فرزند قریش حضرت امام شافعی رحمتہ اﷲ علیہ

   

خان آصف مرسلہ : عبید بن عثمان العمودی
(۱۵۰ تا ۲۰۴ ہجری )

…گزشتہ سے پیوستہ …
میں امام مالکؒ کی بات سن کر لرز گیا اور مجھے محسوس ہونے لگا جیسے اس مجلس درس میں یہ میرا آخری دن ہے ۔ میری آنکھوں کے سامنے اندھیرا سا چھانے لگا ۔ جب میں نگاہِ امامؒ میں بے ادب ٹھہرا تھا تو پھر دنیا میں کون میرے ادب پر گواہی دیتا ؟ میں نے بڑی مشکل سے اپنے ڈوبتے ہوئے دل کو سنبھالا اور کانپتی ہوئی آواز میں عرض کیا ’’امامؒ میں دنیا کی اس عظیم ادب گاہ میں ادب ہی سیکھنے کیلئے حاضر ہوا ہوں ، پھر بھی آپ میری بے ادبی کی نشان دہی فرمائیں‘‘۔ میرے اس جواب سے امام مالکؒ کے چہرے پر نظر آنے والی ناگواری کے تاثرات کسی حد تک زائل ہوچکے تھے لیکن ابھی لہجے کی سختی باقی تھی تمہاری بے ادبی یہ ہے کہ تم سماعت حدیث کے آداب سے واقف نہیں ہو ‘‘۔ امام مالکؒ نے فرمایا ۔ ’’جب میں رسول کریم ﷺ کے کلمات سنارہا تھا اور ساری مجلس ساکت و جامد ہوگئی تھی اس وقت تم اپنے ہاتھ پر کسی چیز سے کھیل رہے تھے ‘‘۔
اب میں صورتحال کو سمجھ چکا تھا ۔ بے شک یہ عمل آدابِ مجلس کے خلاف تھا مگر امام کو میری مجبوریوں کی خبر نہیں تھی ۔ میں نے بصد احترام اپنے اس فعل کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ ’’میرے پاس کاغذ نہیں تھا اس لئے آپ جو کچھ بیان فرمارہے تھے اسے اپنے ہاتھ پر لکھتا جارہا تھا ‘‘۔ امام مالکؒ کو میرے جواب پر شدید حیرت ہوئی ، فوراً میرا ہاتھ اپنی طرف کھینچ کر دیکھا اور پھر فرمایا ’’تمہارے ہاتھ پر تو کچھ بھی نہیں لکھا ہے ! ‘‘ میں نے عرض کیا ’’میں آپ کی بیان کردہ احادیث کو اپنے لعاب دہن سے ایک تنکے کے ذریعے تحریر کررہا تھا ، لعاب کا کوئی رنگ نہیں ہوتا اس لئے ہاتھ پر عکس باقی نہیں رہا ۔ ویسے بھی مجھے تمام احادیث زبانی یاد ہوچکی ہیں ‘‘۔ میری بات سن کر امام مالکؒ کی حیرت میں مزید اضافہ ہوگیا فرمانے لگے ’’سب نہیں ، ایک ہی حدیث سنادو‘‘۔ میں نے فوراً کہا ۔ مجھ سے مالکؒ نے نافع اور ابن عمرؒ کے واسطے سے اس قبر کے مکیں صلی اﷲعلیہ و آلہٖ وسلم یہ حدیث روایت کی ہے ‘‘ اور پھر امام مالکؒ ہی کی طرح میں نے بھی ہاتھ پھیلاکر روضۂ رسول کی طرف اشارہ کیا اس کے بعد وہ پچیس احادیث سنادیں جو امامؒ نے آغاز درس سے مجلس کے خاتمے تک بیان کی تھیں‘‘۔
یہ امام شافعی کی بے مثال قوتَ حافظہ کا ایک غیرمعمولی مظاہرہ تھا جس سے امام مالکؒ یہاں تک متاثر ہوئے کہ آپ نے بے اختیار فرمایا ’’فرزند قریش ! خدا تمہاری عمر دراز کرے‘‘۔
دوسرے دن امام شافعیؒ وقت سے پہلے ہی مسجد نبویؐ پہنچ گئے ۔ آپ نے نماز ظہر ادا کی اور مجلس حدیث میں سب سے آگے اس طرح بیٹھے کہ امام مدینہ کے روبرو آپ کی نشست تھی ، درس شروع ہونے سے پہلے امام مالکؒ نے محبت آمیز نظروں سے آپ کی جانب دیکھتے ہوئے فرمایا ’’محمد! تم قرأت کرنے والے کو اپنے ساتھ نہیں لائے ؟ ‘‘
’’امام ! اس دیار میں آپ کے سوا میرا کوئی شناسا نہیں ہے ، میں کس کے سامنے عرض حال کرتا ؟ آپ حکم دیں گے تو خود ہی قرات کروں گا‘‘۔ امام شافعیؒ کو ایک بار پھر اپنی کم مائیگی کااحساس ہوا تھا اس لئے آپ کے لہجے میں سوزشِ دل نمایاں تھی ۔
’’تمہارے پاس کتاب بھی نہیں ہے ، پھر کس طرح قرات کروگے ؟ ‘‘ امام مالکؒ کا اشارہ ’’موطا‘‘ کی طرف تھا ۔
’’جب تک امامؒ کی چشم کرم میری جانب نگراں ہے اس وقت تک مجھے کتاب دیکھنے کی ضرورت محسوس نہیں ہوگی ‘‘۔
یہ ایک ایسے طالب علم کا دعویٰ تھا جس کی عمر چودہ سال سے زیادہ نہیں تھی۔ مجلسِ درس میں ہلچل مچ گئی ، بڑے بڑے پختہ کار لوگ امام شافعیؒ کو تعجب سے دیکھنے لگے خود امام مالکؒ کے چہرۂ مبارک پر بھی حیرت کے آثار صاف نظر آرہے تھے ۔ ’’مکے سے روانگی کے وقت ’’موطا‘‘ ہی میرا زادِ سفر تھی ، میں نے سوچا تھا کہ جب علم کاشہنشاہ مجھ سے سوال کرے گا کہ شافعی! تو ہماری نذر کو کیا لایا ہے تو میں امام کی بارگاہ میں امامؒ ہی کی روایات پیش کردوں گا ‘‘۔ مجلس کے بام و در ساکت تھے اور تمام اہل مجلس کی نگاہیں فرزند قریش کی چہر ے پر جمی ہوئی تھیں۔ امام شافعیؒ نے امام مدینہ سے اجازت طلب کی اور پھر لوگوں کی سماعتیں ایک نئی آواز سے آشنا ہوئیں۔ امام شافعیؒ پرسوز آواز میں ’’موطا ‘‘ کی قرات کررہے تھے ، سرورِ کونین کے ارشاداتِ گرامی اور ایک جاں نثارِ رسالت کی درد میں ڈوبی ہوئی آواز ، اہل دل کو نبض کائنات رکتی ہوئی محسوس ہورہی تھی ۔ اس منظر جانفرا کی کیفیت کو خود حضرت امام شافعیؒ نے اپنے سفر نامے میں اسی طرح بیان فرمایا ہے ۔
’’میں قرأت کے دوران حضرت امام مالکؒ کے چہرۂ مبارک کی طرف ایک نظر دیکھنے کی کوشش کرتا اور پھر میرے دل پر امامِ مدینہ کی ہیبت چھاجاتی ۔ میں گھبراکر سوچنے لگتا کہ قرأت ختم کردوں ۔ اس خیال کے ساتھ ہی میری آواز بہت آہستہ ہوجاتی ۔ امامِ مالکؒ فوراً آنکھیں کھول دیتے اور میری قرأت پر پسندیدگی کا اظہار کرتے ہوئے فرماتے ۔ فرزند ! اور … فرزند اور ۔ قرأت کا یہ سلسلہ بہت دیر تک جاری رہا ۔ اہل مجلس کو خبر بھی نہیں ہوئی کہ کب دن تمام ہو اور کب سورج اُفق غرب میں ڈوب گیا۔ سب لوگ اس وقت چونکے جب مدینے کی فضاؤں میں موذن کی آواز گونجی … (ختم شد )