فیفا ورلڈ کپ 2022ءقطر کا کمال ، فٹبال کا مثالی استعمال

   

محمد ریاض احمد
قطر میں جاری فیفا ورلڈ کپ کئی لحاظ سے منفرد کہا جاسکتا ہے۔ اس کے ابتدائی میچس کا اگر جائزہ لیں تو فیفا کی عالمی درجہ بندی میں تیسرے مقام کی حامل اور 2 مرتبہ عالمی چمپین رہی ارجنٹینا کی سعودی عرب کے ہاتھوں شکست نے ساری دنیا کو اَنگشت بہ دندان کردیا۔ اس نتیجہ سے سارے یوروپ میں حیرت اور عرب ملکوں میں خوشی کی لہر دوڑ گئی۔ فیفا ورلڈ کپ کے ذریعہ مملکتِ قطر اور اس کے حکمران اور قطری عوام نے وہ سب کچھ حاصل کرلیا، جس کی وہ توقع کررہے تھے، باالفاظ دیگر فٹبال کے اس عالمی کھیلوں کے سب سے بڑے ایونٹ میں قطر کو توقع سے زیادہ کامیابیاں حاصل ہوئی ہیں۔ عام طور پر کھیلوں کے مقابلوں کو تفریح کا ایک ایسا ذریعہ سمجھا جاتا رہا ہے جس کے ساتھ دادِ عیش دینے کے تمام وسائل جڑے ہوتے ہیں۔ یہ مقابلے شراب شباب کباب غرض ہر قسم کی برائیوں اور لعنتوں میں مبتلا ہونے کے مواقع سمجھے جاتے ہیں، لیکن مملکت قطر نے فیفا ورلڈ کپ کے 22 ویں ایڈیشن کو جہاں مشرق وسطیٰ میں فٹبال کے فروغ کا ذریعہ بنایا، وہیں فٹبال کے ان عالمی مقابلوں کو دین اسلام اور مسلمانوں سے متعلق غیرمسلم دنیا میں پھیلی غلط فہمیوں، غلط تصورات و تاثرات کے ازالہ کا ذریعہ بھی بنادیا۔ اسی طرح مملکت قطر نے ان مقابلوں کا اہتمام کرتے ہوئے دنیا میں اسلاموفوبیا کی جو لہر دشمنان اسلام پھیلا چکے ہیں، اسے ختم کرنے ٹھوس قدم اُٹھایا۔ مزید یہ کہ ساری اُمت مسلمہ کو اخوت اسلامی کا درس بھی دیا۔ واضح رہے کہ لوصیل اسٹیڈیم میں سعودی عرب اور ارجنٹینا کے درمیان میچ کے موقع پر امیر قطر صاحب السموع الشیخ تمیم بن حمدالثانی سعودی پرچم تھامے اپنے برادر ملک کے کھلاڑیوں کی حوصلہ افزائی کرتے رہے۔ شاید یہ منظر حالیہ عرصہ کے دوران اخوت اسلامی کا سب سے خوبصورت اور یادگار و تاریخی منظر رہا)۔ اس سے قبل ایکواڈور کے خلاف قطر کے میچ میں سعودی ولیعہد شہزادہ محمد بن سلمان نے قطری پرچم لہراکر قطری کھلاڑیوں کی حوصلہ افزائی کی تھی۔
یہاں اس بات کا تذکرہ ضروری ہوگا کہ سال 2010ء میں مملکت قطر نے فیفا کے انعقاد سے متعلق عالمی بولی میں امریکہ جیسے سپر پاور کو مات دے کر عالمی برادری کو یہ احساس دلایا کہ اگر عزم و حوصلہ بلند ہو اور کچھ کرنے کا جذبہ ہو تو آپ کو ترقی کی راہ پر گامزن ہونے سے کوئی نہیں روک سکتا۔ 12 سال کے دوران دنیا یہ سمجھ رہی تھی کہ 11,571 مربع کیلومیٹر رقبہ پر محیط ایک چھوٹا سا ملک جس کی آبادی 30 لاکھ ہے (جس میں قطری شہریوں کی تعداد صرف 3 لاکھ یعنی جملہ آبادی کا 10%حصہ ہے) کس طرح فیفا ورلڈ کپ کی تیاریاں کرے گا لیکن دنیا نے دیکھ لیا کہ قطر نے ان بارہ برسوں میں تقریباً 300 ارب ڈالرس کی خطیر رقم خرچ کرتے ہوئے نہ صرف 8 وسیع و عریض اور عظیم الشان اسٹیڈیمس تعمیر کروائے بلکہ میٹرو لائن کا آغاز اور ایرپورٹس کی تعمیر عمل میں لاتے ہوئے مختلف ملکوں سے آنے والے شائقین فٹبال کیلئے کئی ایسی سہولتیں مہیا کی جس کی ماضی میں مثال نہیں ملتی۔ واضح رہے کہ فیفا کے 21 ویں ایڈیشن کی میزبانی روس نے کی تھی اور اس نے ٹورنمنٹ کی تیاریوں اور انتظامات پر 18 ارب ڈالرس خرچ کئے تھے تاہم صرف چار سال میں قطر نے روس سے 278 ارب ڈالرس زیادہ خرچ کرتے ہوئے اپنی دریا دلی کا ثبوت دیا ہے۔ جہاں تک اسلاموفوبیا کا سوال ہے، دنیا کے کونے کونے میں بڑی تیزی سے لوگوں کے اذہان و قلوب تک پہنچ رہی دین اسلام کی حقانیت کو روکنے ، اس کی راہ میں رکاوٹیں حائل کرنے، جان بوجھ کر ناپاک سازشوں و منصوبوں اور شیطانی سوچ کے ذریعہ اسلاموفوبیا کی کیفیت پیدا کی گئی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ مسلم دنیا نے اسلاموفوبیا کو روکنے متعدد اقدامات کئے تاہم قطر نے 29 دنوں تک جاری اس ایونٹ میں مختلف ملکوں سے آنے والے بندگان خدا کو دین اسلام کی حقانیت سے واقف کرانے، ان میں اسلام اور مسلمانوں سے متعلق پائی جانے والی غلط فہمیوں کے ازالے کیلئے ان تک پیام اسلام پہنچانے کا بیڑہ اُٹھایا اور اس کیلئے ایسے 2000 داعیان و مبلغین اسلام کی خدمات حاصل کیں جو مختلف زبانوں پر غیرمعمولی عبور رکھتے ہیں۔ قطر میں مقیم ہمارے دوست احباب نے بتایا کہ تمام 8 اسٹیڈیمس، ہوٹلوں، ریسٹورنٹس، پارکس اور دیگر تفریحی مقامات، میٹرو ٹرین ، اس کے اسٹیشنوں اور طیران گاہوں سے لے کر قطر آنے والی پروازوں میں دینی لٹریچر کتابچوں کی شکل میں رکھا گیا ہے۔ ساتھ ہی آیات قرآنی، احادیث مبارکہ پر مبنی پوسٹرس، بورڈس اور ہورڈنگس آویزاں کئے گئے ہیں۔ ساتھ ہی حکومت ِ قطر نے تبلیغ دین کے ایسے مراکز قائم کئے جہاں حق کے متلاشی لوگ دین اسلام سے متعلق پائے جانے والے شکوک و شبہات و غلط تصورات کو اپنے سوالات کے ذریعہ دُور کرسکتے ہیں۔ ان مراکز میں داعیان اسلام دستیاب رہتے ہیں۔ مملکت قطر اگرچہ اپنے حجم یا رقبہ کے لحاظ سے ایک چھوٹا سا ملک ہے لیکن عالمی جغرافیائی و سیاسی لحاظ سے اس کا قد بہت بڑا ہے۔ مثال کے طور پر طالبان اور امریکہ کے درمیان جو امن معاہدہ طئے پایا جس کے نتیجہ میں امریکہ 20 برسوں تک قابض رہنے کے بعد افغانستان سے انخلاء پر مجبور ہوا اور وہاں پھر سے طالبان اقتدار میں آئے، اس کا کریڈٹ بھی مملکت ِ قطر کو جاتا ہے جس کی ثالثی کے نتیجہ میں امریکہ کو اپنی عزت بچاکر افغانستان سے نکلنے کا موقع مل گیا، ورنہ افغانی طالبان کے باعث امریکہ کی سپر پاور کی امیج کو شدید نقصان پہنچتا اور اس کی عزت پوری طرح خاک میں مل گئی ہوتی۔ یہاں اس بات کا تذکرہ ضروری ہوگا کہ قطر ایک چھوٹا سا ملک ہونے کے باوجود عالمی سیاست میں اس کا اہم کردار رہا ہے۔ اسے ’’عالمی ثالث‘‘ کہا جائے تو بیجا نہ ہوگا۔ سفارتی اور سیاسی مذاکرات کے ذریعہ مملکت قطر نے دنیا کو کئی تنازعات اور جنگوں سے بچایا۔ مثلاً سال 2000ء میں اس نے یمنی حکومت اور حوثی باغیوں کے درمیان کامیاب ثالثی کے ساتھ ساتھ لبنان میں دست گریبان متحارب گروپوں کے درمیان ثالثی بھی اس کا اہم کارنامہ ہے۔ اسی کوشش کے نتیجہ میں وہاں اتحادی حکومت قائم ہوئی۔ سوڈان اور چاڈ کے باغیوں کے درمیان ثالثی کے ذریعہ قطر نے علاقہ میں صورتحال کو بگڑنے سے بچایا۔ جبوتی اور ایسٹریا کے درمیان سرحدی تنازعہ کے حل میں کامیاب ثالثی کی، دارفور معاہدہ بھی قطری حکومت کی ثالثی کا اہم کارنامہ ہے جس میں سوڈانی حکومت اور باغی گروپ لبریشن اینڈ جسٹس موومنٹ کے درمیان یہ معاہدہ طئے پایا تھا ۔ مملکت قطر نے ہمیشہ سے ہی فلسطینی کاز کی حمایت کی اور اخوتِ اسلامی کے استحکام کیلئے کام کیا جس کا ثبوت 2012ء میں فلسطینی تنظیموں حماس اور فتح کے درمیان طئے پایا معاہدہ ہے۔ اب بات کرتے ہیں مملکت قطر کی اس بارے میں جیسا کہ ہم نے آپ کو بتایا کہ یہ صرف 11,571 مربع کیلومیٹر رقبہ پر محیط ایک چھوٹا سا ملک ہے اور 1971ء میں مکمل طور پر برطانیہ کے تسلط سے آزاد ہوا۔ اگر اس کی تاریخ کا طائرانہ جائزہ لیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ تقریباً 100 سال قبل وہ ایک ایسی غیرآباد سرزمین تھی جہاں ماہی گیر اور قیمتی سمندری موتیاں جمع کرنے والے رہا کرتے تھے اور ان کی آبادی بھی بہت کم تھی۔ جن کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ 1950ء میں قطر کی جملہ آبادی صرف 24 ہزار تھی اور 1970ء میں وہاں کی آبادی ایک لاکھ تک پہنچ پائی تاہم انگریز تسلط سے آزادی کے ساتھ ہی قطر نے بے مثال ترقی کی اور 1990ء اور 1995ء کے دوران اس کی ترقی کی رفتار دیکھ کر دنیا حیران رہ گئی۔ آپ کو بتادیں کہ دنیا کے تیل کے ذخائر میں سے ایک اہم ذخیرہ کی دریافت نے قطر کی حالت بدل کر رکھ دی۔ آج وہاں کی آسمان کو چھوتی بلند و بالا فن تعمیر کی شاہکار عمارتوں اور دوسری بنیادی سہولتوں کو دیکھ کر یہ کیا جاسکتا کہ کبھی یہ ملک لق دق صحرا تھا۔ 1916ء سے وہاں انگریزوں کا کنٹرول تھا لیکن 1939ء میں تیل کی دریافت نے اس کی قسمت بدل کر رکھ دی۔ اس وقت دوحہ سے 80 کیلومیٹر کے فاصلے پر واقع دخان میں یہ دریافت ہوئی تھی۔ قدرت نے تیل کے ساتھ قطر کو قدرتی گیس کے ذخائر سے بھی نوازا چنانچہ روس اور ایران کے بعد دنیا میں قدرتی گیس کا سب سے بڑا ذخیرہ قطر میں ہے ۔ قطری حکومت نے یوروپ میں قطر اِنوسٹمنٹ اتھارٹی کے ذریعہ اربوں ڈالرس مالیتی جائیدادیں خریدیں، خاص کر لندن ،نیویارک اور پیرس وغیرہ میں یہ جائیدادیں خریدی گئیں۔ اس میں بھی ملک کے نارتھ فیلڈ میں دریافت قدرتی گیس کے ذخائر سے ہونے والی آمدنی کا اہم کردار رہا ہے۔ جہاں دنیا کی 10% قدرتی گیس کے ذخائر موجود ہیں۔ جہاں تک امیر قطر صاحب السموع الشیخ تمیم بن حمد الثانی کا سوال ہے، الثانی خاندان 150 سے زائد برسوں سے حکومت کررہا ہے۔ قطر میں شہریوں کی سالانہ فی کس آمدنی 1,13,675 امریکی ڈالرس ہے۔ 2021ء میں قطر کی فی کس جی ڈی پی 61,276 بتائی گئی ہے۔ واضح رہے کہ 2017ء اور2021ء کے درمیان سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، بحرین اور مصر کی جانب سے تحدیدات عائد کئے جانے کے باوجود قطر کی ترقی کا سفر جاری رہا۔ فیفا ورلڈ کپ 2022ء اس لئے بھی منفرد ہے جس کا آغاز یا افتتاح قطر کے 20 سالہ جسمانی معذور یوٹیوبر غانم المفتاح کی قرأت کلام پاک سے عمل میں آیا جو جسم کے نچلے حصہ سے محروم ہے۔ ان کا جسم سر اور دھڑ تک ہی محدود ہے۔ وہ ایک بہترین تیراک مہم جو بھی ہیں۔ انہوں نے اپنی معذوری کے باوجود 9,827 فٹ بلند جبل الشمس سر کیا تھا۔ وہ فیفا کے سفیر بھی ہیں۔افتتاحی تقریب میں ہالی ووڈ اداکار مورگن فری مین ان کی پرعزم زندگی کو دیکھ کر حیران رہ گئے۔ فیفا فٹبال ورلڈ کپ قطر ایک اور لحاظ سے یادگار بن گیا ہے کہ وہاں ہر روز کثیر تعداد میں مرد و خواتین دامن اسلام میں پناہ لے رہے ہیں۔ حکومت ِقطر نے عالمی شہرت یافتہ اِسلامی اسکالر ڈاکٹر ذاکر نائیک کو بطور خاص لیکچرس کیلئے مدعو کیا ہے جس پر ہمارے وطن عزیز میں دائیں بازو کے عناصر برہمی کا اظہار کررہے ہیں۔ حالانکہ ڈاکٹر ذاکر نائیک نے ’’شاہ فیصل ایوارڈ‘‘ (عرب دنیا کا نوبل انعام)، متحدہ عرب امارات کی جانب سے ’’اِسلامی شخصیت‘‘ کا اعزاز اور ملائیشیا کی جانب سے توکوما الھجرہ 1435 اور شارجہ ایوارڈ فار والینٹری ورکس جسے ایوارڈس حاصل کرتے ہوئے ہندوستان کا نام روشن کیا لیکن ان پر دہشت گردوں کی حوصلہ افزائی کا لیبل چسپاں کردیا گیا۔ ڈاکٹر ذاکر نائیک فی الوقت ملائیشیا میں مقیم ہیں اور مملکت قطر نے انہیں مدعو کرکے یہ بتا دیا کہ وہ ان ہندوستانیوں کی قدر کرتا ہے جو اپنے کارناموں کے ذریعہ ملک و ملت کا نام روشن کرتے ہیں۔ قطر میں مبلغین و داعیاں اسلام کی کوششوں سے اللہ عزوجل نے تقریباً 800 تا 900 متلاشیان حق کے وجود کو شمع ہدایت سے روشن کردیا۔ اب بات کرتے ہیں فیفا اور ہندوستان کی ۔ فیفا درجہ بندی میں ہندوستان کا رینک 106 واں ہے جبکہ پڑوسی ملک پاکستان کی اوربری حالت ہے۔ وہ 194ء رینک پر ہے۔ ایک دور تھا جب 1950ء میں ہندوستانی فٹبال ٹیم نے ورلڈ کپ کیلئے کوالیفائی کیا تھا لیکن اس نے بعض وجوہات کے باعث خود کو ٹورنمنٹ سے دستبردار کرلیا ۔ جہاں تک فٹبال کی تاریخ کا سوال ہے، فٹبال یا ساکر کی جدید تاریخ کا آغاز برطانیہ میں 19 ویں صدی کے اوائل میں ہوا جبکہ اس کھیل کی تاریخ 3000 سال قدیم ہے۔ یہ وسطی امریکی تہذیب کا حصہ ہوا کرتا تھا، لیکن اب قطر نے فٹبال کو امن ، دوستی ، اخوت ِ اسلامی اور انسانیت کے گلوب میں تبدیل کردیا ہے۔
mriyaz2002@yahoo.com