فٹبال ورلڈ کپ، عالم اسلام میں ایک انقلاب کا پیش خیمہ

   

ظفر آغا
فٹبال دنیا میں سیاسی اور سماجی تبدیلی کا مظہر ہو سکتا ہے، یہ ہمارے گمان میں بھی نہ تھا۔ لیکن ابھی پچھلے ہفتے قطر میں جب ایرانی ٹیم نے اپنے ملک کا قومی ترانہ پڑھنے سے انکار کر دیا تو ہمارے کان کھڑے ہوئے۔ ابھی اس خبر کو چوبیس گھنٹے بھی نہیں بیتے تھے کہ کسی نے فون کر کے بتایا کہ سعودی عرب کی ٹیم نے ارجنٹائنا کی ٹیم کو 1۔2 سے ہرا دیا، تو ہم کرسی چھوڑ کر کھڑے ہو گئے۔ سعودی عرب جانِ فٹبال میسی کی ٹیم کو ہرا سکتی ہے، یہ کوئی خواب میں بھی تصور نہیں کر سکتا۔ لیکن اب یہ ایک حقیقت بن چکا ہے۔ وہ ایرانی ٹیم کا احتجاج رہا ہو یا پھر سعودی عرب کی فٹبال ورلڈ کپ میں جیت، یہ دونوں ہی باتیں ایک طوفان کا پیش خیمہ ہیں۔ ان کو کوئی معمولی بات نہ سمجھنا چاہیے۔ یہ اس بات کا مظہر ہیں کہ اسلامی ممالک، جن کو دنیا میں بے حد پسماندہ سمجھا جاتا ہے، ان ممالک کی نئی نسل کا نوجوان صرف جوش و خروش سے ہی لبریز نہیں ہے بلکہ وہ اب دنیا کے ساتھ کاندھے سے کاندھا ملا کر چلنا چاہتا ہے۔ اور وہ اس کے لیے سب کچھ کرنے کو تیار ہے۔ اگر اس کو اس کے لیے قربانی دینی پڑے تو وہ قربانی دے سکتا ہے۔ یا اس کو کچھ حاصل کرنے کے لیے کتنی ہی محنت کرنی ہو وہ محنت کرنے کو تیار ہے۔ لیکن وہ اب دنیا میں سربلند ہو کر جینا چاہتا ہے۔
جی ہاں، قطر میں چل رہے فٹبال ورلڈ کپ کے پہلے دو دن کا یہی پیغام ہے۔ سب سے پہلے تو قطر کا کمال ہے کہ وہ صحرا میں اتنا بڑا فٹبال ایونٹ کامیابی سے سرانجام دے رہا ہے۔ جب یہ اعلان ہوا کہ قطر میں اگلا فٹبال ورلڈ کپ ہوگا تو ساری دنیا نے قطر کا مذاق اڑایا۔ جس کو دیکھو وہ قطر پر ہنستا تھا۔ بھلا قطر اور فٹبال ورلڈ کپ! ہر زبان پر یہی طنز تھا۔ قطر پر طرح طرح کے الزام لگے۔ انھوں نے تو پیسہ کھلا کر اپنے یہاں ورلڈ کپ کرنے کا اعلان کروا دیا۔ پھر بھلا ریگزار میں فٹبال کیسے ہو سکتا ہے! قطر کو اتنا بڑا شو کرنے کا کوئی تجربہ نہیں۔ الغرض جتنے منھ اتنی باتیں، مگر قطر نے کسی بات کا کوئی جواب نہیں دیا۔ امیر قطر شیخ تمیم بن حمد آل ثانی سے لے کر ہر قطری اور حکومت خاموشی سے ورلڈ کپ کروانے کے انتظام میں لگی رہی۔ آج اس عزم کا نتیجہ یہ ہے کہ قطر کا مذاق اڑانے والوں کی زبانیں گنگ ہو گئی ہیں۔ ہر طرف خاموشی ہے، بلکہ وہی میڈیا جو پہلے اس سلسلے میں قطر کی طرح طرح سے نکتہ چینی کر رہا تھا، اب قطر کی تعریف کر رہا ہے۔ جب آپ کے ناقدین آپ کے مداح ہو جائیں تو یہ آپ کی سب سے بڑی کامیابی ہے۔ اور قطر نے آج دنیا کو یہ کر دکھایا کہ ’ہاں ہم بھی کر سکتے ہیں۔‘ اس کے لیے قطر قابل مبارکباد ہے۔ اس سلسلے میں قطر کی جتنی تعریف کی جائے کم ہے۔ آج قطر یورپ اور دنیا کے ان دوسرے بڑے ترقی پذیر ممالک کے سامنے یہ اوباما کی طرح کہہ سکتا ہے ’یس وی کین‘ (ہاں، ہم کر سکتے ہیں)۔ لیکن سب سے بڑی بات یہ ہے کہ قطر جیسے چھوٹے سے اسلامی ملک نے سبھی اسلامی ممالک کے سامنے یہ مثال قائم کر دی کہ اگر تم ٹھان لو تو تم بھی اکیسویں صدی میں ہونے والا ہر وہ بڑا سے بڑا کام کر سکتے ہو جو دنیا کے دوسرے بڑے ملک کر رہے ہیں۔ اور اس کے لیے ’تھینک یو قطر‘ (قطر کا شکریہ)۔صرف یہی نہیں، اس ورلڈ کپ فٹبال میں ایرانی ٹیم نے اپنی حکومت کے خلاف اپنا احتجاج ساری دنیا کے سامنے پیش کر دیا۔ پوری ٹیم نے جب اسٹیڈیم میں ایرانی قومی ترانہ بج رہا تھا تو ایرانی ٹیم خاموش کھڑی رہی۔ یہ ایران میں چل رہی خواتین کی حجاب مخالف تحریک اور جدوجہد کے ساتھ یکجہتی کا اظہار تھا۔ سب واقف ہیں کہ ایران میں خواتین کا ایک بڑا طبقہ زور زبردستی سے حکومت کے ڈنڈے کے زور پر نقاب لازمی رکھنے کے خلاف ہے لیکن ایرانی کی اسلامی حکومت ٹس سے مس نہیں ہو رہی ہے۔ ایرانی حکومت کی اس ضد کے خلاف قطر فٹبال ورلڈ کپ میں پوری ایرانی ٹیم نے بھرے اسٹیڈیم میں حجاب مخالف ایرانی عورتوں کی تحریک کے ساتھ اپنی Solidarity کا اظہار کیا۔ اس جرآت کے لیے کلیجہ چاہیے، کیونکہ بقول ایرانی فٹبال ٹیم کے کپتان یہ پتہ نہیں کہ وطن لوٹنے کے بعد ٹیم کے کتنے ممبران جیل میں ڈال دیے جائیں۔ یہ دو باتوں کی دلیل ہے۔ پہلی تو یہ کہ اسلامی ممالک میں بھی عورتوں کے خلاف مردوں اور حکومتوں کی زور زبردستی بہت دنوں تک چلنے والی نہیں۔ دوسری یہ ہے کہ سماجی آزادی کی ہر جدوجہد میں اب عورت اور مرد دونوں کی نوجوان نسل ایک دوسرے کے ساتھ ہے، چاہے اس کے لیے کتنی ہی بڑی قربانی کیوں نہ دینی پڑے۔
سعودی ٹیم کی یہ فتح سعودی سماج میں تبدیلی کا پیش خیمہ ہے۔ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ سعودی نوجوان دقیانوسی روایت توڑ کر اکیسویں صدی کی دنیا کے ساتھ کاندھے سے کاندھا ملا کر چلنے کو تیار ہے۔ اور اتنا ہی نہیں، اس کے لیے کتنی ہی محنت کیوں نہ کرنی پڑے وہ تیار ہے۔ یہاں یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ اس تبدیلی کا سہرا سعودی شہزادہ اور وزیر اعظم محمد بند سلمان کے سر جاتا ہے کیونکہ انھوں نے ہی سعودی سماج کے دروازے اکیسویں صدی کی ہواؤں کے لیے کھولے ہیں۔ لب و لباب یہ کہ تازہ ترین فٹبال ورلڈ کپ نے یہ ثابت کر دیا کہ ابھی حال تک غفلت میں پڑے عرب ممالک کے نوجوان کی نیند کھل چکی ہے اور اب وہ اکیسویں صدی کی جدید فضاؤں میں سانس لینے کو تیار ہیں۔ اس جذبہ کو کوئی بھی نظام اب بہت دنوں تک روک نہیں سکتا۔ عرب نوجوان اب انگڑائی لے رہا ہے اور وہاں ایک بڑا انقلاب مچل رہا ہے جس کو حقیقت میں تبدیل ہونے سے بہت عرصے تک اب روکا نہیں جا سکتا ہے۔