قرآن کریم سرچشمہ ٔہدایتاورقلبی، ذہنی اور جسمانی بیماریوں کا علاج

   

اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت و نبوت کی تائید کے لئے جو واضح نشانیاں نازل فرمائیں، ان سب کی عظمت و فضیلت مسلم، مگر قرآن مجید میں علمی کمالات و صفات، عظمت و جلالت اور انسانیت کے لئے جو فوائد و خصائص پوشیدہ ہیں، وہ انبیاء کرام علیہم السلام کو عطا ہونے والے معجزات میں سب نظر آتے ہیں۔ جس طرح اللہ تعالی کی ذات بابرکت بے مثل و بے مثال ہے، اسی طرح اس کا یہ کلام بھی بے مثل و بے مثال ہے۔
قرآن کریم، حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا سب سے عظیم، لافانی اور ابدی معجزہ ہے، جو اپنے الفاظ وکلمات، اپنے جملوں اور اپنے اسلوب بیان کے اعتبار سے بھی بے مثل و بے مثال ہے اور اپنے مضامین اور افکار کی بناء پر بھی دنیا کا سب سے زیادہ محیر العقول معجزہ اور رہتی دنیا تک انسانوں کے لئے ہدایت و رہنمائی کا سب سے بڑا سرچشمہ ہے۔
کتب سیر اور کتب حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ اہل عرب نے جب پہلی مرتبہ قرآن کریم کے معجزنما بیان کو سنا تو وہ اس کی سماعت پر حیرت زدہ ہو گئے اور اس کی فصاحت و بلاغت کے سامنے ان کی گردنیں جھک گئیں۔ انھوں نے اس کے سامنے اپنے شعری دیوان پھینک دیئے اور کئی پختہ کلام شعراء نے شاعری چھوڑدی، جس سے قرآن کریم کی تاثیر اور اس کے بیان کی عمدگی کا پتہ چلتا ہے۔ اہل عرب نے جب قرآن مجید کو سنا تو اس کلام کی حلاوت و مٹھاس سے لطف اٹھاکر ہر کلام کی لذت کو بھول گئے۔ مروی ہے کہ سبع معلقات کے مشہور شاعر لبید بن ربیعہ سے جب حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ نے اشعار سننے کی خواہش کی تو انھوں نے سورہ بقرہ سنادی۔ (الاصابہ)
نامور سیرت نگار ابن ہشام نے حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ کے قبول اسلام کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ انھوں نے جب اپنی ہمشیرہ حضرت فاطمہ بنت خطاب کے ہاں قرآن کریم کی سورۂ طٰہ کی تلاوت سنی تو کہہ اٹھے: ’’یہ کتنا عمدہ اور معزز کلام ہے‘‘ اور پھر مسلمان ہوگئے۔ (ابن ہشام)
ولید بن مغیرہ کی نسبت منقول ہے کہ ایک آیت سن کر کہا تھا: ’’بخدا! اس میں حلاوت اور رونق و حسن ہے۔ اس کا باطن پانی سے لبالب معمور اور اس کا ظاہر پھلدار ہے اور یہ کسی انسان کا کلام نہیں‘‘۔ (الشفاء۔۱۲۷)
ایک اعرابی آیت قرآنی سن کر سجدہ ریز ہو گیا، پھر کہا: ’’میں نے اس کی فصاحت و بلاغت کو سجدہ کیا ہے‘‘۔ (الشفاء)
حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ ایک مرتبہ مسجد میں استراحت فرما رہے تھے کہ انھوں نے دیکھا کہ ان کے سرہانے دو بوز نطی بطریق کلمہ شہادت پڑھ رہے ہیں۔ پتہ چلا کہ انھوں نے روم میں ایک مسلمان قیدی کی زبان سے ایک آیت سنی تھی، جس کے الفاظ کی شان و شوکت اور اس کے معانی پر غور و فکر سے ان پر راہ حق واضح ہو گئی (الشفاء۔۱۲۸) اسی طرح نامور عرب سردار حضرت طفیل بن عمرو دوسی رضی اللہ تعالی عنہ نے جو قبیلہ دوس کے سردار تھے، نبی اکرم ﷺکی زبان مبارک سے قرآن کریم سنا تو وہ کہہ اٹھے: ’’واللہ! میں نے اس سے عمدہ کلام اور اس سے زیادہ مبنی برانصاف بات کبھی نہیں سنی‘‘ اس کے بعد وہ مسلمان ہوگئے۔ (الشفاء)
قرآن حکیم کا اسلوب سب سے مختلف ہے، وہ نہ تو شعر ہے، نہ ہی مروجہ نثر اور نہ ہی سجع، بلکہ یہ کلام کہیں چھوٹی چھوٹی آیات (قطعات) پر مشتمل ہے تو کہیں بڑی بڑی آیات سے عبارت ہے، مگر ہرجگہ الفاظ کی رونق اور چمک دمک کے ساتھ ساتھ معانی کا ایک بحر بیکراں ٹھاٹھیں مارتا ہوا دکھائی دیتا ہے۔ اسی پر فصحائے عرب کو اس کلام کی صنف متعین کرنے میں بے حد دشواری کا سامنا کرنا پڑا، جیسا کہ مذکورہ ہے کہ ایک مرتبہ ولید بن مغیرہ نے قرآن کی کوئی آیت سنی تو وہ اس سے متاثر ہوا۔ ولید نے کہا: ’’بخدا! مجھ سے زیادہ تم میں عربی اشعار کا جاننے والا کوئی نہیں، شعر سے اس کلام کو کوئی مناسبت ہی نہیں‘‘۔
ایک دوسرے موقع پر کسی نے آپﷺ کو کاہن، جادوگر یا مجنون (نعوذ باللّٰہ من ذالک) کہنے کی تجویز پیش کی، تو ولید نے مخالفت کی اور کہا: ’’نہ تو آپ کاہن ہیں، (کیونکہ آپ کے کلام کو کاہنوں کے کلام سے کوئی واسطہ نہیں )اور نہ ہی جادوگر اور مجنون ہیں‘‘۔ (الشفاء۔۱۲۹)
سردار قریش عتبہ بن ربیعہ نے یہ کلام سنا تو کہا: ’’بخدا! آج تک میں نے ایسا کلام کبھی نہیں سنا، نہ تو یہ شعر ہے اور نہ سحر‘‘ (الشفاء۔۱۳۰) اسی طرح حضرت ابوذر غفاری رضی اللہ تعالی کے بھائی انیس غفاری جو خود بھی ایک بلند پایہ شاعر تھے، اسلوب قرآن کی نسبت یہ گواہی دی: ’’میں نے آپ کا کلام سنا، مگر آپ کے بلند پایہ کلام سے یہ بات اچھی طرح واضح ہو جاتی ہے کہ آپﷺ جو کچھ کہتے ہیں سچ ہے اور آپ کے دشمن جھوٹے ہیں‘‘۔ (حوالہ مذکورہ)
قرآن حکیم کی ایک نمایاں خصوصیت یہ ہے کہ اس میں کثرت سے بدائع اور صنائع نظر آتے ہیں، جن کا مطالعہ انسان کو حیرت زدہ کردیتا ہے، یعنی ایسے لفظی اور معنوی اصولوں کے استعمال کی کثرت نظر آتی ہے، جن کی وجہ سے کوئی کلام درجۂ کمال کو پہنچتا ہے۔ چنانچہ امام سیوطی رحمۃ اللہ علیہ سورۂ ھود کی آیت ’’وَقِيْلَ يَآ اَرْضُ ابْلَعِىْ مَآءَكِ … الی آخر‘‘ (آیت۴۴) ترجمہ: ’’اور حکم دیا گیا کہ اے زمین اپنا پانی نگل لے اور اے آسمان تھم جا اور پانی خشک کردیا گیا اور حکم تمام ہوا اورکشتی جودی پہاڑ پر آٹھہری اور فرمایا گیا کہ ہلاکت ہو ظالم لوگوں کے لئے‘‘ کی نسبت ابن ابی الاصبح کا قول نقل کرتے ہیں کہ میں نے آج تک اس جیسے کلام کی مثال نہیں دیکھی، اس میں سترہ (۱۷) الفاظ اور بیس بدائع ہیں۔ (الاتقان فی علوم القرآن)
پس قرآن مجید ساری انسانیت کے لئے سرچشمہ ہدایت ہے، ظاہری و باطنی بیماریوں کا علاج ہے۔ قلبی، ذہنی اور جسمانی بیماری کی دوا ہے۔ اس کی حلاوت آشکار ہو جائے تو دنیا کے کسی کلام میں کچھ لطف محسوس نہیں ہوگا۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: ’’میں تم میں دو چیزیں چھوڑے جا رہا ہوں، اگر تم ان کو مضبوطی سے تھامے رکھو گے تو کبھی گمراہ نہیں ہوگے اور وہ کتاب اللہ اور سنت رسول ہیں‘‘۔ (البخاری)