قرآن سرچشمۂ ہدایت

   

محمد حسین قریشی نظامی
خالق کائنات اﷲ سبحانہ و تعالیٰ اپنے بندوں کی ہدایت و رہنمائی اور حقیقی فلاح و کامرانی کے لئے انبیاء کرام و رسلین عظام علیہم السلام کو اس خاکدانِ گیتی میں وقتاً فوقتاً مبعوث کرکے ان پر آسمانی صحائف و کتب نازل فرماتا رہا تاآنکہ یہ سلسلہ پیارے نبی حضرت محمد مصطفی ﷺ پر ختم ہوگیا ۔ موجودہ دور میں عالم اسلام جن سنگین حالات سے دوچار ہیں اس کی من جملہ وجوہات میں سے بنیادی و اساسی وجہ قرآن مجید اور اس کی تعلیمات سے دوری ہے ۔
قرآن کریم ساری انسانیت کیلئے اﷲ جل جلالہ کی عطا کردہ ایک کتاب حکیم و نعمت عظیم ہے جس کے نزول کا مقصد اولین بنی نوع انسان کی اصلاح ، تربیت اور اس کے نفسِ امارہ کو نفسِ مطمئنہ بناکر اپنے خالق و مالک حقیقی کی اطاعت و انقیاد کا خوگر کرتا ہے اور ہمیشہ راہ حق پر گامزن رکھ کر قرب مولا و وصل یار کی لذتوں سے سرشار کرتا ہے ۔
اﷲ رب العزت کا ارشاد ہے : ’’اﷲ قرآن مجید کے ذریعہ ان لوگوں کو جو اس کی رضا کے پیرو ہیں ، سلامتی کی راہوں کی ہدایت فرماتا اور انھیں اپنے حکم سے ( کفر و جہالت کی ) تاریکیوں سے نکال کر (ایمان و ہدایت کی ) روشنی کی طرف لے آتا ہے اور انھیں سیدھی راہ کی سمت ہدایت فرماتا ہے ۔ (سورۃ المائدہ)
’’بے شک یہ قرآن نصیحت ہے ، پس جو شخص چاہے اپنے رب تک پہنچنے کا راستہ اختیار کرلے ‘‘۔ ( سورۃ المزمل )
ہر دور میں قرآن مجید کے دامن کو مضبوطی سے تھامے رہنے کا حکم دیتے ہوئے اﷲ کے حبیب علیہ الصلوٰۃ والسلام نے حجۃ الوداع کے خطبہ میں ارشاد فرمایا کہ :’’اے لوگو بے شک میں تم میں وہ چیزیں چھوڑے جارہا ہوں جنھیں تم تھام لوگے تو کبھی گمراہ نہیں ہوں گے ۔ ایک اﷲ کی کتاب قرآن مجید ہے اور دوسری میری عترت اہل بیت اطہار ہیں (ترمذی ) ایک اور مقام پر ارشاد فرمایا : ’’بے شک دلوں کو زنگ لگتا ہے جیسے لوہے کو زنگ لگتا ہے تو عرض کیا گیا یا رسول اﷲ ﷺ اس کو کیسے دور کیا جائے ؟ ارشاد فرمایا قرآن کی تلاوت اور موت کی یاد سے اس کو دور رکھا جاسکتا ہے ‘‘ ۔

حضرت ابوھریرہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے رسول پاک ﷺ نے ارشاد فرمایا : ’’جو لوگ اﷲ کے کسی گھر میں جمع ہوکر قرآن کو پڑھتے اور سیکھتے و سکھاتے ہیں تو ان پر سکینہ نازل ہوتی ہے ، رحمت چھاجاتی ہے ، فرشتے ڈھانپ لیتے ہیں اور اﷲ تعالیٰ ان کا تذکرہ اپنے پاس والی مخلوق سے کرتے ہیں ‘‘۔ ( مسلم شریف )
مفسر قرآن علامہ قاضی محمد ثناء اﷲ پانی پتی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : قرآن کریم زندگی کے جمیع معاملات میںہر ایک کی اتنی حسین و دلکش رہنمائی فرماتا ہے کہ جو بھی اپنی حیات مستعار کو اس کے احکام اور نصیحت کے تابع بنائے ناکامی اس کے قریب دم نہیں مارسکتی ۔ یہ قرآن ہی کا فیضان ہے کہ اس نے عرب کے بدؤں اور تہذیب و ثقافت سے ناآشنا لوگوں کو دنیا کا امام بنادیا ۔ قرآن ہمارے دین و دنیا کا محافظ ہے ۔ یہ ہمارے امن و سکون کا امین ہے ۔ (مقدمہ تفسیر مظہری)

محدث دکن حضرت سید عبداﷲ شاہ نقشبندیؒ دونوں عالم میں کامیابی و سرخروئی کیلئے تعمیل قرآن کی ترغیب دلاتے ہوئے فرماتے ہیں : ’’اگر تم نیکیوں کی زندگی ، شہیدوں کی موت ، حشر کے دن نجات ، قیامت کی گرمی کے دن سایہ اور گمراہی سے ہدایت چاہتے ہو تو ہمیشہ قرآن پر عمل کرو ، پڑھو ، سنو ، یہ کلام الٰہی شیطان سے محفوظ رہنے کا قلعہ اور میزان کو جھکادینے والا ہے ۔‘‘( فضائل رمضان )
آیات قرآنیہ ، احادیث مبارکہ اور اقوال اولیاء کے خلاصہ سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ یہی معیار ہے حق و صداقت اور رشد و ہدایت کا، اگر کوئی اس سے بال برابر بھی انحراف کرتا ہے تو ہدایت سے وہ ہمکنار نہیں ہوسکتا ۔ صدہا افسوس کہ آج مسلم سماج صبح قیامت تک پیش آنے والے سارے مسائل کی رہنمائی و رہبری کرنے والی کتاب مبین کو صرف زینتِ طاق بنائے رکھاہے ۔ اس کی روشن تعلیمات کو پس پشت ڈال کر پرشکوہ مادیت اور چمکتی دنیا پر فریفتہ ہوگیا ہے اور اپنی ساری وضع قطع اغیار کے مشابہ کرچکا ہے ۔ سبھی جانتے ہیں کہ نزول ِ قرآن سے قبل باشندگان عرب کا کیا حال تھا لیکن محسن انسانیت ، رحمۃ للعالمین ﷺ نے پیغام الٰہی کو جس انداز سے اُن کے سامنے پیش کیا تو ان میں سے جنھوں نے اس کی دعوت کو سرخم تسلیم کرکے اس کے احکامات پر عمل پیرا ہوئے تو دنیا نے دیکھا کہ وہ کیا سے کیا ہوگئے ۔ اس پرآشوب دور میں ہم بھی راہِ حق تک پہنچ سکتے ہیں بشرطیکہ ہم قرآنِ حکیم کی پاکیزہ ہدایات و تعلیمات کو سرتسلیم خم کرکے اپنی ساری متاعِ زیست کو اس شاہراہِ ہدایت پر گامزن رکھیں جس کو قرآن مجید نے ہمارے لئے تجویز کیا ہے ۔ قرآنی ہدایت نہ صرف عہدِ رسالت کیلئے مخصوص تھی بلکہ آج کے پرفتن دور اور کل بروز محشر تک بنی نوع انسان کو قدر و منزلت ، شان و شوکت ، شرف و فضیلت ، عزت و عظمت اور مقامِ رفعت کی ان بلندیوں پر لے جاسکتی ہے جہاں کسی بشر کی رسائی ممکن نہیں بشرطیکہ ہم اس کے چشمۂ فیض سے علوم و معارف کے جو دریا بہہ نکلے ہیں ان میں غوطہ زنی کرنا سیکھیں۔ ہم مسلمانوں کی یہ لازمی ذمہ داری ہے کہ وقت کی اہمیت اور حالات کی نزاکت کو پیش نظر رکھتے ہوئے تلاوتِ قرآن ، فہمِ قرآن ، تعمیل احکاماتِ قرآن اور تبلیغ ِ قرآن میں کوئی کسر نہ چھوڑیں۔ یومیہ آیت واحدہ ہی سہی ، سمجھ کر تلاوت کرنے اور اس پر عمل کرنے کی سعی کریں تو یقینا ًہماری زندگیوں میں بھی عظیم انقلاب پیدا ہوگا ۔