فصل بیمہ خانگی کمپنیوں کی ’چاندی‘

   

راویش کمار

تین ہزار (3,000) خانگی بیمہ کمپنیوں اور گورنمنٹ انشورنس کمپنیز کو فصل بیمہ سے 4,085 کروڑ روپئے کا نقصان ہوا ہے۔ یہ حساب سالانہ اندراجات کے مطابق ہیں جو مارچ 2018ء میں ختم ہوئے۔ جارج میتھیو کی رپورٹ ’انڈین اکسپریس‘ میں شائع ہوئی ہے۔ ویسے فصل انشورنس کی پالیسی تو کھلی مارکیٹ میں فروخت ہی نہیں کی گئی تھی۔ بینکوں سے کہا جارہا ہے کہ وہ اپنی پالیسی اپنے ہی لوگوں کو بیچیں۔ پرائیویٹ کمپنیاں اپنی پالیسیاں بیچنے کیلئے سرمایہ لگاتی ہیں اور نا ہی لوگوں کو ملازم رکھتی ہیں۔ سرکاری بینکوں کے عہدیداروں سے کہہ دیا گیا کہ آپ صرف بیچیں۔ اس طرح کی پالیسی اختیار کی گئی۔ اس طرح پرائیویٹ انشورنس کمپنیوں نے فی الواقعی کئی گنا زیادہ منافع حاصل کیا ہے۔ ’انڈین اکسپریس‘ کی رپورٹ پر سوال اٹھایا گیا کہ ایسا نہیں ہے کہ پالیسی بیچنے پر خانگی بیمہ کمپنیوں کو فائدے ہورہے ہیں۔ ان کمپنیوں کے پس پردہ کون ہوسکتا ہے، اُن کے کتنے نفع واجبی ہیں، آپ خود قیاس کرسکتے ہو۔
اگر آپ بینک والوں سے بات کریں تو وہ آپ کو بتائیں گے کہ فصل بیمہ شعبے میں پرائیویٹ انشورنس کمپنیوں کو بڑھاوا دیا جارہا ہے۔ کسی ضلع کے اندرون ایک ہی بیمہ کمپنی کو ٹنڈر حاصل ہوتا ہے۔ یہ اجارہ داری کا معاملہ ہورہا ہے۔ کمپنیاں من مانی بھی کرتی ہیں۔ اس معاملے میں سیاسی کنٹرول کام کرتا ہے۔ ایسا دیکھنے میں آتا ہے کہ یہ کمپنیاں انتخابات کے وقت کسانوں کے ادعا جات پر فوری ادائیگی شروع کردیتی ہیں؛ جیسا کہ مدھیہ پردیش کے معاملے میں دیکھا گیا اور میڈیا میں رپورٹ بھی آئی۔ حکومت کا فرض ایسی پالیسی بنانا ہے جو سرکاری بیمہ کمپنیوں کی حوصلہ افزائی کرے۔ لیکن حکومت کے زیرانتظام سرکاری بینکوں کے عہدیداروں کو مجبور کیا جاتا ہے کہ پرائیویٹ انشورنس کمپنی کی پالیسی بیچیں۔
انشورنس ریگولیٹری اتھارٹی آف انڈیا (IRDA) کی سالانہ رپورٹ بتاتی ہے کہ 11 خانگی بیمہ کنندگان نے 11,905 کروڑ روپئے بطور پریمیم جٹائے ہیں۔ لیکن انھیں صرف 8,831 کروڑ روپئے دعوے کی شکل میں ادا کرنا پڑا۔ عوامی شعبے کی پانچ بیمہ کمپنیوں نے پریمیم کی رقم کے طور پر 13,411 کروڑ روپئے وصول کئے لیکن کسانوں کے دعوؤں پر 17,496 کروڑ روپئے ادا کئے۔ گورنمنٹ انشورنس کمپنیز میں سب سے زیادہ خسارہ زرعی بیمہ کمپنی AIC کو ہوا ہے۔ اس کمپنی کو زائد از 4,000 کروڑ روپئے کا نقصان برداشت کرنا پڑا۔ دوسری طرف، بیمہ کرنے والی خانگی کمپنی ICICI Lombard نے 1,000 کروڑ روپئے کا منافع حاصل کیا۔ ’ریلائنس جنرل‘ کو 706 کروڑ، ’بجاج آلیانز‘ کو 687 کروڑ، اور ’ایچ ڈی ایف سی‘ کو 429 کروڑ روپئے کا نفع حاصل ہوا۔

اب آپ اس ڈیٹا پر نظر ڈالتے ہو تو معاملہ سمجھ آجاتا ہے۔ پرائیویٹ کمپنیوں پر دعوؤں پر ادائیگی کا دباؤ کم رہے گا، جبکہ سرکاری بیمہ کمپنیوں نے پریمیم کی حاصل شدہ رقم سے کہیں زیادہ ادائیگی کی ہے۔ تب ہی کہا جارہا ہے کہ فصل بیمہ کا کچھ حصہ سیاسی طور پر چلایا جارہا ہے۔ مدھیہ پردیش اسمبلی انتخابات کے دوران کچھ اسی طرح دیکھنے میں آیا۔ بعض اوقات آپ فصل بیمہ سے متعلق کسانوں کے دعوؤں سے مربوط مسائل کا جائزہ لیتے ہو۔ کسی بینکر سے پوچھنے پر وہ آپ کو بتائے گا کہ بینک درحقیقت ’کراپ انشورنس‘ کے نام پر کسی پرائیویٹ کمپنی کی پالیسی بیچ رہا ہے۔
پارچہ صنعت کا تجزیہ ’بزنس اسٹانڈرڈ‘ میں پیش کیا گیا ہے۔ گزشتہ تین سال سے اس شعبے کی برآمدات 17 بلین ڈالر پر قائم ہیں۔ ایسا نہیں ہے کہ طلب میں کمی ہوئی ہے۔ اگر ایسا ہوتا تو اسی مدت کے دوران بنگلہ دیش کی برآمدات دگنی نہ ہوتی۔ ٹی اے نرسمہن نے اخبار میں لکھا ہے کہ حکومت ِ ہند نے آزادانہ تجارت معاہدے طے کرنے میں سردمہری کا مظاہرہ کیا ہے؛ یہی وجہ ہے کہ ہم ٹکسٹائل سیکٹر میں پیچھے ہورہے ہیں۔

پارچہ شعبے کے سبب بنگلہ دیش کی معیشت مضبوط ہوئی ہے۔ 2021ء تک اوسط آمدنی والے گروپ تک پہنچ جانے کی بات ہورہی ہے۔ وہاں کپاس کی کاشت نہیں ہوتی۔ دنیا بھر میں ہندوستان سب سے زیادہ کاٹن اُگاتا ہے، اور ٹکسائل سیکٹر میں آگے بڑھنے والا پہلا ملک رہا ہے۔ اس کے باوجود انڈیا ان تین برسوں میں بنگلہ دیش سے پچھڑ گیا ہے۔ ہندوستان میں لوگ کہتے ہیں کہ پارچہ شعبہ کافی روزگار مہیا کراتا ہے۔ جب یہی شعبہ ڈوبنے لگے یا اس پر جمود غالب آجائے، تب روزگار پر بھی کیا اثر پڑے گا، آپ خود اندازہ لگا سکتے ہو۔ اس شعبے کے اندرون بعض خامیاں بھی ہیں۔ یہ کہا جارہا ہے کہ نئے تجربے نہیں کئے جارہے ہیں۔ یونہی رہا تو لاگت میں کمی نہیں لائی جاسکتی۔
ravish@ndtv.com