قیامت رکنے والی نہیں

   

ظفر آغا
غزہ پٹی میں قیامت بپا ہے۔ وہ بھی قیامت کبریٰ۔ اگر فلسطینی باشندے اسپتال میں بھی محفوظ نہیں تو پھر وہ اسپتال میں اسرائیلی حملے کو ایک قیامت سے کم کیا سمجھے گا۔ تب ہی تو غزہ پٹی میں بسے تقریباً 20 لاکھ فلسطینیوں پر ہر روز ایک قیامت ہی گزرتی ہے۔ اس جنگ میں بھلے ہی پہلے دو تین روز اسرائیلی ہلاکتیں زیادہ رہی ہوں، لیکن پچھلے چند دنوں میں سینکڑوں نہیں ہزاروں کی تعداد میں فلسطینی مارے گئے ہیں۔ حماس کے حملے کے جواب میں اسرائیلی فوج نے غزہ پٹی کی ناکہ بندی کر دی ہے۔ فلسطینی آب و دانہ اور دواؤں تک سے محروم ہیں۔ اسرائیل کی حکمت عملی یہ ہے کہ فلسطینی آیا اسرائیلی حملے کا شکار ہوں اور جو بچیں وہ بھوک و پیاس سے سسک سسک کر مر جائیں۔ اور فی الحال غزہ پٹی میں یہی ہو رہا ہے۔
لیکن سوال یہ ہے کہ حماس نے اسرائیل پر حملہ کر فلسطینیوں کی موت کا بازار گرم کیوں کیا! اب یہ عیاں ہے کہ حماس کا مقصد یہ تھا کہ پچھلے کوئی بیس برسوں میں جس طرح ساری دنیا مسئلہ فلسطین بھول گئی اس کو ایک بار پھر سے دنیا کو یاد دلا دو۔ حماس اپنے اس مقصد میں کامیاب ہے۔ اب مسئلہ فلسطین ساری دنیا کی حکومتوں اور ہر ملک کے میڈیا میں بطور ایک مسئلہ کے چھایا ہوا ہے۔ عالم یہ ہے کہ امریکی صدر جو بائڈن بھاگے بھاگے اسرائیل پہنچے۔ کھل کر اسرائیل کی حمایت کا اعلان کیا۔ لیکن ساتھ میں یہ بھی طے کروا دیا کہ غزہ پٹی میں چند دنوں میں بیس ٹرک سامان مصر کے راستے پہنچے گا۔ فیصلہ ہو گیا اور اقوام متحدہ کی نگہبانی میں جلد از جلد 20 ٹرک سامان غزہ پٹی جانا شروع ہو جائے گا۔ یعنی سپر پاور امریکہ کو پھر سے مسئلہ فلسطین یاد آ گیا اور وہاں بھی اس مسئلہ کو حل کرنے کی بات شروع ہو گئی۔
حماس کی دوسری بڑی کامیابی یہ ہے کہ اور تو اور کم و بیش سارے کے سارا اسلامی ملک جو مسئلہ فلسطین کو بھول چکے تھے اور وہاں کے عوام میں بھی فلسطین کوئی ایشو نہیں رہ گیا تھا، انھیں مسئلہ فلسطین یاد آ گیا۔ عرب ممالک میں عوام کا سڑکوں پر پھوٹا غصہ اس بات کی دلیل ہے کہ اب کوئی بھی اسلامی ملک فلسطین کو بھول کر اسرائیل کی حمایت نہیں کر سکتا ہے۔ حماس کے اسرائیل پر حملے سے قبل خبریں آرہی تھیں کہ کچھ اہم عرب ممالک اسرائیل کے ساتھ ڈیل کرنے والے تھے۔ اب یہ ان کے لیے ایک لمبی مدت تک ناممکن ہو گیا۔ اس کے بجائے تمام مسلم ممالک اب جنگ بندی کے ساتھ حماس کو مدد پہنچانے کی بات کر رہے ہیں۔ اگر اسرائیل پر حملہ نہیں ہوا ہوتا تو پھر فلسطین ختم اور اسلامی ممالک میں اسرائیل دندناتا پھر رہا ہوتا۔ کیا یہ حماس کی کامیابی نہیں! اس کا فائدہ ایران کو بھی ہوا کیونکہ ایران عرب ممالک میں ایک بار پھر الگ پڑ جاتا۔ ابھی مشکل سے تین ماہ قبل چین کی نگہبانی میں ایران، سعودی عرب اور چند اور عرب ممالک میں سفارت خانے کھولے تھے اور عرب دنیا میں پھر سے ایران کے راستے کھولے تھے وہ پھر بند ہو سکتے تھے۔
لیکن ان تمام باتوں کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ اسرائیل غزہ پٹی کے فلسطینیوں پر جو چاہے ظلم ڈھاتا رہے۔ سب سے پہلے اسرائیل۔حماس جنگ بند ہونی چاہیے۔ ساری دنیا کو مل کر اسرائیل پر دباؤ ڈالنا چاہیے کہ جلد از جلد حماس کے ساتھ گفتگو شروع کر مسئلہ فلسطین کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ختم کرے۔ مسلم ممالک کا یہ فرض بنتا ہے کہ اسرائیل حماس کے ساتھ مل کر مسئلہ فلسطین کو مستقل طور پر ختم کرے۔ مگر اسرائیل تو اسرائیل ٹھہرا۔ اس کی عالمی حکمت عملی فلسطینیوں کے خلاف جارحیت جاری رکھنا ہے۔ اس فلسطین مخالف جارحیت کو امریکہ کی سرپرستی میں پوری حمایت حاصل ہے۔ اسرائیل نہ بدلا ہے اور نہ بدلے گا۔ تو کیا غزہ پٹی میں اسرائیلی فوج نے جو قیامت ڈھا رکھی ہے وہ جاری رہے گی۔ تمام تر قربانیوں کے باوجود فلسطینیوں پر اسرائیلی قیامت جاری رہے گی۔