غیریقینی مستقبل کی طرف پیشقدمی

   

پی چدمبرم
(سابق مرکزی وزیر داخلہ و فینانس)

معزز سپریم کورٹ ( عدالت عظمیٰ ) کا فیصلہ قانون قرار دیا گیا ہے ۔ یعنی سپریم کورٹ جو بھی فیصلہ کرتی ہے وہ قانون قرار دیا جاتا ہے اور اس کے فیصلہ کو ماننا یا تسلیم کرنا تمام ہندوستانی شہریوں کیلئے لازم ہے ۔ اس لئے ہمارے ملک کی سب سے بڑی عدالت کا فیصلہ انتہائی قابل احترام اور تسلیم کئے جانے کا حقدار ہے ۔ آپ کو بتادوں کے 10 ڈسمبر 2023 ء کو عدالت کی ایک آئینی بنچ نے ایک متفقہ فیصلہ سناتے ہوئے دستور کی دفعہ 370 کی منسوخی کو برقرار رکھا ( اس دفعہ کے تحت ریاست جموں و کشمیر کو خصوصی درجہ حاصل تھا ) عدالت عظمیٰ نے یہ فیصلہ سنادیا کہ سابق ریاست جموںو کشمیر اب خصوی موقف اور درجہ کی حامل نہیں رہی اسے خصوصی حیثیت حاصل نہیں رہی ہے ۔ سپریم کورٹ نے اس امر کی نشاندہی بھی کی کہ دستور کی دفعات مرحلہ وار تھیں مثال کے طورپر 1950 اور 2011 ء کے درمیان مرحلہ وار تھیں ان دفعات بالخصوص دفعہ 370 کے ذریعہ ریاست کو خصوصی درجہ عطا کیا گیا تھا اور اسے ( دفعہ 370) کو مودی حکومت نے منسوخ کیا جبکہ سپریم کورٹ نے اس ضمن میں یہ کہتے ہوئے دفعہ 370 کی منسوخی سے متعلق حکومت کے فیصلہ کو برقرار رکھا کہ یہ ایک عارضی انتظام تھا ۔
سپریم کورٹ کا دستوری بنچ اس مقدمہ میں جن وجوہات کی بناء حتمی نتیجہ یا فیصلہ پر پہنچا وہ منطقی معلوم ہوتا ہے ۔ ہاں اس میں کوئی شک نہیں کہ رائے مختلف بھی ہوسکتی ہے ۔ لیکن ہمیں دفعہ 370 کی منسوخی کے اُن دیگر پہلوؤں کو نظرانداز نہیں کرنا چاہئے جو پریشان کن ہیں۔ مثال کے طورپر مرکزی حکومت نے پارلیمنٹ کے ذریعہ جس طرح کے اقدامات کئے ملک کی وفاقیت اور ریاستوں کے حقوق پر اس کے مضر اثرات کے ساتھ ساتھ حکومتی اقدامات کی قانونی حیثیت ایسے پہلو ہیں جن پر غور کرنا ضروری ہے۔ آج اگر عدالت عظمیٰ 370 کی برخواستگی سے متعلق فیصلہ برقرار رکھتی ہے تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ مستقبل میں اس فیصلہ کے اثرات دوسری ریاستوں پر بھی مرتب ہوں گے ۔
آخر عدالت نے کیا حکم دیا ؟
اگر ہم عدالت کے فیصلہ کا جائزہ لیں تو پتہ چلتا ہے کہ عدالت کا فیصلہ تین اہم نتائج پر مشتمل تھا :
۱۔ مرکزی حکومت نے جو طریقہ کار اپنایا وہ دستور کی دفعہ 368 سے بالاتر ہے یعنی مرکز نے اپنے قانونی اختیارات اور اتھارٹی سے بالاتر ہوکر استعمال کیاہے ۔ دستور کی ایک شق میں ترمیم صرف ایک طریقے سے کی جاسکتی ہے ۔ دفعہ 368 کا سہارا لیکر اور ضروری خصوصی اکثریت کے ساتھ پارلیمنٹ میں دستوری ترمیمی بل منظور کرکے جموں و کشمیر کے معاملہ میں مرکزی حکومت نے دفعہ 370(1)(d) کو دفعہ 367 (تشریحی شق) میں شق4 کا اضافہ کرنے کیلئے استعمال کیا اور دستور سازی کے الفاظ کیلئے ’’ریاست‘‘ کی قانون ساز اسمبلی کے الفاظ تبدیل کردیئے ۔ ریاستی اسمبلی نے دفعہ 370(3) کی شرط میں اور آرٹیکل 370 کی منسوخی کیلئے ترمیم شدہ دفعہ 370(3) کی شرط میں اور آرٹیکل 370 کی منسوخی کیلئے ترمیم شدہ دفعہ 370(3) کا استعمال کیا ۔
برائے مہربانی یہ ضرور پڑھیں کہ پیچیدہ عمل کو غیرقانونی قرار دیا گیا ہے اس کے پیچھے سپریم کورٹ کی وجوہات کیا ہیں ۔ پیرا 389 میں کچھ یوں لکھا گیا ہے : خاص اصطلاحات کی تعریف و تشریح یا اس کے معنی اور مطلب بیان کرنے کیلئے تشریحی شق استعمال کی جاسکتی ہے اسے نظرانداز کرکے کسی شق میں ترمیم کرنے کیلئے Deploy نہیں کی جاسکتی ۔
پیرا 400 … مادھو راؤ سندھیا کیس میں اس عدالت نے پرزور انداز میں کہاکہ دفعہ 366(22) کے تحت اختیارات کا استعمال کسی بھی Colletral مقصد کیلئے نہیں کیا جاسکتا۔ دفعہ 368 کے تحت طریقہ کار کو ختم کرنے کیلئے دفعہ 370(1) (d) اور 367 کو Colletral مقصد کیلئے استعمال نہیں کیا جاسکتا ۔ دفعہ 370 میں ترمیم کو غیرآئینی قرار دینے کے باوجود عدالت نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ دفعہ 370(1)(d) کے تحت ایک اعلامیہ کے ذریعہ آرٹیکل 370 کو منسوخ کرنے کے عمل کو آگے بڑھایا گیا ۔ ( اس عمل کے ریاستوں اور وفاقیت پر یقینا اثرات مرتب ہوں گے ) ۔
اس کے علاوہ دفعہ 370 (1) (d) کی دوسری شرط کے تحت ریاستی حکومت کی رضامندی کی ضرورت پر عدالت کا کہنا تھا کہ یہ ضروری نہیں ہے ۔ بہرحال موخرالذکر نتیجہ کی درستگی قابل بحث ہے ۔ یعنی اس پر بحث ہونی چاہئے۔
.2 مسئلہ کو کھلا چھوڑدیا گیا : عدالت کو اس سوال کا جائزہ لینا چاہئے تھا کہ ایک ریاست کو دو مرکزی زیرانتظام علاقوں میں تقسیم کرنے کیلئے دفعہ 3 کا سہارا لینا آیا غیرقانونی تھا؟ تاہم عدالت نے اس معاملہ پر فیصلہ دینے سے انکار کیا کیونکہ مرکزی حکومت کے وکیل نے عدالت میں دلیل پیش کی تھی کہ حکومت جموں و کشمیر کو حاصل رہے ریاست کے درجہ کو بحال ( لداخ مرکزی زیرانتظام علاقہ کے بغیر ) کرنے اور انتخابات منعقد کرنے کا ارادہ رکھتی ہے ۔ چنانچہ عدالت نے سرکاری وکیل کے دلائل کو قبول کرتے ہوئے ’’غیرقانونی ‘‘ ہونے سے متعلق سوال کا جائزہ لینے سے انکار کردیا ۔ اس طرح اس نے ایک مناسب مقدمہ کیلئے اسے ( سوال کو ) چھوڑ دیا ۔
اس مقدمہ کی ایک اور اہم بات یہ ہے کہ سپریم کورٹ نے اگرچہ دفعہ 370 کی منسوخی کو برقرار رکھا لیکن مرکزی حکومت کو 30 ستمبر 2024 ء سے پہلے ریاست جموں و کشمیر میں اسمبلی انتخابات کروانے کی ہدایت دی ۔ تاہم عدالت نے جموںو کشمیر کو حاصل ریاست کا درجہ بحال کرنے کیلئے کوئی مدت یا مہلت مقرر نہیں کی ۔ ویسے بھی ریاست کا درجہ بحال کئے جانے کے بعد ہی انتخابات منعقد کروائے جاسکتے ہیں۔
.3 آپ کو بتادیں کہ جموںو کشمیر میں 19 ڈسمبر 2018 ء سے صدرراج نافذ ہے ایسے میں تیسرا مسئلہ ( جس کا فیصلہ نہیں کیا گیا ) بہت ہی پریشان کن ہے کیونکہ دستور کی دفعہ 3 کے تحت جب تک صدر ریاستی مقننہ کے خیالات کا جائزہ نہیں لیتے تب تک پارلیمنٹ میں ریاست کے علاقہ کے تعین ، نئی ریاست کی تشکیل یا مرکزی زیرانتظام علاقہ کا قیام عمل میں لانے کو بل پیش نہیں کیا جاسکتا ۔
چونکہ جموں وکشمیر میں صدر راج نافذ ہے ایسے میں تمام اختیارات اور ریاستی مقننہ کے افعال پارلیمنٹ کے پاس ہیں ۔ ریاستی مقننہ کے خیالات کی جگہ پارلیمنٹ کے خیالات یا رائے لی ہے ۔ صدر نے ( وزیراعظم کے مشورہ پر ) پارلیمنٹ سے مشاورت کی اور پارلیمنٹ نے ریاستی مقننہ کے خیالات ظاہر کئے حالانکہ یہ عجیب ہے بلکہ پارلیمنٹ کی عجیب دوہری کارروائی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ پارلیمنٹ نے ریاست جموں و کشمیر کو دو مرکزی زیرانتظام علاقوں میں تقسیم کردیا یعنی لداخ اور جموںو کشمیر میں ۔