قربانی ایک عظیم نعمت ہے

   

مولوی محمد عابد حسین نظامی
اللہ سبحانہ وتعا لیٰ کا بے پناہ شکر احسان عظیم ہے کہ اس ذات واحد نے ہمیں اپنی قدرتِ کا ملہ سے انسان بنایااور حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کی اُمت بابر کت میں پیدا ہو نے کا اعزاز بخشا۔ اسی لیے تو کہا جا تا ہے کہ بندہ مؤمن اپنی قسمت پر جتنا بھی ناز کرے کم ہے ۔قربانی کی تعریف یہ بتلائی گئی ہے کہ مخصوص مہینہ کی مخصوص تاریخ میں مخصوص جانور کو قربان کرنے کا نام قربانی ہے ۔قربانی کا جانور نماز عیدالاضحی ادا کرنے کے بعد ذبح کیا جاتا ہے تو احادیث صحیحہ میں بتلایا گیاکہ جانور کے جسم سے جو خون کا پہلا قطرہ زمین پر گرتا ہے تو فوراً صاحب قربانی کا گھر آفات و بلیات سے محفوظ ہوجاتا ہے اور صاحب قربانی کے تمام گناہ معاف کردئیے جاتے ہیں جب بندہ مؤمن قربانی کا جانور ذبح کرتاہے تو وہ خون اللہ تبارک وتعالیٰ کی بارگاہ میں بہت پسند یدہ اور مقبول عمل ہے اور یہ ہی جانور کل بروز محشر اپنے سینگوں، بالوں،اور کھروں کے ساتھ آئے گا۔صرف جانور کے قربان کرنے پر اللہ پاک کا فرمان جاری ہوتا ہے کہ اے میرے بندے تیرا جانور میری رضاء وخوشنودی کے لئے اور سنت ابراھیمیؑ پر عمل پیرا ہوتے ہوے قربان کرتا ہے تو اپنی عزیز جان کو میری راہ میں قربان کرنے کے مانند ہے صاحبِ قربانی جانور سے جتنی زیادہ محبت کرتا ہے اتنا ہی زیادہ اس کے درجات بلند ہوتے ہیں کیو نکہ ہمارے سامنے حضرت ابراھیم علیہ السلام کی حیات مبارکہ کے درخشاں پہلو تاریخ و سیرت اور احادیث کی روشنی میں بتلا یا جا تا ہے کہ اللہ کے حکم سے حضرت ابراھیم علیہ السلام نے اپنے معصوم فرزند حضرت اسمٰعیل علیہ السلام کو ذبح کرنے کے لئے تیار ہوے یہاں تک کہ اپنے آنکھوں پر پٹی باند ھکر اپنے معصوم لخت جگر کو ذبح کرنے کے لئے قبلہ رُخ لٹادیا۔

دیکھا آپ نے مقدس کلام قرآن مجید میں خود رب العلمین نے اعلان فرمایا کہ جب حضرت ابراھیم علیہ السلام نے خواب میں دیکھا کہ وہ اپنے ہاتھوں سے اپنے فرزند ارجمند حضرت اسمٰعیل علیہ السلام کو ذبح کررہے ہیں تو نماز فجر اداکرنے کے بعد ۱۰۰ سرخ مصری اونٹ اللہ کی راہ میں قربان کیے ، دوسری رات یہی خواب دیکھا تو وہی عمل کیا، تو اسی طرح متواتر ۳ رات یہی خواب دیکھا اور اسی عمل کو اختیار کیا اس کے بعد اللہ کا حکم ہوا کہ اے ابراھیم اب تک جانوروں کو قربان کرتے رہے اب جانوروں کی قربانی نہیں چاہیے بلکہ اپنے بیٹے کی عزیز جان کو قربان کرو تو حضرت ابراھیم علیہ السلام اس خواب کو مکمل کرنے کیلئے تیار ہوئے۔ اپنے فرزند ارجمند کو تیار کرکے لے چلے اور راستہ میں بطور مشورہ پوچھا کہ اے میرے دل کے ٹکرے میں نے اس طرح خواب دیکھا تو اس طرح اتنے اونٹ اللہ کی راہ میں قربان کیے مگر اب اللہ پاک کا حکم ہے کہ اب آپ کو قربان کروں تو اسی ارادہ کے ساتھ لے جارہا ہوں تاکہ اللہ کے اس امتحان میں کامیاب ہوجاؤں تو بتاؤ آپ کی کیا راے ہے تو حضرت اسمٰعیل علیہ السلام نے فرمایا کہ باباجان اگر اللہ تبارک و تعالیٰ کا حکم ہے تو مجھے ضرور اللہ کی راہ میں قربان کردیجئے، تاکہ اللہ رب العزت کی رضا و خوشنودی حاصل ہو سکے اور مجھکو آپ ان شاء اللہ صبر کرنے والوں میں سے پا ئینگے مگر میری آپ سے گذارش ہے کہ آپ پہلے اپنے آنکھوں پر پٹی باندھ لیں تاکہ بیٹے کا غم نہ ہو پھر میرے ہاتھ پیر کو رسی سے باندھ دیجیے تا کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ میرے ہاتھ پیر کی حرکت کی وجہ سے آپ کو تکلیف ہو۔ الغرض حضرت ابراھیم علیہ السلام ذبح کرنے کیلئے چھری چلائے مگر وہ چھری آپ کا گلہ کاٹ نہ سکی پھر وہاں ایک جنتی دنبہ حاضر کردیا گیا تا کہ اسمٰعیل کے بجاے وہ دنبہ ذبح ہو جائے۔تو اے ایمان والو دیکھا آپ نے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ ہم گناہ گاروں پر کتنا مہربان ہے جو خود بیٹے کی قربانی کا حکم دے اور ذبح کے وقت محفوظ کرکے ایک دنبہ ذبح کروائے۔

اللہ کے رسول حضرت محمد مصطفی احمد مجتبیٰ ﷺ کا فرمان عالی شان ہے کہ اے لوگو جو چیز تمہیں پسند کرتے ہو وہی چیز اپنے بھائی کے لئے پسند کرو، اِس بات سے اندازہ کیجیے اے ایمان والو کہ حضور ﷺ نے صرف بھائی کا لفظ استعمال فرمایا یہ نہیں کہا کہ مسلمان بھائی کے لئے(یعنی کوئی بھی چیز ہمیں پسند نہیں ہے وہ کسی بھا ئی کو نہ دیں ،ہاں اگر واقعی استعمال کے لا ئق ہوتو پھر اجازت ہے :جیسا کہ کوئی مالدار آدمی کسی نئے گھر یا نئی جگہ اگر منتقل ہو رہا ہے ایسے میں وہ پرانی اشیاء کو دینا چا ہے تو دے سکتا ہے مگر نا کارہ چیزوں کو نہ دیں جو استعمال کے قابل نہ ہوں)شریعت محمدی میں بتلایاگیا کہ قربانی کے مکمل گوشت یعنی اس جانور کے جو جو حصے حلال و جائز ہیں ان تمام کے ۳ حصے برابر برابرکرکے ایک حصہ غرباء ومساکین کے لئے،دوسرا حصہ اپنے دوست احباب اور پڑوسیوں کے لئے،تیسرا حصہ خود اپنے گھر والوں کے لئے رکھے اِس سے اللہ اور اُس کا رسول بھی خوش ہو جا ئے ورنہ تھوڑی سی غلطی کی وجہ سے ہمارا سارا کا م بگڑ جا ئے گا۔ مگر عام طور پر دیکھنے میں یہ آتا ہے کہ بعض لوگ نا کا رہ گوشت جیسے ہڈیاں،آنتیں، وغیرہ کو غربا مساکین میں تقسیم کرنے کے لئے استعمال کرتے ہیں اپنے لئے اور اپنے خاص خاص رشتہ داروں کے لئے عمدہ گوشت الگ رکھتے ہیں یہ بالکل غلط ہے جب کہ قربانی کے لئے بتلایا گیا کہ یہ ایک ایسی عظیم نعمت ہے کہ جب بندہ مؤمن ایک واجب ادا کرتاہے یعنی قربانی دیتا ہے تو وہ اپنے ذمہ سے دو حقوق کو ادا کرتا ہے ایک حقوق اللہ ادا ہوتا جب جانور ذبح ہو جاے اور دوسرا حق حقوق العباد اس وقت ادا ہو تا ہے جب بندہ مؤمن مساوی طور پر کچھ تخصیص کرے بغیرصحیح استعمال کرتے ہوے اللہ کے بندوں کا حق ادا کرتا ہے،چاہے وہ غرباء ومسا کین کے لئے ہو یا اپنے دوست احباب اور پڑسیوں کے لئے اور یہ بھی ذہن میں بیٹھا لیں کہ اگر ہم اپنے قربانی کے گوشت میں سے غربا ومساکین کو دیتے ہیں تو یہ ہمارا احسان نہیں ہے بلکہ ان غربا ومساکین کا حق ہمارے ذمہ رکھا گیا اس کو ادا کرنا ہے اگر حقوق العباد میں گڑبڑ ہو تو اللہ پاک کے پاس یہ قربانی قبول ہونا محال ہے ۔ اﷲتعالیٰ ہم سب کو نیک توفیق عطا فرمائے۔ آمین