لداخ میں فوجی تیاریاں

   

حُسن کی سرحد میں جب داخل ہوئے
ہر قدم پر اک نئی دیوار تھی
لداخ میں فوجی تیاریاں
ہندوستان اور چین کے درمیان کشیدگی کے باعث لداخ میں فوجی تیاریوں میں شدت سے اندازہ ہوتا ہے کہ سرحد پر سب کچھ ٹھیک نہیں ہے ۔ مرکز کی نریندر مودی زیر قیادت بی جے پی حکومت نے سرحدی کشیدگی کے معاملہ میں ہندوستان کے دو پڑوسی ملکوں چین اور پاکستان کے ساتھ اپنا رویہ سخت کرلیا ہے ۔ نتیجہ میں سرحد پر فوج کو بڑے پیمانہ پر تیاریاں کرنی پڑی ہیں ۔ گذشتہ 16 سال بعد ہندوستانی فوج کی ایل اے سی پر حکمت عملی والی مورچہ بندی کو تیز کردیا گیا ہے ۔ 15 جون کو گلوان جھڑپ میں ہندوستانی فوج کے 20 سپاہیوں کی شہادت کے بعد ہندوستانی فوج نے اپنا موقف سخت کرلیا ہے ۔ اس واقعہ کے بعد وزیراعظم نریندر مودی نے لداخ کا دورہ کر کے سپاہیوں کی حوصلہ افزائی کی تھی ۔ ایک طرف چین کی پی ایل اے فوج کی سرگرمیاں دن بہ دن تشویشناک حد تک بڑھتی جارہی ہیں ۔ دوسری طرف پاکستان نے سیاچن گلشیئر کے علاقہ میں اپنی فوج کی تعیناتی میں شدت پیدا کردی ہے ۔ حال ہی میں اقوام متحدہ میں پاکستان کے وزیراعظم عمران خاں اور وزیراعظم نریندر مودی کی تقاریر کا تقابلی جائزہ لیا جائے تو اندازہ ہوتا ہے کہ ہندوستان کے پڑوسی ملکوں نے ہندوستان کے خلاف اپنے تیور سخت کرلیے ہیں ۔ وزیراعظم مودی نے اپنی تقریر میں پاکستان کا حوالہ دیا ہے ۔ وسیع تر سرحدی قواعد میں صرف دہشت گردی کے تعلق سے بات کی گئی ہے تو عمران خاں نے عالمی سطح پر مودی حکومت کی جانب سے کی جانے والی اسلامو فوبیا کی باتوں کا نوٹ لیا تھا ۔ دونوں پڑوسی ملکوں پاکستان اور چین کے بارے میں ہندوستان کا نظریہ اور فوجی تیاری بھی مختلف ہے ۔ نتیجہ میں مودی حکومت کی پالیسیوں پر سوال اٹھ رہے ہیں ۔ لداخ کی صورتحال سے عوام کو بے خبر رکھنے کی کوششوں کے درمیان اگر سرحدی کشیدگی بڑھ رہی ہے تو یہ حالات کی سنگینی کو چھپانے کی نادانی کی جارہی ہے ۔ اکشے چن میں بھی چین کی فوج کو بھاری تعداد میں روانہ کیا گیا ہے ۔ لداخ میں موسم سرما کے دوران ہندوستانی فوج کو تمام ہتھیاروں سے لیس کر کے تعینات کیا جارہا ہے ۔ ہتھیاروں ، خیموں اور خوراک کا بندوبست کرنے کا مقصد چین کی ناعاقبت اندیشانہ کارروائیوں کا جواب دینا ہے لیکن لداخ میں سرما کے دوران ہندوستانی فوج کو مصروف رکھنے کا فیصلہ بہت بڑی آزمائش کی گھڑی ہے ۔ اگر پیپلز لبریشن آدمی ( پی ایل اے ) نے بھی اپنی فوجی تیاریوں میں اضافہ کردیا تو یہ حالات بد سے بدتر ہوجائیں گے ۔ اب سرحد پر صرف کشیدگی ہے بعد ازاں ہندوستان کی فوجی سلامتی کے منصوبہ سازوں کے مطابق اگر چین کی طرف سے ناعاقبت اندیشانہ کارروائی ہوتی ہے تو ہندوستانی فوج کو چین کی تیاریوں کا درست اندازہ کر کے تیاری کرنی ہوگی ۔ گذشتہ دو دہوں کے دوران چین ہندوستان کے ساتھ ایک طرف سفارتی تعلقات کو بہتر بنانے کی بات کرتا رہا ہے دوسری طرف سرحدی دراندازی کی کارروائیاں جاری رکھے ہوئے ہے ۔ اس تعلق سے سابق میں کئی قومی قائدین نے ہندوستانی حکمرانوں کو خبردار کیا تھا کہ چین ناقابل بھروسہ ملک ہے ۔ ہندوستان کو پاکستان سے زیادہ چین سے خطرہ ہے ۔ سابق وزیر دفاع جارج فرنانڈیز نے بھی کہا تھا کہ چین کی بڑھتی فوجی طاقت سے یہ حقیقت سامنے آئی ہے کہ ہندوستان کے لیے چین دن بہ دن سنگین خطرہ بنتا جارہا ہے ۔ اب مشرقی لداخ میں ہندوستان کی فوج اور چینی سپاہیوں کا آمنا سامنا ایک مشکل دور کی طرف لے جاسکتا ہے ۔ ہندوستان اور چین کو فوجی طاقت کے مظاہرہ کے بجائے سفارتی امور پر توجہ دینے کی ضرورت ہے ۔ اگر لداخ میں اس سرما کے دوران چین کی فوج پی ایل اے نے جارحانہ کارروائیاں شروع کی تو یہ ہندوستان کو بھی موثر جواب دینے کی ضرورت ہوگی لیکن سوال یہ ہے کہ آیا ہندوستانی فوج کو لداخ کی بلند بالا چوٹیوں پر فوجی تیاریوں کیلئے تمام سہولتیں اور ہتھیار گولہ باورد دیا گیا ہے ۔ وزیر دفاع کو اس سلسلہ میں کسی کوتاہی کا مظاہرہ نہیں کرنا چاہئے۔۔