نئی دہلی۔شادیوں کے علاوہ سے مذہب تبدیل کرانے کے لئے مبینہ”لوجہاد“ کے حوالے سے اتراکھنڈ اور اترپردیش میں بنائے گئے قوانین کے خلاف دائرکردہ درخواستوں پر سپریم کورٹ نے پیر کے روز نوٹس جاری کی ہے۔
چیف جسٹس ایس اے بابڈی‘ جسٹس وی راما سبرامنین‘ اور اے ایس بوپنا پر مشتمل ایک بنچ نے وشال ٹھاکرے اور دیگروں کے علاوہ سماجی جہدکار تیستا ستلواد کی این جی او’سٹیزنس فار جسٹس اینڈ پیس(سی جے پی)جانب سے دائر کردہ درخواستوں کوتسلیم کیا۔
تاہم مذکورہ بنچ نے شادی کے لئے تبدیلی مذہب کے واسطے قبل ازوقت اجازت لینے کی ضرورت پر مشتمل اس قانون پر توقف لگانے سے انکار کردیاہے۔
سینئر ایڈوکیٹ چندر ادوئے سنگھ جو سی جے پی کی جانب سے پیش ہوئے تھے نے ان قوانین پر توقف مانگا جس میں شادی کے لئے تبدیلی مذہب کے واسطے قبل ازوقت اجازت لینے پڑتی ہے۔
سینئر ایڈوکیٹ چندر اودئے سنگھ نے عرض کیاکہ یہ دفعات جس میں شادی کے لئے قبل ازوقت اجازت لینے کے ”جابرانہ“ہیں اور ناگوار بھی ہیں۔
انہوں نے یہ بھی عرض کیاکہ کئی بے قصور لوگوں کو یوپی آرڈیننس مبینہ”لوجہاد“ کی بنیاد پر پولیس نے اٹھالیاہے۔
مذکورہ بنچ نے ان درخواست پر ردعمل پیش کرنا بہتر نہیں سمجھا اور درخواست گذار وں سے استفسار کیاکہ وہ متعلقہ اعلی عدالتوں سے رجوع کریں۔
سالسیٹر جنرل توشار مہتا نے بنچ کو بتایاکہ الہ آباد ہائیکورٹ نے پہلے ہی مذکورہ قوانین کو کئے گئے چیالنج کو پہلے ہی تسلیم کیاہے۔
سی جے ائی نے بارہا کہاکہ”اعلی عدالتوں میں یہ چیالنج پہلے ہی زیر التوا ہے۔ آپ لوگ وہاں پر کیوں نہیں جاتے۔
ہم یہ نہیں کہہ رہے ہیں کہ تمہارا مقدمہ برا ہے۔ مگر سپریم کورٹ میں راست آنے کے بجائے آپ کو پہلے اعلی عدالتوں سے رجوع ہونا چاہئے“۔
مگر سی جے ائی نے سی یو سنگھ اور وکیل پردیپ کمار یادو (کو اس معاملے سے جوڑنے کی وجہہ سے پیش ہوئے) کے پیش ہونے کے بعد اپنا ذہن بدل لیاہے‘ جنھوں نے یہ عرض کیاکہ دوریاستوں میں چیالنج کیاگیاہے‘ جس کی وجہہ سے معاشرے میں بڑے پیمانے پر مشکلات پھیل رہی ہیں۔
مذکورہ وکلا نے عرض کیاکہ مزید دو ریاستیں جیسے مدھیہ پردیش اور ہریانہ اسی طرح کے قوانین پر چل رہی ہیں۔یادو نے عرض کیاکہ ایک سے زائد اعلی عدالتوں میں معاملات زیر التوا ہوتے ہیں تو عدالت عظمیٰ کو چاہئے کہ وہ اس کو تسلیم کرے۔
سی یو سنگھ اور یادو کی جانب سے بہت زیادہ اسرار کے بعد سی جے ائی نے کہاکہ ”ٹھیک ہے‘ ہم نوٹس جاری کرتے ہیں“۔ تاہم مذکورہ سی جے ائی سی یو سنگھ کی اس درخواست پر قائل نہیں ہوئے کہ وہ کہہ رہے ہیں کہ اس پر تفصیلی سنوائی کی ضرورت ہے۔
سی جے ائی نے نوٹس کے لئے احکامات جاری کرتے ہوئے کہاکہ ”آپ کہہ رہے ہیں کہ ارٹیکل32کے تحت ایک راحت کے لئے اس کو تسلیم نہیں کیاجاسکتا ہے۔
چاہئے فراہمی صوابدیدہو یاجبرکا مظاہرہ کرنے کی ضرورت ہے۔جب آ پ راست سپریم کورٹ آتے ہیں تو مسئلہ یہ ہوتا ہے“۔ چار ہفتوں میں نوٹس کا انہیں جواب دینا ہے۔
حالیہ دنوں میں اترپردیش کے غیر قانونی طریقے سے تبدیلی مذہب کی روک تھا آرڈیننس 2020اور اتراکھنڈ فریڈم مذہبی ایکٹ2018کی ائینی درستگی کوچیالنج کرتے ہوئے مذکورہ درخواستیں دائر کی گئی ہیں۔
سی جے پی نے اپنے پی ائی ایل کے ذریعہ وکیل تانیم کشور نے یہ مواد پیش کیاکہ مذکورہ قوانین ایکٹ اور آرڈیننس کی طرف مائل کرتے ہیں دونوں ائین کے ارٹیکل 21دونوں کی خلاف ورزی ہے کیونکہ ریاست کو یہ اختیار دیتے ہیں کہ انفرادی کے طور پر ایک ذاتی فرد کی آزادی اور مذہبی آزادی کو مسلط کرتے ہیں۔