قاتلوں و زانیوں کی انتخابی مہم

   

محمد عاصم
گجرات اسمبلی انتخابات میں تمام سیاسی جماعتوں کی سرگرمیاں تیز ہوگئی ہیں اور جہاں تک گجرات کے مسلمانوں بالخصوص گجرات فسادات 2002ء کے متاثرین کا سوال ہے۔ ان کے بارے میں وہ کہتے ہیں، وقت تمام زخموں کو مندمل کردیتا ہے ، لیکن انتخابات کے وقت2002ء فسادات کے زخم نہ صرف تازہ ہوجاتے ہیں بلکہ ان سے خون بھی رسنے لگتا ہے۔ یہ انتخابی موسم بھی اس بات کا نظارہ کررہا ہے کہ بی جے پی ناقابل فراموش مسلم کش فسادات بلکہ قتل عام کے متاثرین کے زخموں پر نمک چھڑک رہی ہے۔ مثال کے طور پر بی جے پی کی مرکزی و ریاستی حکومتوں نے ایک منصوبہ بند انداز میں باالفاظ دیگر مل جل کر بلقیس بانو ریپ کیس 2002ء کے 11 خاطیوں کو رہا کردیا۔ اس ضمن میں بی جے پی کی مرکزی و ریاستی حکومتوں پر جس طرح کے سنگین الزامات عائد کئے جارہے ہیں، ان کا جائزہ لینے پر سچائی اور حقیقت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے ۔ واضح رہے کہ جن 11 خاطیوں کو یوم آزادی (جشن آزادی) کے ضمن میں رہا کیا گیا ، دراصل انہیں عدالت نے ایک حاملہ خاتون (بلقیس بانو) کی اجتماعی عصمت ریزی اور اس کی تین سالہ بیٹی کو انتہائی بہیمانہ انداز میں قتل کرنے کا خاطی پایا۔ صرف ایک ہی رات میں بلقیس بانو کے 9 ارکان خاندان کا قتل کیا گیا جس میں بلقیس بانو کی تین سالہ بیٹی بھی شامل ہے۔ اس لڑکی کو پتھر پر پٹخ پٹخ کر قتل کیا گیا۔ اس طرح کی شیطانی حرکت کے مرتکبین کو مرکزی اور ریاستی حکومتوں کی تجویز و سفارش پر رہا کردیا گیا اور جب وہ جیل کے باہر آئے تب ان تمام کا ایسے استقبال کیا گیا جیسے ان لوگوں نے ملک و قوم کیلئے بہت بڑے کارنامے انجام دیئے ہوں۔ ان زانیوں اور قاتلوں کی نہ صرف گلپوشی کی گئی بلکہ انہیں مٹھائیاں بھی کھلائی گئیں لیکن اس تمام واقعہ کو لے کر زبردست برہمی کا اظہار بھی کیا گیا۔ ساتھ ہی یہ بھی کہا گیا کہ بی جے پی نے آخر اس قدر بھیانک اور عجیب و غریب فیصلہ کیسے کیا؟ بہرحال مرکزی و ریاستی حکومتوں کی مہربانی سے زانیوں و قاتلوں کو رہا کیا گیا اور وہ آزادانہ گھوم پھر رہے ہیں۔ ان پر کسی قسم کی روک ٹوک نہیں ہے، وہ اپنے خطرناک جرائم کے باوجود رہائی پاکر بہت خوش ہے۔ اس کے برعکس ناقابل تصور ظلم و جبر سہنے والی بلقیس بانو خوف میں زندگی گذار رہی ہے کیونکہ اسے احساس ہے کہ پھر ایک بار مرکز اور ریاست میں حکمراں پارٹی کے ہاتھوں اس کے ساتھ ناانصافی کی گئی، ایسی ناانصافی جسے ساری دنیا نے بڑی خاموشی سے دیکھا۔ حد تو یہ ہے کہ ایک بی جے پی ایم ایل اے نے ان زانیوں اور قاتلوں کی رہائی پر یہاں تک کہا کہ یہ تمام سنسکاری برہمن ہیں۔ زانیوں اور قاتلوں کو سنسکاری برہمن قرار دینے کا انعام یہ دیا گیا کہ انہیں حلقہ اسمبلی گودھرا سے پھر پارٹی امیدوار نامزد کردیا گیا ہے۔ یہاں اس بات کا تذکرہ ضروری ہوگا کہ گجرات میں آئندہ ماہ انتخابات ہونے والے ہیں۔ بی جے پی نے ایک اور بھیانک مذاق یہ کیا کہ مسلمانوں کے زخموں پر نمک چھڑکتے ہوئے اس نے نروڈا پاٹیہ قتل عام کے ایک خاطی کی بیٹی کو اپنا امیدوار بنایا ہے۔
ستمبر 2016ء میں گجرات ہائیکورٹ نے کلکرنی کی ضمانت منظور کی، اس کے وکیل نے عدالت بتایا کہ اس کا موکل پوری طرح بستر پر ہے، اُٹھنے بیٹھنے کے قابل نہیں۔ وہ اس قدر بیمار ہے کہ روزمرہ کے کام کاج کرنے سے بھی قاصر ہے اور اس کی حالت دن بہ دن بگڑتی جارہی ہے اور اب وہی منوج کلکرنی اپنی بیٹی اور بی جے پی امیدوار کے حق میں مہم چلا رہا ہے اور اس کی اطلاع میرے ایک دوست تنو شری پانڈے نے دی۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر گجرات کے اور ملک کے مسلمانوں کو حکومت کیا پیغام دے رہی ہے؟ ان مجرمین کے جرائم کی کوئی اہمیت نہیں اور اس قدر سنگین جرائم کے مرتکبین کو سزائیں دینے کی بجائے انعامات سے نوازا جائے گا۔