فرانکفرٹ میں ماہ رمضان المبارک کی مسرت میں چراغاں

   

پروین کمال
اس وقت پورا یورپ بطور ایک وحدت دنیا میں اپنا ایک علحدہ مقام بنایا ہوا ہے اور اس بات کو بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کہ یورپ اپنے آپ میں سیکولر معاشرہ کا حامی ہے اور اس کے تحت یہاں کے مذہبی اقدامات عمل میں لائے جاتے ہیں ۔ اگرچہ کہ عیسائی مذہب ان کی شناخت ہے لیکن ہر مذہب کا احترام کرتے ہوئے سب کو اپنے ساتھ لے کر چلنے پر وہ ہمیشہ مائل رہے ہیں۔ ان دنوں ایک تازہ تبدیلی یہ عمل میں آئی ہے کہ یہاں مقیم غیر ملکی جو مختلف مذاہب سے تعلق رکھتے ہیں، ان کے عقائد بھی معاشرہ میں تسلیم کئے جائیں۔ چنانچہ اس سال مسلمانوں کے متبرک مہینہ رمضان المبارک میں رمضان کی مسرتیں بانٹنے کیلئے جرمنی کے پانچویں بڑے شہر فرانکفرٹ میں تہنیتی چراغاں کروانے کا حکومت کی طرف سے ایک بے مثال انتظام کیا گیا جو کہ جرمنی کی تاریخ میں پہلا واقعہ ہے، جسے دیکھ کر مسلم طبقہ بے انتہا خوشی اور جوش سے سرشار ہوگیا ۔ جب ہم دیکھتے ہیں کہ آنکھوں کو خیرہ کردینے والے ہلال چاند اور کرسٹل کی طرح جگمگاتے ستارے جھومتے ہوئے سب کا خیر مقدم کر رہے ہیں تو اس منظر کو دیکھ کر انسان فطری طور پر جذباتی ہوجاتا ہے اور دیر تک دیکھتا اور سوچتا ہے کہ میں کوئی خواب تو نہیں دیکھ رہا ہوں کیونکہ قبل اس کے یہاں رمضان المبارک کے موقع پر اتنی خوبصورتی سے ایسا منظر نظروں سے نہیں گزرا ۔ بڑے بڑے قیمتی لکڑی کے بورڈوں پر چاند ستاروں کی جھلملاتی روشنی کے بیچ Happy Ramadan تحریر سب کا خیر مقدم کر رہی ہے ۔ بہت ہی دل خوش کن منظر جو دیکھنے ہی سے تعلق رکھتا ہے ۔ شہر فرنکفرٹ کو یہ اعزاز حاصل ہوا ہے کہ اس متبرک مہینہ میں کسی نہ کسی طرح حصہ دار بنے۔ امیدیں کی جارہی ہیں کہ ہر سال ماہ رمضان میں اس طرح کی سرگرمیوں سے مسلمانوں کے عقیدوں کا احترام کیا جائے گا ۔ جرمن قوم کا کہنا ہے کہ یہ روشنیاں نہیں بلکہ تمام قوموں کو آپس میں جوڑنے والے چراغ ہیں ۔ جن میں امن و محبت اور اتفاق و اتحاد کے پیغام پوشیدہ ہیں جو نسلوں کے بیچ بنی خلیج کو دور کریں گے ۔ عجیب قوم ہے یہ اور ان کا انداز فکر بھی نرالا جس میں کوئی تفریق یا غیر انسانیت والا جذبہ شامل نہیں ہے ۔ فرانکفرٹ کی کل آبادی اس وقت آٹھ لاکھ ہے جس میں تقریباً ڈیڑھ لاکھ مسلمان آباد ہیں جو ایک بہت بڑی تعداد ہے ۔ جس کا ایک ثبوت یہ ہے کہ ہزاروں کی تعداد میں خاص طور پر فرانکفرٹ نے مہاجرین کو قبول کیا ہے ۔ حالانکہ پیشن گوئیاں تھیں کہ مستقبل میں مہاجرین اور مقامی باشندوں کے درمیان کسی بھی قسم کی کشمکش ہوسکتی ہے کیونکہ دو مختلف تہذیب و تمدن میں پلنے والے اور خاص طور پر مختلف مذہب کے ماننے والوں کے بیچ مسائل پیدا ہونے کا خدشہ لگا رہتا ہے اور ابتداء میں ایسا ہوا بھی لیکن بہت جلد حالات معمول پر آگئے کیونکہ یہاں کی سیاسی پالیسیاں بہت مضبوط اور مستحکم ہیں اور یہ بھی کہ حکومت کو عوام کا بھرپور تعاون حاصل ہے ۔ غرض جرمن قوم کی یہ پیشقدمی ایک درس ہے، ان ممالک کیلئے جہاں امن اتحاد اور محبت کو روندا جاتا ہے جس کے نتیجہ میں جنگی حالات پیدا ہوتے ہیں اور پوری دنیا اس کی لپیٹ میں آجاتی ہے ۔ اگر انداز فکر بدل جائے تو دنیا سے جنگ کے اثرات ختم ہوجائیں اور ایک صحت مند معاشرہ کی ابتداء ہو۔