قطر میں سزائے موت کے منتظر ہندوستانی بحریہ کے سابق عہدیداروں کی رہائی کیسے ممکن

   

شیشادھری چاری
کینیڈا سے سفارتی تنازعہ و اختلافات کے بعد ہندوستان کو اب مملکت قطر سے اپنے تعلقات کو لیکر چیلنجز سے پُر صورتحال کا سامنا ہے ۔ تیل اور قدرتی گیس سے مالا مال مشرق وسطی کے اس دولت مند ترین ملک میں جاسوسی کے ایک مبینہ کیس میں قطر کی ایک عدالت نے ہندوستانی بحریہ کے 8سابق اعلی عہدہ داروں کو سخت ترین سزا یعنی سزائے موت سنائی جہاں تک مملکت قطر کا سوال ہے یہ وہ عرب ملک ہے جہاں 8 لاکھ سے زائد ہندوستانی برسرروزگار ہیں اور لاکھوں ہندوستانی وہاں روزگار یا ملازمتیں حاصل کرنے کے خواہاں رہتے ہیں ۔ قطر کے مطابق ہندوستانی بحریہ کے یہ آٹھ سابق اعلی عہدہ دار الظاہر ( کمپنی کیلئے خدمات انجام دے رہے تھے یہ وہ کمپنی ہے جو ایئرو اسپیس ، ڈیفنس اور سیکوریٹی انڈسٹریز کو مکمل سپورٹ سٹمس فراہم کرتی ہے ۔ اگر دیکھا جائے تو ہندوستان فی الوقت ایک ایسی صورتحال سے گھیرا ہے جہاں اسے اس مقدمہ سے متعلق جامع معلومات حاصل نہیں ہیں اور نہ ہی اس کیلئے یہ معاملہ واضح دکھائی دیتا ہے ہاں چونکہ ہندوستان اور قطر کے مضبوط تعلقات ہیں تعلقات کی بناء پر وہ سفارتی کوششیں کرتے ہوئے مثبت نتائج برآمد کرسکتا ہے ۔
ہند ۔ قطر مضبوط تعلقات :۔ ہندوستان اور قطر کے درمیان اقتصادی شعبہ ، شعبہ دفاع اور تہذیبی و ثقافتی شعبہ میں باہمی تعلقات کی ایک طویل تاریخ ہے اور دونوں ملکوں کے ان تعلقات کو خوشگوار اور باہمی مفادات کا تحفظ کرنے والے کہا جاسکتا ہے دونوں ملکوں کے درمیان اعلی سطحی وفود کا تبادلہ بھی ہوا ہے مثال کے طور پر مارچ 2015 میں امیر قطر صاحب السموع الشیخ تھیم بن حمد الثانی نے ہندوستان کا دورہ کیا اس کے بعد جون 2016 میں وزیراعظم نریندر مودی نے قطر کا دورہ کیا ۔ دونوں ملکوں نے باہمی امور کو دیکھنے اور انہیں آگے بڑھانے کیلئے بین وزارتی اعلی سطحی مشترکہ کمیٹی تشکیل دینے کا فیصلہ کیا جس کا ایک اور مقصد یہ بھی تھا کہ باہمی دلچسپی کے علاقائی و عالمی مسائل پر بھی مشترکہ موقف اختیار کرنے میں مدد مل سکے ۔ آپ کو یاد دلادیں کہ یو پی اے کے دور میں اس وقت کے وزیراعظم ڈاکٹر منموہن سنگھ نے 2008 کے دوران قطر کا دورہ کیا اس موقع پر دفاعی شعبہ میں تعاون و اشتراک کیلئے ہند ۔ قطر معاہدہ پر دستحظیں ثبت کی گئیں اس معاہدہ کو دونوں ملکوں کے تعلقات میں ایک نیا سنگ میل تصور کیا گیا ۔ دوحہ کو حماس کی جانب سے اسرائیل پر کئے گئے ظالمانہ حملہ ( مضمون نگار کو یہ بھی کہنا چاہئے تھا کہ غزہ پر فلسطینیوں کے خلاف اسرائیل کی درندگی بلکہ دہشت گردی ) اور غزہ پر اسرائیلی فوج کی جوابی کارروائی کے باعث مشرق وسطی میں پیدا ہوئے بحران کو بھی ملحوظ رکھنا چاہئے ۔ مبینہ جاسوسی کیس میں اسرائیل کے امکانی طور پر ملوث رہنے سے متعلق شکوک و شبہات کو تقویت پہنچتی ہے یا اسے جان بوجھ کر تقویت پہچائی جاتی ہے تو دوحہ اس جال میں پھنس سکتا ہے اگرچہ غیرارادی طور پر ہی کیوں نہ ہو۔ یہاں اس بات کا تذکرہ ضروری ہوگا کہ حماس موافق عناصر ان شکوک و شبہات کو تقویت پہنچا سکتے ہیں ۔ واضح رہے کہ حماس نے 2012 میں قطر کے دارالحکومت دوحہ میں اپنا دفتر کھولا اور حماس کے کئی قائدین شمول اسمعیل ھینہ اور حماس کے سابق سربراہ خالد مشعل خود دوحہ میں مقیم ہیں جبکہ سمجھاجاتا ہے کئی غیر ریاستی عناصر اور دہشت گرد تنظیمیں قطر سے کام کررہی ہیں ۔ اگر ان اشاروں کنائیوں باالفاظ دیگر الزامات میں ذرہ برابر بھی سچائی ہو تب بھی اس سے صرف اس دعوے کو تقویت حاصل ہوگی کہ قطر بڑی تیزی سے غیر ریاستی عناصر ، دہشت گردوں اور کرایہ کے سپاہیوں کے گروپوں کا اڈہ بنتا جارہا ہے اور یہ بھی حقیقت ہیکہ 2017-2021 کے درمیان سعودی عرب ، برطانیہ ، مصر اور متحدہ عرب امارات نے قطر کے ساتھ اپنے سفارتی اور تجارتی تعلقات ختم کر لئے تھے ساتھ ہی قطر پر صفائی و بحری ( سمندری ) پابندیاں بھی عائد کی تھی ۔ ان ملکوں نے یہ الزام عائد کیا تھا کہ قطر نہ صرف دہشت گرد تنظیموں کی مدد کررہا ہے بلکہ اس کا جھکاو ایران کی طرف بہت زیادہ ہے تاہم ان ملکوں نے قطر کی ناکہ بندی 2021 میں جی سی سی ( گلف کوآپریشنس کونسل ) کے اجلاس میں ختم کرنے کا اعلان کیا اس طرح اس پر عائد پابندیاں اُٹھائی گئیں ایسے میں قطر کے بہتر مفاد میں ہوگا کہ وہ اسرائیل ، حماس جنگ سے خود کو دور رکھے تاکہ اس کا اعتبار باقی رہے ۔ ہندوستان قطر سے اسی طرح کے طریقہ کار کو اپنانے کیلئے کہہ سکتا جہاں سزائے موت کو عمر قید میں تبدیل کر کے ان عہدہ داروں کو ہندوستانی جیل میں سزاء کاٹنے کا انتظام کیا جاسکتا ہے ۔ آپ کو یہ بھی بتادیں کہ 2015 میں امیر قطر کے دورہ ہندوستان کے موقع پر ہندوستان اور قطر نے باہمی دلچسپی کے کئی امور پر نہ صرف تبادلہ خیال کیا بلکہ مختلف شعبوں بشمول جن ملزمین کو سزاء سنائی گئی ان کے تبادلوں سے متعلق یادداشت مفاہمت پر دستخط بھی کئے ۔ دوسری جانب سفارت کاروں کے ماہرین کا کہنا ہیکہ امیر قطر ان ہندوستانی قیدیوں کو ماہ رمضان کے دوران معافی دے سکتے ہیں اور اس کیلئے اعلی سطحی طور پر جیسے صدر جمہوریہ ہند امیر قطر سے اپیل کرسکتے ہیں ۔
( نوٹ : ادارہ مضمون نگار کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں )