فاختاؤں کے بھی کردار عقابوں والے

   

محمد عثمان شہید ،ایڈوکیٹ

زندہ رہنے کی تمنا ہو تو ہوجاتے ہیں
فاختاؤں کے بھی کردار عقابوں والے
رضیہ سلطان، چاند بی بی، جھانسی کی رانی، اندرا گاندھی، مارگریٹ تھیاچر، بے نظیر بھٹو اور دیگر سریر آرائے سلطنت تھے۔ اکیسویں صدی میں ایک انقلاب آیا کہ 18 تا 19 سال کی لڑکی مسکان خان آبروئے ملت اسلامیہ مرحوم بن کر اُبھری۔ اس کو خود اور قوم کو زندہ رکھنے کی تمنا ہے۔ اس لئے اس نے جرأت کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنا مقام عقابوں میں بنالیا۔ مرحبا مسکان مرحبا! آئے جان ہندوستان مرحبا! موجودہ حالات کے اندھیروں میں کم از کم ایک شمع کی ضرورت تھی جو اللہ نے پوری کردی۔ اپنے کردار کی شمع کی روشنی سے ایسا اُجالا کیا۔ واہ رے مسکان خاں! تو نے بہادری، حوصلہ جرأت مندی کی نئی داستان لکھ دی جو روز قیامت تک یاد رکھی جائے گی۔ کئی سو غیرسماجی عناصر کے مشتعل ہجوم کے سامنے جو ’’جئے شری رام‘‘ کا نعرہ لگا رہا تھا، اس کی جگہ ایک کمزور، بے سہارا، بے یارو مددگار لڑکی کا اللہ اکبر کا نعرہ لگانا بجائے خود انقلابی اقدام ہے جو قوم کو بیدار کرتا ہے بلکہ انسانیت کو جگاتا بھی ہے۔
برقعہ کا استعمال ایک اخلاقی مسئلہ ہے بلکہ ایک شرعی مسئلہ بھی ہے۔ آج یہ مسئلہ دستوری و قانونی بلکہ فرقہ وارانہ شکل اختیار کرگیا ہے۔ کچھ فرقہ پرست تنظیموں نے اپنی سیاسی دوکان چمکانے اور واہ واہی بٹورنے کیلئے اس چنگاری کو ہوا دی ہے تاکہ ہندوستان نفرت کی بنیاد پر تقسیم ہوجائے اور بلاآخریہ لوگ قیادت کی کرسی پر فائز ہوجائیں۔ ایسا واقعہ صرف ہٹلر کے زمانہ میں پیش آیا تھا جبکہ نازیوں نے یہودیوں کے ساتھ ایسا نفرت کا سلوک کیا کہ پہلی جنگ عظیم نے جنم لیا۔ کیا نفرت کی ہوا کو تیز کرنے والی تنظیمیں یہی چاہتی ہیں؟ یقینا کچھ تنظیمیں ہندوستان کے اتحاد، محبت، بھائی چارگی، ایکتا کی بقاء چاہتی ہیں اور ان کے سینکڑوں بلکہ ہزاروں کارکنوں پر ایک لڑکی بازی لے گئی۔ جب جان کو عزت و آبرو کو خطرہ لاحق تھا، اس کے جگر نے ہمت دکھائی۔ اللہ اکبر کے نعرہ کے ساتھ ہی شاید فرشتوں کی فوج نے مسکان کا احاطہ کرلیا ہوگا تب ہی یہ غیرسماجی عناصر نعرہ بازی سے زیادہ آگے نہ بڑھ سکے۔
ریاست کرناٹک میں آج بھی اسکولوں اور کالجوں میں برقعہ یا اسکارف پہن کر داخل نہیں ہونے دیا جارہا ہے۔ یہ مسئلہ طول پکڑ لیا ہے کیونکہ کرناٹک ہائیکورٹ نے عارضی حکم نامہ جاری کرتے ہوئے یہ نامناسب فیصلہ کیا کہ جب تک قطعی فیصلہ نہ ہوجائے طالبات برقعہ اور اسکارف پہن کر اس اسکول نہ جائیں اور یونیفارم پر پابند رہیں اور اس کیس کو سات ججوں کے حوالے کردیا جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ قطعی فیصلہ سالہا سال تک ممکن نہیں۔
آرٹیکل 20 اور 21 اور دستور کے بنیادی حقوق میں بھی مذہبی آزادی کی صراحت کرتے ہوئے اپنے اپنے مذہب کی تبلیغ، ترویج اور اشاعت کی ضمانت دی گئی ہے۔
آرٹیکل 25(1) اور 26 دستور ہند میں کہا گیا ہے کہ کسی کو حق نہیں کہ اس کے مذہبی معاملات میں دخل اندازی کرے جب تک کہ اس وجہ سے کوئی لا اینڈ آرڈر کا خطرہ نہ پیدا ہوجائے۔ یہ مسئلہ پہلی مرتبہ 1915ء میں شروع ہوا۔ گاندھی کا اسٹیٹ آف بامبے نے 1954ء میں فیصلہ دیا کہ
State Secular
Activity
جو
Associate
ہے،
Religion
سے اس کو
Regulate
کرے گی ناکہ
Religious Activity کو Regulate
کرے گی۔ آرٹیکل 29 دستور ہند میں بھی ضمانت دی گئی ہے کہ کوئی فرقہ اپنی زبان ، اپنی تہذیب، تحریر، تمدن، مذہب، عقیدے پر مکمل عمل کرسکتا ہے۔ ہمیں یہاں یہ جاننا ہے کہ یہ مسئلہ کہاں تک دستور کے دائرے میں آتا ہے کیونکہ ایک مذہب کے عقائد، دوسرے مذہب کے ماننے والوں کیلئے وہم ہوسکتے ہیں۔ جہاں تک بھارت کا سوال ہے، سر کو ڈھانکنا، کلچر کا حصہ ہے۔ مسلمانوں کیلئے حجاب اور برقعہ کا معاملہ ایک مذہبی بنیاد ہے۔ جو قرآن حکیم اور سنت سے ثابت ہے جس کو جسٹس اے محمد مشتاق نے آمنہ بنت بشیر
wp.6813/16
میں جانچا ہے اور یہ فیصلہ صادر کیا کہ یہ ایک
Essential Religious Practice
ہے۔ اگر اس فیصلے سے امتحان میں نقل نویسی کا کوئی اندیشہ ہو تو ایسے تمام امیدوار امتحان سے آدھا گھنٹہ پہلے امتحان ہال پہنچ جائیں اور ایک لیڈی
Invigilator
ان کی اچھی طرح جانچ کرلے کہ وہ نقل کا کوئی مواد نہ رکھی ہوں‘‘۔ اس طرح
Issue
ختم ہوگیا۔ یہ بات قابل غور ہے کہ کرناٹک ہائیکورٹ نے عبوری حکم میں بھگوا اسکارف اور حجاب دونوں کو ایک جگہ کھڑا کردیا گیا ۔ جبکہ برقعہ حجاب خالصتاً ایک
Gender Issue
ہے۔ صرف اور صرف عورتوں کیلئے اس کے برعکس بھگوا اسکارف
Assersion of Majority View
ہے جو نئی ایجاد ہے۔ یہ لڑکیاں اچانک شرپسندی کی وجہ سے اسکارف، برقعہ پہنا شروع نہیں کیا بلکہ وہ سالہا سال سے حجاب کرتی آرہی ہیں۔ اچانک جب امتحان سر پر ہیں، دوسری طرف اترپردیش اور دیگر ریاستوں میں الیکشن چل رہا ہے، اس مسئلہ میں شدت پیدا کی گئی۔ یہ سیاسی چال ہوسکتی ہے۔ آر ایس ایس مسلم منچ کے صدر اندریش کمار نے بی بی مسکان خان کو دیش کی بیٹی اور بہن کہا، یہ بھی کہا کہ یہ جو گھناؤنا اور ظالمانہ چہرہ سامنے آیا ہے، وہ اسلام اور دیش کو بدنام کرنے کی سازش ہے۔ ہمارے وزیراعظم کا نعرہ ہے ’’بیٹی بچاؤ، بیٹی پڑھاؤ‘‘۔ مناسب یہ ہے کہ طالبات کی بقاء کی خاطر علمائے کرام اور اسکول انتظامیہ اس مسئلہ پر غور کریں اور متفقہ طور پر اس نتیجے پر پہنچیں کہ اپنے اپنے اداروں کے جو یونیفارم کے رنگوں کو مدنظر رکھتے ہوئے اسی مناسبت سے اسکارف اور برقعہ کا انتخاب کرلیں تو ہمارے بچوں کا مستقبل بچ سکتا ہے۔ ویسے تو یہ اقلیتوں کی شناخت مٹانے کی جنگ کا نقطہ آغاز ہے۔
ہوا کی زد میں دیا جانا جلا کے رکھنا کمال یہ ہے۔