لوک سبھاالیکشن:مسلم امیدواروں کو ٹکٹ دینے سے سیاسی پارٹیوں کا گریز

   

پچھلے 20 سالو ںمیں پہلی بار مسلمانوں کو بڑی پارٹیوں نے سب سے کم ٹکٹ دیئے

10بڑی ریاستو ں میں ایک بھی مسلم امیدوار نہیں!

نئی دہلی: آبادی میں حصہ داری کے نعروں کے درمیان لوک سبھا انتخابات میں مسلمانوں کو دیئے گئے ٹکٹ نے سب کا ساتھ، سب کا وکاس اور سیکولر پارٹیوں کے ہتھکنڈوں، کردار اور چہرے کو بے نقاب کر دیا ہے۔ پچھلے 20 سالوں میں پہلی بار مسلمانوں کو لوک سبھا انتخابات میں بڑی پارٹیوں اور ان کے اتحادوں نے سب سے کم ٹکٹ دیئے ہیں۔ اس بار بھارتیہ جنتا پارٹی نے صرف 2 مسلمانوں کو ٹکٹ دیا ہے۔ ان میں سے ایک ٹکٹ پارٹی کی طرف سے کیرالہ میں دیا گیا ہے، جہاں اس کے پاس مضبوط حمایتی بنیاد نہیں ہے۔کانگریس مسلمانوں کو ٹکٹ دینے میں بھی ناکام ثابت ہوئی ہے۔ پارٹی نے جھارکھنڈ اور گجرات سمیت 10 بڑی ریاستوں میں ایک بھی مسلم امیدوار کو کھڑا نہیں کیا ہے۔ کانگریس نے مغربی بنگال میں مسلمانوں کو سب سے زیادہ ٹکٹ دیے ہیں، لیکن یہاں بھی سہ رخی مقابلے کی وجہ سے مسلم امیدواروں کے لیے جیتنا آسان نہیں ہے۔ یعنی کورم پورا کرنے کے لیے پارٹی نے کمزور سیٹوں پر مسلمانوں کو کھڑا کیا ہے۔ پیو ریسرچ کے مطابق 2020 میں ہندوستان میں مسلمانوں کی آبادی تقریباً 15 فیصد ہے۔ اگر آبادی کے حساب سے حصہ دیکھا جائے تو لوک سبھا میں 82 کے قریب مسلم ممبران پارلیمنٹ ہونے چاہئیں۔ اس وقت 131 نشستیں 25 فیصد دلتوں اور قبائلیوں کے لیے مخصوص ہیں۔یہ ریزرویشن سیاسی انصاف کے پیش نظر کیا گیا ہے۔ سیاسی انصاف کا تذکرہ آئین کے اصل دیباچے میں ہے۔ اگر ہم گزشتہ 4 انتخابات کے اعداد و شمار پر نظر ڈالیں تو یہ صرف 30 کے قریب ہے۔ 2004 میں 34 مسلم ایم پی جیتے تھے۔ 2009 میں یہ تعداد 30 تھی۔ 2014 میں 22 مسلمان اور 2019 میں 27 مسلمان جیت کر پارلیمنٹ پہنچے۔ تاہم اس بار ٹکٹوں کی تقسیم میں ہی کھیل دیکھنے میں آیا ہے۔