لاک ڈاون : نظر بندی ۔ اکتاہٹ

   

روش کمار

کوئی بارہ سال قبل پہاڑ گنج میں چاقو تیز کرنے والے نے بھی ایسا ہی کچھ کہا تھا وہ سائیکل پر ہی بیٹھا رہتا ہے سائیکل کو دیوار سے لگادیتا تاکہ دوسروں کو خلل نہ ہو اس طرح وہ چاقو تیز کرتا ہے۔ اس نے کہا تھا کہ کبھی ایمس نہیں دیکھا کنارٹ پیالیس میں کیا گیا تبدیلیاں آئی ہیں اس کا مشاہدہ نہیں کیا۔ رات تین بجے دلباغ چائے والے کی یاد آگئی نیند ٹوٹ گئی تھی۔ نیند ٹوٹتی ہے تو بہت ساری باتیں یاد آنے لگتی ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ رات پیچھے رہ گئی ہے آپ آگے نکل گئے ہیں۔ تب ہی دلباغ چائے والے کی یاد آگئی۔ نام سے کچھ بھی یاد نہیں آیا ایک بڑی سی کیتلی یاد آرہی تھی تانبہ کی کیتلی اور ہرمندر صاحب کے بازو والے بازار کی گلی یاد آنے لگی۔ بہت ساری تانبے کی کیتلیاں تھیں سال بھی یاد نہیں آیا۔ ذہن میں یہی بات گھومتی رہتی کہ وہ چائے والا بھی تو کبھی اپنی گلی سے نہیں نکلا تھا۔ اسی گلی میں اپنے چھوٹے غونچہ میں برسوں بیٹھنے کا تجربہ تھا کیا وہ کبھی اکتاہٹ کا شکار نہیں ہوا۔اس نے پوچھنے پر کہا تھا کہ صرف ایک بار امرتسر سے باہر گیا ہے جالندھر وشنودیوی اور چندی گڈھ 30 سال سے اس کی دنیا اسی گلی اور اسی کیتلی کے ساتھ گذرتی ہے۔ شہر کو لیکر کوئی جوش نہیں تھا۔ وہ شہر کو چھوڑکر آگے بڑھ گیا تھا یا ٹھہر گیا تھا اور شہر کو جہاں جانا ہو جانے کا راستہ دے دیا تھا۔

کوئی بارہ سال قبل پہاڑ گنج میں چاقو کی دھار تیز کرنے والے نے بھی ایسا ہی کچھ کہا تھا وہ سائیکل پر ہی بیٹھا رہتا تھا، سائیکل کو دیوار سے لگا دیتا ہے۔ اس کے بعد ہر سوال کے جواب میں یہی کہتا کہ نہیں دیکھا۔ دہلی میں ہوکر بھی وہ دہلی میں نہیں ہے۔ وہ اپنے کام کو جانتا ہے۔ دلی کو نہیں جانتا۔ پٹنہ کے ہزاری ساہو یاد آتے ہیں جب بھی انہیں دیکھا اس کاونٹر پر دیکھا میں جب چھوٹا تھا تب وہ بڑے تھے میں جب بڑا ہوا تو وہ بوڑھے تھے ان کی دکان سے متصل ایک راستہ تھا۔ دن بھر ارتھیاں جاتی رہتی تھیں اس راستے بہت سے لوگ سبزی کی خریدی کے لئے جاتے تھے۔ دکان میں بہت گاہک ہوتے تھے ہرادھار سامان کا صحیح حساب لکھ لیتے تھے۔ ہزاری ساہو ایک ہی جگہ بیٹھے رہتے تھے۔ ایک دن وہ کاونٹر خالی ہوگیا۔ ہزاری ساہو اس راستے سے چلے گئے جس راستے سے باقی لوگ جایا کرتے تھے۰ وہ کبھی دکان سے باہر نہیں دیکھتے تھے سب باہر سے دیکھتے تھے کہ وہ اپنی دوکان میں ہے یا نہیں۔ ساہو جی اپنے دکان میں آئے گاہکوں اور دکان کے سامان کو دیکھتے تھے انہوں نے بھی شہر کو جانے کا راستہ فراموش کردیا تھا۔

چار مہینے سے جیسے ہوں ویسے ہی ہوں کئی بار لگتا ہے کہ اکتا گیا، کئی مرتبہ ایسا محسوس ہوتا ہیکہ اکتناہٹ مجھ سے اکتا گئی ہے۔ وہ چاہتے ہیں کہ میں اکتا جاوں لیکن میں اکتاہٹ کا شکار نہیں ہو رہا ہوں۔ یہ پوری طرح درست نہیں ہے بور ہوتا ہوں بور نہیں ہوتا ہوں تو پھر میں ہزاری ساہو، دلباغ چائے والے اور چاقو کی دھار تیز کرنے والوں کو کیوں یاد کرتا رہا؟ یہی جاننے کے لئے تاکہ وہ بور ہوتے ہیں یا نہیں؟ کیا میں اپنی اکتاہٹ کو سمجھنے کے لئے انہیں یاد کررہا تھا یا اس لئے کہ ان لوگوں نے ایک زندگی لاک ڈاون میں گذار دی ہے۔ ہم چار ماہ میں بے چین ہے لیکن وہ روزگار سے جڑے رہ کر بھی نظر بند تھے ہم نظر بند ہوکر روزگار کررہے ہیں۔
رانا پرتاپ بہل ہمارے ٹیچر تھے پارباش مست آدمی تھے ایک دن کہہ دیا کہ اپنے رکشہ والے سے پوچھو کیا وہ کبھی بور ہوتا ہے۔ تم لوگ پڑھنے سے بور ہو جاتے ہو بور ہونا لکژری ہے سارے لوگ بور یا اکتاہٹ کا شکار نہیں ہوتے بہت سارے ایسے لوگ ہیں جو بنا اکتائے جیتے ہیں۔میں رانا پرتاپ بہل کو کیوں یاد کرنے لگا ماسٹر سے اکتاہٹ کے تاریخی پس منظر میں سمجھنے کے لئے؟ میں جاگا کیوں رہ گیا۔