لاک ڈاون میں ہم نے یہ کیا کردیا؟

   

کرن تھاپر
وہ کہتے ہیں کہ ایک بحران ہم میں پائی جانے والی خوبیوں کو باہر لاسکتا ہے، لیکن افسوس یہ اس کے برعکس بھی کام کرسکتا ہے۔ میں ایک دو شعبوں کے بارے میں سوچ سکتا ہوں پر افسوس کہ یہ سچ ثابت ہوتا ہے۔ بہرحال اس اتوار کو جیسا کہ ہم نے لاک ڈاون میں جزوی راحت کا انتظار کیا۔ یہاں تک کہ اس میں مزید توسیع کردی گئی۔ آیا شاید یہ خود کے ایک تاریک پہلو پر روشن ڈالنے کا ایک موقع ہے، اگر حالات بہتر ہوتے ہیں اور مجھے امید ہے کہ وہ بہتر ہوں گے اور بہت جلد ہم یہ فراموش کردیں گے کہ ہم کتنے خوفزدہ ہوسکتے ہیںلیکن آج وہی بالکل درست ثابت ہوا جن کے بارے میں میں لکھنا چاہتا ہوں، میں جانتا ہوں کہ آپ میں سے کئی لوگ اتفاق نہیں کریں گے اور کچھ تو ناراض بھی ہوسکتے ہیں۔ ایسا ہوسکتا ہے یہی وہ جوکھم ہے جو میں لینے کے لئے تیار ہوں، مجھے یہ بھی امید ہے کہ آپ مطالعہ جاری رکھیں گے لیکن اگر آپ یہ قبول نہیں کرتے ہیں تو یہ آپ کا حق ہے۔

میں بہت ہی مایوس ہوں درحقیقت پریشان ہوں میرے حوصلہ پست ہوچکے ہیں اور یہ سب کچھ اس لئے ہوا کیونکہ ہم نے مخالف مسلم جذبات کی شرمناک نمائش کا مشاہدہ کیا ہے۔ میں اس حقیقت سے کما حقہ واقف نہیں تھا کہ یہ تعصب ہم میں سے کئی لوگوں میں گہرائی تک سرائیت کرگیا ہے اور کیسے باآسانی منظر عام پر آسکتا ہے، لیکن جب یہ پھوٹ پڑا تو کوئی چھپا ہوا تھا اور نہ ہی اس کا بھیس بدلا ہوا تھا۔ ہم نے مسلم سبزی فروشوں اور دودھ فروشوں کو نشانہ بنایا اور انہیں الگ تھلگ کردیا۔ میرٹھ اور احمد آباد کے اسپتالوں میں مسلم مریضوں کو اپنی برہمی کا شکار بنایا۔ یہاں تک کہ خلیج کی اکثریت والی آبادی کے خلاف فحش گوئی کی اور یہ بھول گئے کہ ہم ان کے ملکوں میں مہمان ہیں۔عام اوقات میں لوگ اپنی ناپسند چیزوں کو مخفی رکھتے ہیں وہ انہیں تسلیم کرنے سے بھی شرمندہ ہیں لیکن پچھلے چالیس سے زائد دنوں سے ہم نے بڑی َھٹائی کے ساتھ اپنی عجیب و غریب حرکتوں کا مظاہرہ کیا۔ ہماری ان حرکتوں سے ہمارے لاکھوں ہم وطنوں نے محسوس کیا کہ ان کے تئیں نفرت کا اظہار کیا جارہا ہے اور غیر ضروری طور پر صرف اس لئے ان سے نفرت کی جارہی ہے کیونکہ وہ مسلمان ہیں۔

میںاس سلسلہ میں کسی کے نام لینا نہیں چاہتا اور نہ ہی کسی پر انگلی اٹھانا چاہتاہوں کیونکہ ہم تمام یہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ ہم میں خاطی اور قصور وار کون ہیں۔ ان میں کئی ایسے لوگ ہیں جو ہر لحاظ سے طاقتور اور بااثر ہیں۔ بے شمار ایسے ہیں جو بہت زیادہ دولت مند ہیں ان میں ایک بڑی تعداد ان لوگوں کی ہے جن کی کبھی میں نے اخلاقی اقدار اور دانشمندی کے لئے ستائش کی تھی اور ہاں چند ایک ایسے بھی ہیں مجھے عزیز ہیں۔اس نفرت انگیز تعصب و جانبداری نے ذات پات رنگ و نسل عقیدہ مذ ہب اور زبان کے سارے حدود پار کرلئے ہیں۔ یہ اسی وائرس کی طرح ہے جس نے ہم میں سے کئی کو متاثر کیا ہے، اس کے باوجود ہم نے مزاحمت نہیں کی۔کورونا وائرس سے بڑی بہادری سے لڑتے ہوئے کامیابی کے لئے ناپاک تعصب کی اجازت دی۔میں اس آگ کو بھڑکانے یا اسے ہوا دینے کے لئے میڈیا کو الزام دیتا ہوں اور حکومت کو مورد الزام ٹھہراتا ہوں کہ وہ شعلوں کو بھڑکاتی ہے پچھلے 40 برسوں سے ہم خوفزدہ تھے اور خوف لوگوں کو غلط اور غیر ذمہ دارانہ برتاو پر اکساتا ہے یہاں تک کہ غیر ذمہ داری بھی۔
یہی وجہ ہے کہ میڈیا کا یہ فرض بنتا ہے کہ وہ عقلمندی سے کام لے اور متوازن موقف اختیار کرے لیکن اس کی بجائے میڈیا نے ہمارے زخموں کو کھرچ کر خون بہانے کی کہانیاں پیش کیں۔ ہمارے چند ٹیلی ویژن اینکرس نے ہمیں یہ احساس دلایا کہ ہمارا تعصب و جانبداری، منصفانہ ہے جہاں تک میرا تعلق ہے وہ کبھی بھی اپنے آپ کو نہیں چھڑا سکتے۔تاہم میرا احساس ہیکہ یہ حکومت ہی ہے جس نے اس رجحان کے بہت زیادہ فروغ کا باعث بنی بحران کے وقت اس کے حل کے لئے آپ اپنی قیادت کی طرف امید بھری نظروں سے دیکھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جنگوں اور وباوں کے دوران ہم خود بخود ایک پرچم تلے جمع ہو جاتے ہیں اور جواب میں رہنمائی کے خواہاں ہوتے ہیں یعنی یہ چاہتے ہیں کہ قیادت ہماری رہنمائی کرے۔صرف اتناہی نہیں کہ کیا کرنا چاہئے بلکہ اتناہی ضروری ہے کہ کبھی نہ کیا جائے۔ اسی مقام پر ہماری حکومت نے ہمیں ناکام کیا۔ یہ صرف ایک امتیاز ہے اس نے کوئی صلاح نہیں دی اور یقینا نصیحت کبھی نہیں کی۔ اس نے ہمیں مکروہ رویہ اختیار کرنے دیا اور مجھے کم از کم یہ تاثر دیا کہ حکومت کو اس رویہ سے کوئی مسئلہ نہیں ہے۔
ہماری بدبختی کی ایک اور مثال یہ ہمارا وہ سلوک ہے جو ہم نے ڈاکٹروں، نرسیس اور ہیلتھ ورکروں کے ساتھ روا رکھا۔ صاف طور پر کہتاہوں کہ یہ ناقابل بیان ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو میں محفوظ اور تندرست رکھ سکتے ہیں لیکن ابھی بھی ہم ان کے شکر گذار نہیں۔ ان پر لعن طعن کرتے ہیں کیونکہ ہمیں خوف ہیکہ وہ ہمیں بیماری سے متاثر کرسکتے ہیں۔ پوری دیانتداری سے کہتا ہوں کہ میں دنیا میں کوئی ایسے ملک کے بارے میں نہیں جانتا جہاں اس ہاتھ کو جو ہمیں زندہ رکھتا ہے وہی لوگ کاٹ کھا رہے ہیں جنہیں ان کی سب سے زیادہ ضرورت ہوسکتی ہے۔کم از کم اس مثال کے طور پر آیا ہماری حکومت نے خوشی خوشی یا پھر مجبوری سے کوئی کارروائی کی ہے۔ لیکن یہ پریشان کن سوال اٹھتا ہے کہ اس (حکومت) نے ہفتوں بلکہ میں کہہ سکتا ہوں کہ مہینوں سے جو خالص مسلم جذبات بھڑکائے گئے اس طرح کی مزاحمت کا انتخاب کیوں نہیں کیا جس طرح ڈاکٹروں پر حملہ کرنے والوں سے نمٹنے کے لئے کیا۔ آپ اور میں سچالی جانتے ہیں اور یہ صرف سوال پر مزید زور دیتا ہے اور یہ سوال جواب کو بھی مزید ضروری بناتا ہے۔