قربا نی اطاعت حق کا نشان، اسلامی شعار ، حضرت ابراہیم ؑ کی سنت اور اہل نصاب پر واجب

   

آئی ہرک کے تاریخ اسلام اجلاس میں مذاکرہ’’قربانی‘‘۔ ڈاکٹر سید محمد حمید الدین شرفی ،پروفیسر سید محمدحسیب الدین حمیدی اور دیگر حضرات کے خطابات

حیدرآباد ۔11؍ اگسٹ( پریس نوٹ) اسلام میں قربانی کی حقیقت سب سے الگ ، خالص اللہ کے لئے، اللہ تعالیٰ کی رضا جوئی کے لئے اور تقرب مولیٰ تعالیٰ کے وسیلہ کے طور پر واجب ہے جس کی اپنی ایک اعلیٰ ترین اور روحانی تاریخ ہے جو اللہ تعالیٰ کے خلیل، رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے جد مکرم حضرت ابراہیم علیہ السلام کی بارگاہ الٰہی میں قربانی پیش کرنے سے وابستہ ہے ۔اسلام شرک و کفر کی بیخ کنی کے لئے آیا ہے، اس نے ان تمام مشرکانہ طور طریق اور غیر اللہ کے لئے بھینٹ، بلیدان، بلی، چڑھاوے وغیرہ جو اہل شرک و کفر کے معمول ہیں ان سے ا ہل حق اور ایمان والوں کو دور اور پاک و صاف رکھا ہے اور صرف اللہ تعالیٰ کی عبادت کا پابند کیا ہے۔ حضرت ابراہیم ؑ کی حیات مبارکہ عشق معبود حقیقی اللہ تعالیٰ سے معنون ہے، وہ جہاں جہاں تشریف لے جایا کرتے معبود یکتا کی بندگی کے لئے عبادت کی جگہ بناتے اور قربان گاہ قائم کرتے تھے تاکہ اللہ وحدہٗ لاشریک کی عبادت اور اس کی بارگاہ میں جان و مال کی قربانی پیش کرنے کے لئے پاک و صاف جگہ مختص رہے۔قربانی کا تصور انسانی معاشرہ میں ابتداء ہی سے موجودہے اور انسانی افکار و عقائد کے ساتھ وابستہ ہے۔ مومن اپنے خالق و معبود کی رضا اور خوشنودی کے حصول کی خاطر بدنی مشقت اور مالی نذرانے پیش کرتے رہنے کا خوگر رہا ہے جسے عبادت سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ قربانی مومن کے اپنے خالق و معبود پر جان و مال نچھاور کرنے کے جذبہ صحیح سے متعلق ایک خاص طریقہ بندگی ہے۔ شریعت اسلامی نے وسیع تر مفہوم میں قربانی کا حکم دیا ہے۔ ’’قرب‘‘ سے مشتق عربی لفظ ’’قربانی‘‘ کے معنی وہ چیز جس کے ذریعہ تقرب الی اللہ حاصل کیا جائے ذبیحہ ہویا کچھ اور۔ یعنی وہ چیز جو خدائے تعالیٰ کی راہ میں تصدق کی جائے بعض محققین کا کہناہے کہ ’’ہر نیک کام جس کے وسیلہ سے اللہ تعالیٰ کی رحمت سے قریب ہونے کا ارادہ کیا جائے قربانی ہے‘‘۔ علماء کرام اور دانشور حضرات نے آج صبح ۹ بجے ’’ایوان تاج العرفاء حمیدآباد‘‘ واقع شرفی چمن،سبزی منڈی اور ۳۰:۱۱ بجے دن جامع مسجد محبوب شاہی ، مالاکنٹہ روڈ،روبرو معظم جاہی مارکٹ میں اسلامک ہسٹری ریسرچ کونسل( انڈیا) آئی ہرک کے زیر اہتمام ’’۱۳۶۷ ‘‘ ویں تاریخ اسلام اجلاس کے موقع پر منعقدہ مذاکرہ ’’قربانی‘‘میں حصہ لیتے ہوے ان خیالات کا مجموعی طور پر اظہار کیا۔ مذاکرہ کی نگرانی ڈاکٹر سید محمد حمید الدین حسینی شرفی ڈائریکٹر آئی ہرک نے کی۔قرآن حکیم کی آیات شریفہ کی تلاوت سے مذاکرہ کا آغاز ہوا۔ نعت شہنشاہ کونین ؐپیش کی گئی۔ اہل علم اور باذوق سامعین کی کثیر تعداد نے شرکت کی۔ پروفیسر سید محمد حسیب الدین حمیدی جائنٹ ڈائریکٹر آئی ہرک نے مذاکرہ کا آغاز کرتے ہوے کہا کہ اصطلاح شریعت میں مخصوص ایام میں بہ نیت عبادت مخصوص حلال جانور ذبح کرنا قربانی ہے۔ مولانا مفتی سید محمد سیف الدین حاکم حمیدی کامل نظامیہ و معاون ڈائریکٹر آئی ہرک نے کہا کہ جانوروں کی قربانی کا حکم تمام ہدایت یافتہ امتوں کو تھا۔اضحیہ کے معنی قربانی اور ذبیحہ کے ہیں اسی مناسبت سے قربانی کے دن ۱۰؍ذی الحجہ کو عید الاضحی یا یوم الاضحی کہا جاتا ہے اور عید الاضحی کے بعد مزید دو دن شریعت نے قربانی کے لئے مخصوص رکھے ہیں۔ عہد قدیم میں قربانی کی قبولیت و عدم قبولیت کے بارے میں مختلف النوع تصورات اور عقیدے عام تھے۔ڈاکٹر سید محمد رضی الدین حسان حمیدی معاون ڈائریکٹر آئی ہرک و اسسٹنٹ پروفیسر عرعر یونیورسٹی نے کہا کہ حضور اقدس ؐ کی بعثت شریفہ تک عرب قربانی کے ضمن میں متعدد خود ساختہ طریقوں پر عمل کرتے تھے۔ اسلام نے ان تمام اضافی حرکات کا ابطال کیا اور لوگوں کو قربانی کے بنیادی مقصد اور روح یعنی حکم خدا وند کریم کی بجاآوری، تسلیم و رضا اور جذبہ عشق و محبت سے واقف کروایا۔ اسلام نے نیت اور پاک ارادوں کو اہمیت دی۔صاحبزادہ سید محمد علی موسیٰ رضا حمیدی نے بھی مخاطب کیا۔ نگران مذاکرہ ڈاکٹر سید محمد حمید الدین شرفی نے کہا کہ قربانی دراصل اطاعت خالق کے حقیقی جذبہ کو مضبوط کرنے اور تقویٰ و پرہیزگاری کو برقرار رکھنے کا مؤجب ہے حصول قرب حق کا بہترین وسیلہ ہے۔ ساری دنیا میں جہاں جہاں مسلمان قربانیاں دیتے ہیں اور اسی طرح حج کے موقع پر منیٰ میں کی جانے والی قربانیوں کے ذریعہ جو اقتصادی عمل ہوتا ہے اس پر غور کریں تو معلوم ہوگا کہ اس میں اہل ایمان کے لئے آسودگی اور انسانوں کے ایک بڑے حصہ کی بھلائی، افادہ اور ترقی مضمر ہے۔