فرقہ پرستوں کیخلاف ہندوستان کو متحد رکھنے والوں کی مہم

   

رام پنیانی
’’کثرت میں وحدت‘‘ ایک ایسا بڑا فقرہ یا جملہ ہے جو اکثر میں اپنے اسکول کے دور سے سنتا اور اس پر عمل کرتا آیا ہوں۔ کثرت میں وحدت کی بات جب بھی آتی ہے تو میں آپ کو بتادوں کہ وجئے دھامی سے 10 دن قبل رام لیلا سے میں بہت محظوظ ہوا کرتا تھا اور پھر اس کے ساتھ ہی تعزیہ جلوس کا مشاہدہ کرتا۔ تعزیہ جلوس کے ساتھ جین مذہب کے ماننے والوں کا جلوس کا نظارہ کرتا جس میں وندے ویرم کے نعرے لگائے جاتے ہیں جس کا مطلب جینوں کے بھگوان مہاویر کی تعریف ہوتا ہے۔ ان گروپوں کا مشاہدہ کرنے کے ساتھ ساتھ دلتوں کی ان تقاریب کا بھی مشاہدہ کرتے جو بابا صاحب امبیڈکر اور ان کے لاکھوں چاہنے والوں کی جانب سے ہندو دھرم ترک کرکے بدھ مت قبول کرنے کے یادگار دن کی یاد میں منائے جاتے ہیں۔ جہاں تک کرسمس کا سوال ہے، عیسائیوں کا یہ تہوار ہم کالج کے دوستوں کے ساتھ مناتے، ہمارے ملک میں جو مختلف تہوار منائے جاتے ہیں، ان میں کثرت میں وحدت گہرائی تک پیوست رہتی۔ یہ صرف الفاظ یا نظریہ تک ہی محدود نہیں ہوتی بلکہ عملی طور پر سرزمین ہند پر اس کا مظاہرہ کیا جاتا ہے۔ ہندوستانی معاشرے کا تنوع اور کثرت میں وحدت کا نظریہ اتنا ہی قدیم ہے، جتنا کوئی تصور کرسکتا ہے۔ ہندوستان میں عیسائیت بے شمار عیسائی اکثریتی ملکوں سے بھی قدیم ہے۔ ساتویں صدی سے قبل اسلام ہمارے ملک کی سرزمین کا ایک حصہ بنا۔ شاکا، کشنس، ہنس، یونانیوں نے ہماری تہذیب میں اپنا رس بھرا، ہماری نفسیات میں بھی ہندوستان کی متنوع تہذیب سرائیت کرگئی۔ کہاں آپسی تنازعات، نسلی امتیاز، شیعہ۔ سنی، شیوا وشنو کے جھگڑے دکھائی نہیں دیتے تھے۔ ہر طرف سماجی فضاء میں اتحاد تھا۔ امن و سالمیت پایا جاتا تھا۔ مختلف مذاہب کے درمیان فرقہ وارانہ ہم آہنگی کا دور دورہ تھا۔ ہر طرف امن کا بول بالا تھا۔ اشوکا نے جو ہدایات جاری کی تھیں۔ وہ مختلف مذاہب کے ماننے والوں کے درمیان باہمی احترام پر مبنی تھے اور بین مذہبی اتحاد پر زور دینے کیلئے کہے گئے تھے۔ (اُس وقت برہمن ازم، جین ازم اور اجی وکاس جیسے مخصوص مذاہب تھے) اس کے بہت بعد کے عرصہ میں مغل بادشاہ اکبر نے دین الٰہی اور صلح کل کو فروغ دیا جبکہ دارا شکوہ نے ہندوستان کو دو دریاؤں سے بنے دو بڑے سمندروں (ہندوازم اور اسلام) سے تعبیر کیا۔ اس سلسلے میں دارا شکوہ نے اپنی کتاب ’’مجموعہ البحرین‘‘ میں اس تعلق سے تفصیلی روشنی ڈالی، اسی کے متوازی ہمارے ملک میں سنتوں کی عظیم روایت پر بھی عمل ہوتا رہا ، کبیر رام دیو بابا پیر، تکا رام، نامدیو اور نرسی مہتا جیسے بھکتی سنتوں نے اپنے ہندو اور مسلم چاہنے والوں کے علاوہ صوفی سنتوں جیسے حضرت خواجہ غریب نوازؒ ، حضرت نظام الدین اولیاءؒ، حاجی ملنگ باباؒ ہندوستان کے اخلاقیات اس کی روایتوں کا حصہ بنیں اور ان سنتوں نے تمام لوگوں کو بلالحاظ مذہب و ذات پات قبول کیا۔ نہ صرف قبول کیا بلکہ انہیں محبوب رکھا۔ ان لوگوں نے مقامی تہذیب کو سمجھا، اسے اپنایا، لیکن انگریزوں کے نوآبادیاتی دور کے دوران مذہب کے نام پر تخریبی رجحانات کا بھیانک سر اُبھارا گیا اور اس کیلئے ’’پھوٹ ڈالو اور حکومت کرو‘‘ کی انگریزوں کی پالیسی ذمہ دار ہے۔ یہ رجحانات معاشرے کے اشرافیہ یعنی بڑے لوگوں نے شروع کئے، لیکن ان رجحانات کا اثر اس تحریک آزادی سے کم ہوگیا جس میں بلالحاظ مذہب و ملت تمام مذاہب اور ذات پات کے ماننے والوں نے حصہ لیا۔ مہاتما گاندھی نے ہندو ازم کی جادوئی تشریح کی اور تمام مذاہب کو ہندوستانی قومیت کے واحد دھاگے میں پرونے کا کام کیا۔ گاندھی جی کی کرشماتی شخصیت اور انسانیت نے تمام مذاہب کے ماننے والے لوگوں پر ایک گہرا اثر مرتب کیا۔ ان کے دعائیہ اجتماعات میں بھگوت گیتا کے اشلوک ، قرآن پاک کی آیات اور بائبل کے کلام سے گونج اُٹھتے تھے۔ اس دور میں ہم نے مولانا ابوالکلام آزاد ، شوکت اللہ انصاری ، خان عبدالغفار خان، اللہ بخش اور ان جیسی کئی شخصیتوں کو دیکھا جو نہرو ، پٹیل اور جدوجہد آزادی کے دیگر رہنماؤں کے کندھے سے کندھے ملاکر انگریزوں کے خلاف سینہ سپر ہوگئے اور ہندوستان میں متنوع تہذیب ، متحدہ ہندوستانی قوم پرستی کی مضبوطی کا باعث بنی۔ ہمارے تہذیبی اقدار جو آج بھی ہماری زندگی ، غذائی عادات و اطوار، ادب ، فن ، موسیقی ، تعمیرات اور جو کچھ بھی ہمارے پاس ہے، اس کے تمام پہلوؤں سے اخذ کی گئی، لیکن فی الوقت ایسا لگتا ہے کہ یہ چیزیں اُلٹی سمت کی جانب جارہی ہیں۔ جس سے پچھلے چند دہوں سے امن و آہنگی کو خطرہ پیدا ہوگیا ہے۔ اس کا مثبت رخ اگر دیکھیں تو پتہ چلتا ہے کہ کئی ایسی شخصیتیں بھی ہمارے درمیان ہے یا رہیں جن کی کوششیں تمام مذاہب سے بالا تر تھیں۔ ہمارے پاس ممتاز سماجی ورکرس جیسے سوامی اگنی ویش اور اصغر علی انجینئر بھی تھے جنہوں نے مشترکہ اور علیحدہ طور پر بین مذہبی مذاکرات کو فروغ دیا تاکہ مختلف مذاہب کے درمیان پائی جانے والی غلط فہمیاں اور غلط نظریات و تصورات کو ختم کیا جائے۔ بین مذہبی یہ تحریک مذہبی و سماجی سطح پر غلط فہمیوں کو دور کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ سوامی اگنی ویش اور اصغر علی انجینئر نے ہندوؤں اور مسلمانوں میں اتحاد کیلئے نمایاں کردار ادا کیا جسی طرح اسٹین سوامی، والسن تھامپو ،جان دیال اور سیڈرک پرکاش جیسی شخصیتیں عیسائیوںسے باہر آئیں اور اپنے مذاہب کے انسانی پہلوؤںکو پیش کیا اور ان لوگوں کی کوششوں نے مختلف مذاہب سے تعلق رکھنے والے لوگوں کے درمیان دوستی برقرار رکھنے کے عمل کو مستحکم بنانے میں عظیم کردار ادا کیا، ان کا کردار قابل فخر ہے۔ وہ تحریک جن کا وہ حصہ تھے ، معاشرے پر ہم آہنگی کے نقوش چھوڑ گئے۔
اس طرح کے انتہائی نامساعد حالات میں بھی لوگوں کو متحد رکھنے کے عمل کیلئے فیصل خان نے خدائی خدمت گار کا احیاء کیا ہے۔ یہ تنظیم دراصل سرحدی گاندھی خان عبدالغفار خان نے قائم کی تھی۔ خدائی خدمت گار دراصل ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان دوستانہ تعلقات کے فروغ کیلئے قائم کی گئی تھیں اور فیصل خاں نے اسی مقصد کا احیاء کیا جس کے تحت ان لوگوں نے اوپن ہاؤز (اپنا گھر) مہم شروع کی جہاں مختلف مذاہب سے تعلق رکھنے والے لوگ ایک ساتھ رہتے ہیں اور پورے احترام کے ساتھ اپنے اپنے مذاہب کی تعلیمات پر عمل کرتے ہیں اور ان تعلیمات کو ایک دوسرے کے ساتھ شیئر بھی کرتے ہیں۔ اس ضمن میں آنند پٹوردھن لکھتے ہیں: ہندوستان میں فیصل خاں نے 2011ء میں گاندھی جی کی برسی کے موقع پر خدائی خدمت گاروں کا اکیسویں صدی کا ورژن شروع کیا اور جو حقیقی خدائی خدمت گار تھے اور وہ جو عہد کیا کرتے تھے ، اسی عہد کا اہتمام کیا اور فیصل خاں نے خدائی خدمت گاروں میں غیرمسلموں کی کم از کم 35% رکنیت کو یقینی بنانے کا اصول بھی شامل کیا۔ خدائی خدمت گاروں نے ملک بھر میں لوگوں کے دل چھو لئے اور اس کی رکنیت 50 ہزار تک پہنچ گئیں جس میں بے شمار ہندو بھی ہیں۔ وہ لوگ بھی شامل ہیں جو کبھی آر ایس ایس سے وابستہ رہے۔ حالیہ عرصہ کے دوران ہم نے لنچنگ کا خطرناک رجحان دیکھا اور جو خاندان اس رجحان سے متاثر ہوئے انہیں کبھی سماجی تائید حاصل نہیں رہی۔ وہ لوگ اپنے آپ کو دل شکستہ، بے بس و مجبور محسوس کرنے لگے۔ اس طرح کے خاندانوں کی مدد کیلئے ہرش مندر نے ’’کاروانِ محبت‘‘ شروع کیا۔ یہ گروپ متاثرہ خاندانوں تک پہنچ کر ان کی اخلاقی اور سماجی تائید کرتا ہے۔ کاروان محبت متاثرہ خاندانوں کیلئے دلاسہ کا ایک بہت بڑا ذریعہ بنا ہے۔ ہمارے ملک میں کئی ایسے شہر ہیں جہاں فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو فروغ دینے والے گروپس کام کررہے ہیں۔ چیاریٹی گروپس بھی ہیں جو تمام مذاہب کے ماننے والوں کی مدد کررہے ہیں لیکن اس طرح کے گروپس خبروں میں زیادہ نہیں ہیں، کیونکہ یہ لوگ بڑی خاموش سے کام کرتے ہیں۔ جبکہ تشدد برپا کرنے والے تخریبی گروپس ہمیشہ خبروں میں چھائے رہتے ہیں۔ اس کے باوجود فرقہ وارانہ ہم آہنگی اور چیاریٹی کے جو گروپس ہیں ، وہ ایک بہت بڑی امید ہیں۔ اصل مسئلہ تہذیبی کا تصادم ہے جسے بہت پہلے پیش کیا گیا اور تہذیبوں کے تصادم کے نتیجہ میں ہی تخریبی رجحانات مستحکم ہورہے ہیں اور ہندوستان بھی اس سے مستثنیٰ نہیں۔ کوفی عنان جب اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل تھے، تب اقوام متحدہ نے ایک اعلیٰ سطح کی کمیٹی تشکیل دے کر تہذیبوں کا اتحاد نامی نظریہ پیش کیا تھا۔