غصہ پر قابو پانے کے طریقے

   

جوہر عقل کا چور ’’غصہ‘‘ ہے۔ دراصل عقلیت اور جذباتیت دو متضاد حقیقتیں ہیں۔ غصہ جذباتیت کا آخری اسٹیج ہے، اس کو عقل کا چور قرار دیا گیا ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ یہ دونوں ایک ساتھ جمع نہیں ہوسکتے۔ جہاں عقل ہوگی، وہاں غصہ نہیں ہوگا اور جہاں غصہ ہوگا، وہاں عقل نہیں ہوگی۔ غصہ ایک حد تک برا نہیں، لیکن اس حد سے آگے برا ہے۔ اب رہا یہ سوال کہ اس کی حد کیا ہے؟ تو یاد رکھئے غصہ کی آخری حد اظہار ناراضگی اور دفاع ہے۔ اس سے آگے جذباتیت ہے، جو بری چیز ہے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو جب غصہ آتا تو آپﷺ کا چہرہ مبارک سرخ ہو جاتا تھا، جو آپﷺ کی ناراضگی کا غماز ہوتا، بس۔ تاہم برا بھلا کہنا تو بہت دور کی بات ہے، آپ کسی کو ڈانٹ ڈپٹ تک نہ فرماتے۔ غصہ سے بچنے کی کچھ تدبیریں ہیں، اگر ان میں سے کوئی تدبیر کرلی جائے تو غصہ سے بچنا آسان ہو جاتا ہے۔
پہلی تدبیر یہ ہے کہ غصہ آئے تو تعوذ یعنی ’’اعوذ باللہ من الشطٰین الرجیم‘‘ پڑھ لیا جائے، اس سے بندہ اللہ کی پناہ میں آجاتا ہے، کیونکہ غصہ کا ناروا استعمال شیطانی عمل ہے۔
دوسری تدبیر یہ ہے کہ غصہ آئے تو فوراً وضوء کرلیا جائے۔ غصہ ایک طرح کی آگ ہے، جو جذبات سے بھڑکتی ہے اور آگ پانی سے بجھتی ہے، اس طرح غصہ ٹھنڈا ہو جائے گا۔
تیسری تدبیر یہ ہے کہ اگر کھڑا ہو تو بیٹھ جائے اور بیٹھا ہو تو لیٹ جائے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پردہ فرمانے کے بعد حضرت ابوذر غفاری رضی اللہ تعالی عنہ ’’رِبذہ‘‘ کے مقام پر جا ٹھہرے، جہاں آپ کی کچھ زمین تھی، جس پر کاشت کاری کرلیا کرتے تھے۔ ان کی عمر کا آخری دور تھا، وہاں سے دو تابعی حضرات کا گزر ہوا، جن میں سے ایک صاحب حضرت ابوذر غفاری رضی اللہ تعالی عنہ کو جانتے تھے۔ انھوں نے اپنے ساتھی سے کہا: ’’صحابہ کرام دنیا سے اٹھتے جارہے ہیں، بہت کم صحابہ اب دنیا میں باقی ہیں۔ دیکھو! وہ حضرت ابوذر غفاری نظر آرہے ہیں، آؤ چلیں ان سے ملاقات کا شرف حاصل کریں‘‘۔ یہ دونوں حضرات ملاقات کے لئے آگے بڑھے تو دیکھا کے منڈیریں بنی ہوئی ہیں، جہاں سے کیاریوں میں پانی جا رہا ہے۔ یہ حضرات ان منڈیروں پر سے گزرنے لگے تو ایک جگہ منڈیر ٹوٹ گئی اور پانی دوسری طرف بہنے لگا۔ اتنے میں ان حضرات نے دیکھا کہ حضرت ابوذر غفاری رضی اللہ تعالی عنہ اچانک بیٹھ گئے اور پھر لیٹ گئے، یہاں تک کہ کیچڑ میں لت پت ہو گئے۔ ان حضرات کو خیال ہوا کہ شاید طبیعت خراب ہو گئی ہے یا ضعیفی کی وجہ سے دماغی توازن بگڑ گیا ہے، لیکن جب ملاقات کی تو حضرت بالکل نارمل تھے۔ ان حضرات نے بیٹھ جانے اور لیٹ جانے کی وجہ پوچھی تو فرمایا: ’’تم نے میری منڈیر توڑدی تو مجھے غصہ آگیا تھا۔ میرے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ ’’جب تم میں سے کسی کو غصہ آجائے اور وہ کھڑا ہو تو بیٹھ جائے اور بیٹھا ہو تو لیٹ جائے‘‘۔ میں کھڑا تھا، بیٹھ گیا اور پھر بھی میرا غصہ کم نہ ہوا تو میں لیٹ گیا‘‘۔ اس واقعہ سے یہ ثابت ہوا کہ صحابہ کرام رضوان اللہ تعالی عنہم اجمعین، حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات پر من و عن عمل کرتے تھے۔
چوتھی تدبیر یہ ہے کہ موقع سے ہٹ جائے اور اس کے سامنے نہ رہے جس پر غصہ آرہا ہو۔
پانچویں تدبیر یہ ہے کہ یوں سوچے کہ میرے اعمال کی وجہ سے اللہ تعالی کو مجھ پر اس سے زیادہ غصہ آتا ہوگا۔ وہ مجھے معاف کر رہا ہے، لہذا میں بھی اس کو معاف کردوں۔
یعنی غصہ پر قابو پانے کے لئے بڑے صبر و تحمل کی ضرورت ہوتی ہے، اس لئے صبر و تحمل سے کام لینا چاہئے، جو سنت نبوی ہے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو آپ کے دشمنوں نے کیسی کیسی اذیتیں پہنچائیں، مگر آپﷺ نے ہمیشہ بڑے صبر و تحمل سے کام لیا اور کبھی اپنی ذات کے لئے کسی سے انتقام نہ لیا۔ ایک مرتبہ ایک یہودی کو مسجد نبوی میں مہمان کی حیثیت سے ٹھہرایا گیا۔ وہ رات کو وہاں بول و براز کرکے بھاگ گیا۔ صبح فجر سے پہلے جب حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام مسجد میں آئے تو دیکھا کہ مسجد میں نجاست پڑی ہوئی ہے۔ صحابہ کرام کو بڑا غصہ آیا، مگر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’غصہ نہ کرو، پانی لاؤ، تاکہ پانی ڈال کر مسجد کو دھو دیا جائے‘‘۔ اِدھر مسجد دھوئی جا رہی تھی، اُدھر اس بھاگے ہوئے مہمان کو یاد آیا کہ وہ اپنی تلوار مسجد نبوی میں بھول آیا ہے۔ سوچا ابھی اندھیرا ہے، لہذا جلدی سے جاکر اپنی تلوار لے آؤں۔ آیا تو دیکھا مسجد دھوئی جا رہی ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی نظر جب مہمان پر پڑی تو آپﷺ نے یہ تک نہ کہا کہ ’’تم نے یہ کیا حرکت کی ہے؟‘‘۔ اس سے صرف اتنا فرمایا کہ ’’تم اپنی تلوار بھول گئے ہو، اسے لے جاؤ‘‘۔ غور فرمائیں! کیا صبر و تحمل کی اس سے اعلی کوئی مثال ہو سکتی ہے؟۔
حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا: ’’مجھے اللہ کے غضب سے کونسی چیز بچا سکتی ہے؟‘‘۔ آپﷺ نے فرمایا: ’’دوسروں پر غصہ کرنا چھوڑدو، اللہ کے غضب سے محفوظ رہوگے‘‘۔
حضرت سیدنا امام حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا بہت مشہور واقعہ ہے کہ غلام کے ہاتھ سے آپ پر گرم گرم آش کا پیالہ گرگیا۔ آپ نے مڑکر دیکھا تو غلام نے خوف زدہ ہوکر عرض کیا: ’’والکاظمین الغیظ‘‘ (غصہ کو پی جانے والے) آپ نے فرمایا: ’’میں نے غصہ پی لیا‘‘۔ غلام نے کہا: ’’والعافین عن الناس‘‘ (لوگوں کو معاف کرنے والے) آپ نے فرمایا: ’’میں نے معاف کیا‘‘۔ پھر غلام نے کہا: ’’واللہ یحب المحسنین‘‘ (اللہ تعالیٰ احسان کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے) حضرت نے فرمایا: ’’جا، میں نے تجھ کو آزاد کیا‘‘۔
حضرت مرزا جانِ جاناں رحمۃ اللہ علیہ کی اہلیہ محترمہ بڑی تند خو تھیں، ہر وقت حضرت سے لڑتی جھگڑتی رہتی تھیں۔ ایک روز ان کا ایک پٹھان مرید پشاور سے دہلی حضرت سے ملنے کے لئے آیا۔ حضرت کے دولت کدے پر پہنچ کر حضرت کے بارے میں پوچھا تو اندر سے بڑے تند لہجے میں حضرت کی اہلیہ محترمہ نے فرمایا: ’’وہ گھر میں کہاں ٹکتے ہیں، پڑے ہوں گے مسجد میں‘‘۔ مرید کو یہ سن کر غصہ تو بہت آیا، مگر صبر و تحمل سے کام لے کر مسجد پہنچ گیا۔ حضرت واقعی مسجد میں تشریف فرما تھے۔ ملاقات کے بعد مرید نے پیرانی صاحبہ کی تند مزاجی کی شکایت کی تو حضرت نے فرمایا: ’’میاں! ہم تو ہر روز ان سے ایسی باتیں سنتے ہیں۔ سچ پوچھو ان کی ان ہی باتوں پر صبر کرکے ہم اس مقام تک پہنچے ہیں‘‘۔ (اقتباس)